0
Monday 25 Apr 2016 22:02

مسئلہ فلسطین، ماضی اور حال کے تناظر میں(1)

مسئلہ فلسطین، ماضی اور حال کے تناظر میں(1)
تحریر: سید اسد عباس

مرزا اسد اللہ خان غالب نے کیا خوب کہا:
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

مرزا اسد اللہ خان غالب کا یہ شعر امت مسلمہ کی موجودہ حالت و کیفیت پر کس قدر صادق آتا ہے۔ ویسے تو اس ملت کو درپیش ہر غم ہی لاجواب اور بے حد و حساب ہے، تاہم بعض درد ایسے ہیں، جن کی ہمیں غالب کے شعر کے مطابق عادت ہوچکی ہے اور اب ہمیں وہ مشکلیں مشکلیں نہیں لگتیں۔ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر ایسے ہی دو اہم سیاسی معاملات ہیں، جو گذشتہ نصف دہائی سے زائد مدت سے عالم انسانیت کا بالعموم اور امت مسلمہ کا بالخصوص منہ چڑھا رہے ہیں۔ آغاز سفر میں تو امت مسلمہ نے ان ایشوز پر بڑے زور و شور سے اپنا موقف بیان کیا، حتٰی کہ قابض ریاستوں کے خلاف باقاعدہ جنگیں لڑیں گئیں، تاہم آہستہ آہستہ امت مسلمہ کے ہی مختلف ممالک نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے غاصب کے حق حکومت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ وہ مسلمان ریاستیں جنہوں نے اسرائیل کے وجود کو سفارتی سطح پر قبول نہ کیا، وہ بھی اسرائیل کے ساتھ خفیہ معاہدے کرنے لگیں۔ یوں آج تک صہیونی قوت کا فتح فلسطین کا سفر آہستہ آہستہ اپنی کامیابی کی سمت رواں دواں ہے۔

فتح فلسطین کا لفظ میرا نہیں ہے، یہ لفظ ہمارے محبوب قائد بانی پاکستان محمد علی جناح نے استعمال کیا تھا۔ ان کے بقول یہودی فلسطین میں گھر کی تلاش میں نہیں آئے، بلکہ ان کا مقصد فلسطین کو دو ہزار سال بعد دوبارہ فتح کرنا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے متعدد خطبات و بیانات میں فلسطین کا تذکرہ کیا۔ فلسطین سے متعلق تقریباً ہر خطاب میں قائد اعظم نے عرب مسلمانوں کو یقین دہانی کروائی کہ ہندوستان کے مسلمان آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ آج یقیناً قائد اعظم محمد علی جناح کی روح پاکستان کی حالت زار کے ساتھ ساتھ فلسطین کی حالت زار اور سب سے بڑھ کر عربوں کی حالت زار کو دیکھ کر بے چین ہوتی ہوگی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ عرب جن کی حمایت کا اعلان وہ آج کر رہے ہیں، کل خود فلسطین کے مسئلہ پر پسپائی اختیار کرتے ہوئے صہیونی طاقت کے سامنے ایک ایک کرکے گھٹنے ٹیکتے جائیں گے۔ آپ کو عالم اسلام میں بہت کم ایسی ریاستیں نظر آئیں گی، جنہوں نے آج تک اسرائیل کے غاصبانہ وجود کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی وہ اس اکائی کے ساتھ کسی قسم کے روابط رکھے ہوئے ہیں۔

مسئلہ فلسطین کا پس منظر
فلسطین میں یہودیوں کی دوبارہ آمد کا سلسلہ تقریباً 1890ء میں شروع ہوا۔ جیسے ہی عرب ریاستوں کے یہ علاقے خلافت عثمانیہ کی سرپرستی سے نکلے اور برطانیہ نیز فرانس نے ان علاقوں کی بندر بانٹ کی، اس کے ساتھ ہی یہودی ان علاقوں میں آکر آباد ہونا شروع ہوئے۔ اس مسئلے کے بنیادی طور پر دو پہلو ہیں، جن میں ایک پہلو سیاسی ہے جبکہ دوسرا پہلو مذہبی ہے۔ جیسا کہ قارئین کے علم میں ہے کہ فلسطین اور اس کے گرد و نواح کے علاقے کئی انبیاء کرام علیھم السلام کا مسکن رہے ہیں۔ اسی سبب آج تک موجود تینوں الہامی مذاہب کے پیروکاروں کے لئے یہ سرزمین ایک خاص تقدس اور احترام کی حامل رہی ہے۔ بنی اسرائیل نے مصر سے بے دخل ہونے کے بعد سب سے پہلے اس سرزمین کو اپنا مسکن بنایا، عیسٰی علیہ السلام کی ولادت بھی اسی خطے میں ہوئی۔ بعد ازاں رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معراج بھی اسی سرزمین سے ہوئی۔ یہ خطہ زمین ہر تین مذاہب کا قبلہ رہا ہے۔

قریباً دو ہزار سال قبل رومن افواج نے یہودیوں کو اس خطے سے بے دخل کیا، یہ خانماں برباد یہودی دنیا کے مختلف خطوں میں جاکر آباد ہوئے، تاہم اپنی مذہبی روایات کی روشنی میں اس قوم نے سرزمین فلسطین پر واپسی کا خواب کبھی بھی ترک نہ کیا۔ بعض ایسے شواہد موجود ہیں کہ سامراجی قوتوں کی خلافت عثمانیہ کے خلاف مہم جوئی کے پیچھے یہودیوں کا اہم کردار تھا۔ پہلے مرحلے میں داخلی سازشوں اور نمک خواروں کے ذریعے خلافت عثمانیہ کو کمزور کیا گیا اور ایک اسلامی ریاست کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹا گیا، جبکہ دوسرا مرحلہ یہودی آبادکاری کا تھا۔ وہ یہودی جو یورپ و امریکا میں نہایت عیش و عشرت کی زندگیاں گزار رہے تھے، ان کو اس بے آب و گیاہ وادی میں لانا کوئی آسان کام نہ تھا۔

اس مقصد کے لئے یورپ میں بعض ایسے اقدامات کئے گئے کہ یورپی حکمرانوں کو یہودیوں کے خلاف اقدامات کرنے پڑے۔ ان اقدامات میں ہٹلر پیش پیش تھا۔ یورپ کو عملی طور پر یہودیوں کے لئے جہنم بنا دیا گیا، جس سے ان کی ہجرت کا سامان پیدا ہوا۔ یہ واقعات فقط کہانیاں نہیں ہیں بلکہ بہت سے آزاد اداروں بالخصوص صیہونیت مخالف یہودیوں نے اس حوالے سے کافی تحقیقی کام کیا ہے، جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اس تمام نقل مکانی کے پیچھے خود صیہونیوں کا ہاتھ تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں یہودی پناہ گزین کیمپوں میں پہنچ گئے، وہاں ہولوکاسٹ کی کہانی تشکیل دی گئی اور پوری دنیا میں یہودیوں کو ایک مظلوم قوم کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ مظلوم قوم امریکی سرپرستی، برطانوی اہتمام کے تحت جوق در جوق فلسطین کا رخ کرنے لگی۔

قائد تحریک آزادی ہند اور فلسطین
اس دور پرفتن میں باقی مسلم دنیا کے برعکس برصغیر میں تحریک آزادی و بیداری اپنے عروج پر تھی۔ مسلمانان ہند برطانوی راج کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند سینہ سپر تھے۔ برطانوی قوم کے حیلوں حربوں سے اچھی طرح سے آگاہ تھے، اسی طرح عالم اسلام میں بدلنے والی صورتحال کی پل پل کی خبر رکھتے تھے۔ جب خلافت عثمانیہ کے خلاف برطانوی اقدامات کی بھنک برصغیر کے مسلمانوں کو پڑی تو یہاں تحریک خلافت کا آغاز کیا گیا۔ اپنے تئیں ان قائدین نے بھرپور کوشش کی کہ ملت کا شیرازہ نہ بکھرے اور قوم خلافت کے پرچم تلے یکجان رہے۔ اس مقصد کے لئے چوہدری برادران، علامہ اقبال اور دیگر قائدین نے متعدد ممالک کے دورہ جات کئے۔ قائد آزادی ہند قائد اعظم محمد علی جناح اس پوری تحریک کے سرخیل اور راہنما تھے۔ انہوں نے اپنے متعدد خطابات میں عالم اسلام کو درپیش مسائل کی جانب نشاندہی کی، بالخصوص مسئلہ فلسطین ہمیشہ قائد اعظم کے پیش نظر رہا۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لکھنو میں قائداعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا: میں حکومت برطانیہ کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ اگر اس نے مسئلہ فلسطین کو منصفانہ اور واضح انداز سے نہ لیا اور اس سلسلے میں بہادری و جرات مندی سے اقدام نہ کیا تو یہ سلطنت برطانیہ کی تاریخ میں نکتہ تعیز ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ میں فقط مسلمانان ہند کی بات نہیں کر رہا بلکہ پوری امت مسلمہ کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ منطقی اور منصفانہ ذہنیت کا ہر فرد میری اس بات کی تائید کرے گا کہ اگر برطانیہ نے جنگ سے قبل کے اپنے دعوں، وعدوں اور عزائم کا پاس نہ کیا تو یہ اقدام اپنے لئے گڑھا کھودنے کے مترادف ہوگا۔(آل انڈیا مسلم لیگ لکھنو سیشن، 15 تا 18 اکتوبر 1937ء)
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان شاء اللہ
خبر کا کوڈ : 535226
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش