1
1
Thursday 21 May 2009 13:00

اسلامی جمہوری نظام کے اصول اور خصوصیات

اسلامی جمہوری نظام کے اصول اور خصوصیات
اسلامی طرز فکر میں خداوند سبحان جو اس جہان کا خالق اور چلانے والا ہے اور قادر مطلق ہے تمام کائنات پر حق حاکمیت رکھتا ہے اور اس حق میں کوئی اسکا شریک نہیں ہے۔ لہذا انسانی معاشروں کی سرپرستی اور ان پر حکومت کا حق اصل میں اور ذاتی طور پر صرف خداوند سبحان کے پاس ہے۔ خداوند عالم نے یہ حق انبیاء اور امامان معصومین علیہم السلام اور انکے نہ ہونے کی صورت میں فقیہ جامع الشرائط کو اپنی طرف سے عطا کیا ہے۔ اس بات پر کافی حد تک عقلی اور نقلی )قرآن و سنت سے( دلائل موجود ہیں۔ اسلامی حکومت کی مشروعیت )حق حاکمیت( کو خداوند متعال، جو حاکم مطلق ہے، کی طرف نسبت دینا مسلمان متفکرین کی جانب سے اسلامی حکومت میں لوگوں )عوام( کے کردار اور انکے مقام کے بارے میں اظہار نظر کرنے کا باعث بنا ہے۔ اگرچہ وہ سب اسلامی حکومت میں عوام کے موثر کردار پر اتفاق نظر رکھتے ہیں لیکن اس کردار کی نوعیت اور حدود پر کافی بحث سامنے آئی ہے۔ کچھ کی نظر میں عوام کا کردار اسلامی حکومت کے مفید اور موثر واقع ہونے میں ہے، کچھ کہتے ہیں کہ انکا کردار اسلامی حکومت کی مشروعیت )جواز( کو ثابت کرنے میں بھی ہے اور کچھ کی نظر میں عوام کا کردار اسلامی حکومت کو تحقق بخشنے اور اسکو معرض وجود میں لانے میں ہے۔ کلی طور پر مسلمان متفکرین کے اندر اس حوالے سے دو اہم نظریے پائے جاتے ہیں:
۱۔ حق حاکمیت خدا کو حاصل ہے لیکن عوام کی خواہشات اور انکا انتخاب دینی احکام پر مقدم ہے۔ اس نظریے کے مطابق اسلامی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کی اکثریت کے مطالبات کو اپنے عمل کی بنیاد بنائے۔ لہذا حکومت کی نوعیت اور طریقہ کار کو عوام کی اکثریت مشخص کرتی ہے،
۲۔ اس نظریے کے مطابق بھی حاکمیت کا حق صرف خداوند عالم کو حاصل ہے کیونکہ وہ سب سے بہتر انسان کو سمجھتا ہے اور اسکی حقیقی سعادت اور خوشبختی سے باخبر ہے لہذا وہی ایسے قوانین بنا سکتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اس حقیقی سعادت کو حاصل کر سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ عوام کی اکثریت کے مطالبات صرف اس صورت میں قابل قبول ہیں جب تک وہ دین کی حدود سے تجاوز نہیں کرتے اور عوام کا یہ فرض ہے کہ وہ خدا کے احکامات کو عملی شکل دینے کی خاطر حکومت سے تعاون کریں لہذا انکے مطالبات کبھی بھی دین کی حدود سے خارج نہیں ہونے چاہیئیں۔ اس نظریے کو "دینی جمہوریت" کا نام دیا گیا ہے۔
اس مضمون میں ہمارا محور یہی نظریہ ہے اور ہم اسی بنیاد پر اسلامی حکومت کے مختلف پہلووں کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس نظریے کے مطابق عوام کی رائے اور انکے انتخاب کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ اخلاقی فضیلتوں اور اقدار کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ بلکہ اخلاقی قدروں کو اسلامی حکومت کا محور بنایا جاتا ہے۔ لہذا اسلامی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ عوام کو خوش کرنے کی خاطر دینی اقدار کو نظر انداز کرے۔ مسلمان عوام سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دین کے سائے میں جمہوریت اور آزادی کا مطالبہ کریں اور دین کے مخالف طریقوں کو برداشت نہ کریں۔ اس نظریے کے مطابق ہر قسم کی سیاسی سرگرمیاں دین اور اخلاق کی حدود کے اندر ہونی چاہیئیں۔ اسلام میں ہر قیمت پر طاقت کا حصول جائز نہیں ہے۔

جمہوریت کی تعریف:
جمہوریت کی جدید ترین تعریف عوام کی حاکمیت ہے۔ اس اصطلاح کی تاریخ سن۵ قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے۔ اس دور میں جمہوریت کی تعریف "لوگوں کی لوگوں کیلئے لوگوں پر حکومت" کے طور پر کی گئی۔ جمہوریت یا democracy دو یونانی الفاظ کا مجموعہ ہے۔ "demos" یعنی عوام اور "krafos" یعنی طاقت، حکومت، حاکمیت۔
افلاطون نے یہ لفظ استعمال کیا اور اس طرز حکومت کو سب سے زیادہ پسندیدہ قرار دیا باین معنی کہ جسطرح خوبصورت لباس خواتین اور بچوں کو اپنی طرف جذب کرتا ہے اسی طرح اس طرز حکومت کا ظاہر لوگوں کیلئے جذاب ہے۔ البتہ وہ ایسی طرز کی حکومت کو عوام کیلئے مناسب نہیں جانتا تھا اور ارسطو کی طرح اس ماڈل کی حکومت کو تجویز نہیں کرتا تھا۔
آج جمہوریت کی بہت سی نئی تعریفیں سامنے آئی ہیں۔ اکثر سکالرز اسکو ایک ایسے خاص نظام کے طور پر پیش کرتے ہیں جسکے ذریعے ایک گروہ عوام کی اکثریت کے نام پر اپنا سیاسی اقتدار قائم کر سکتا ہے۔ کلی طور پر جمہوریت کو لوگوں کے ذریعے حکومت کرنے یا بہت زیادہ افراد کے ذریعے انسانی معاشرے کو چلانے یا حکومتی پالیسیوں کو بنانے اور تبدیل کرنے میں لوگوں کی عملی شرکت کے امکان کے طور پر تعرف کیا جا سکتا ہے۔
دینی جمہوریت کی تعریف:
اس سے پہلے کہ ہم دینی جمہوریت کی تعریف کریں بہتر ہے کہ دین کی تعریف کی جائے۔ دین کی تعریف اس طرح سے کی جاتی ہے کہ "دین ایسی تعلیمات، اقدار اور دستورات کا مجموعہ ہے جو وحی اور نبوت کے ذریعے خداوند عالم کی طرف سے انسان کی سعادت اور اسکے کمال کیلئے بھیجے گئے ہیں"۔
اس تعریف کی روشنی میں دینی جمہوریت کی تعریف یوں ہو گی کہ "ایسا جمہوری نظام جس کا مقصد دین کی تعلیمات، اقدار اور دستورات کو انسانی معاشرے پر حکمفرما کر کے انسانی کمال و سعادت کی منازل کو طے کرنا ہو"۔
حکومتی نظام کے جمہوری ہونے سے مراد لوگوں کو حکومتی امور میں شریک کرنا ہے۔ یعنی لوگ حکومت بنانے، حکومت چلانے اور حکمران کو مشخص کرنے میں بنیادی کردار ادا کریں۔ دوسرے الفاظ میں جہموری حکومت کا مطلب یہ ہے کہ عوامی مطالبات پر توجہ دی جائے اور انکی مشکلات کو سمجھا جائے۔ اسی طرح لوگوں کو ہر میدان میں فعالیت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
دینی جمہوریت کے اصول اور خصوصیات:
دین مبین اسلام کی تعلیمات اور پیغمبر اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت سے ایک اسلامی جمہوری حکومت کیلئے مندرجہ ذیل اصول اور خصوصیات کو سمجھا جا سکتا ہے۔
۱۔ خدا محوری:
خداوند سبحان انسان اور کائنات کا خالق ہے اور دنیا کے تمام امور اسی کی طرف پلٹتے ہیں۔ وہ انسان کی تمام صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہے اور اس نے انہیں انسانی صلاحیتوں کی بنیاد پر اسکی زندگی کیلئے ایک جامع پروگرام وضع کیا ہے۔ ایسے انسانی قوانین جو شریعت کے دائرے سے باہر ہوں نہ صرف انسان کی سعادت کا باعث نہیں بنتے بلکہ الٹا اسکی بدبختی اور شقاوت کا باعث بھی بنتے ہیں۔ جیسا کہ اس بات پر مغربی دنیا کی صورتحال گواہ ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے انسان کے پاس حقائق کو سمجھنے کیلئے جو وسائل )حواس خمسہ اور عقل( موجود ہیں اگرچہ وہ بھی خداوند متعال کی طرف سے عطاکردہ ہیں لیکن بہت ہی محدود اور ناقص ہیں۔ لہذا صرف خداوند عالم ہے جو تمام انسانی اور جہانی حقائق سے آگاہ ہے اور صرف وہی انسان کو اسکی حقیقی سعادت کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے۔ یہ کام خداوند منان نے انبیاء علیہم السلام پر وحی کے ذریعے انجام دیا ہے جو ہمارے پاس دین اور شریعت کی صورت میں موجود ہے۔ دینی جمہوریت میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ انسانی معاشرے کی اعتقادی اور فکری بنیادوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اسلامی حکومت کا وظیفہ لوگوں کو جہالت، خودپسندی، شخصی مسائل اور نفسانی خواہشات کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت، معرفت اور علم کے اجالوں کی طرف لے کر جانا ہے۔
۲۔ عوامی شرکت:
ایک اسلامی جمہوری نظام میں سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی سرنوشت کو مشخص کرنے میں عام افراد کی شرکت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے ہر انسان کو اسکی سرنوشت پر اختیار عطا کیا ہے۔ لہذا ایک اسلامی جمہوری نظام میں ملکی معاملات عوام کی رائے سے طے کئے جاتے ہیں۔ یہ رائے مختلف مواقع پر انتخابات ذریعے سامنے آتی ہے۔ خداوند عالم نے کسی کو بھی انسان سے اسکا یہ حق چھیننے یا اسے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں رہنے والے افراد ذہنی طور پر اس قدر باشعور اور توانا ہونے چاہیئیں کہ وہ مختلف مواقع پر حکومتی معاملات میں موثر انداز میں شریک ہو سکیں۔ اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ایک فرض لوگوں کے ذہنی شعور کو ترقی دینا ہے۔ ہمیں اس نکتے کی طرف توجہ رکھنی چاہیئے کہ عوام کی ذہنی پسماندگی استبداد اور ڈکٹیٹرشپ کے ظہور کا زمینہ فراہم کرتی ہے۔
۳۔ قانون کی پابندی:
قانون پر عمل کرنا اور اسکی حدود کی پاسداری کرنا انسانی عقل کا تقاضا ہے۔ دین مبین اسلام شرعی قوانین کی پاسداری اور ان پر عمل کرنے کو واجب سمجھتا ہے اور اسے دنیا اور آخرت کی سعادت کا سبب قرار دیتا ہے۔ تمام انسانی فضیلتوں اور مقاصد کا حصول عدالت کے ذریعے ممکن ہے اور عدالت صرف قوانین کی پاسداری اور ان پر عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک اسلامی نظام میں قانون، حق اور عدالت کا مظہر ہے اور اسکا مقصد معاشرتی عدالت کا قیام اور تمام افراد کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔
۴۔ لائق افراد کو ترجیح دینا:
اسلامی جمہوری نظام میں شخصیت پرستی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ بلکہ اسکی جگہ اصول پرستی اور لیاقت محوری حکمفرما ہے۔ لیاقت محوری کا مطلب یہ ہے کہ ہر منصب پر ایسا شخص فائز ہو جو اس کیلئے لائق ترین فرد ہو۔ لہذا ایسے نظام میں جو شخص حاکم کے عنوان سے سرگرم عمل ہے اس میں وہ تمام اسلامی اور اخلاقی قدریں موجود ہونی چاہیئیں جن پر اسلام زور دیتا ہے۔ اسکے علاوہ اسکو اس حوالے سے سارے اسلامی معاشرے میں لائق ترین فرد ہونا چاہیئے۔

۵۔ عوام کے ذہنی شعور کی ارتقاء:
جمہوریت کا ایک اہم اصول سیاسی میدان میں عوامی ارادے کا ظہور ہے۔ اگر عوام کا یہ ارادہ ایک مناسب شعور اور آگاہی پر مبنی نہ ہو تو اس صورت میں اسلامی جمہوریت تحقق اختیار نہیں کر سکتی۔ لہذا اسلامی جمہوریت کا تقاضا ہے کہ عوام ایک مناسب سیاسی شعور سے برخوردار ہوں۔ اسلامی حکومت اس مقصد کیلئے میڈیا کو ایک وسیلے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ یہاں پر اسلامی معاشرے میں میڈیا کا کردار بھی واضح ہو جاتا ہے۔ میڈیا دراصل حکومت کے پاس لوگوں کی دینی تربیت کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ عوامی شعور کی ترقی کا دوسرا راستہ مختلف علمی مراکز کی تقویت اور عوام کی ان تک آسان رسائی کو ممکن بنانا ہے۔ پڑھے لکھے عوام یقیناً ان پڑھ عوام سے زیادہ باشعور ثابت ہو سکتے ہیں۔
۶۔ انتخاب میں عوام کی آزادی:
اسلامی جمہوری نظام کا ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ عوام اپنے انتخاب میں آزاد ہوں۔ ان پر کسی قسم کا دباو نہ ہو۔ جیسا کہ ہم مغربی ممالک میں دیکھتے ہیں کہ عوام کے انتخاب پر میڈیا حد سے زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔ ایسے انتخاب کو آزادانہ نہیں کہا جا سکتا۔ دینی طرز فکر میں انسان آزاد اور خودمختار ہے اور اسے اپنی سرنوشت کے انتخاب کا مکمل حق حاصل ہے۔ البتہ اسکی آزادی شرعی اور دینی قوانین کی حد میں ہے۔
۷۔ خدمت کا جذبہ:
ایک اسلامی معاشرے میں حکمران طبقہ عوام کا حقیقی خادم ہوتا ہے۔ حکمران طبقے کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کی مشکلات کو حل کریں اور انکی راحتی کے اسباب فراہم کریں۔ اسی طرح انکا فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کو احترام کی نظر سے دیکھیں۔ انکا فرض ہے کہ وہ عوام کی خدمت کیلئے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیں۔
۸۔ نظارت:
اسلامی حکومت کی تشکیل کے بعد لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ سیاسی میدان میں حاضر رہیں اور حکمران طبقے کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ عوام کو چاہیئے کہ وہ ہمیشہ حکمران طبقے اور ذمہ دار افراد کی نگرانی کرتے رہیں کہ کہیں قرآن و سنت کے قوانین سے منحرف تو نہیں ہو رہے۔ ایسے کسی بھی انحراف کے مشاہدے کی صورت میں فوراً انہیں خبردار کریں۔ نظارت کا ایک بہترین نمونہ نصیحت کرنا ہے۔ نظارت کا مطلب یہ ہے کہ اگر عوام حاکم اسلامی کو عادل جانیں تو اسکی اطاعت کریں اور اگر اسکی کسی غلطی کا مشاہدہ کریں تو اسکو یاددہانی کروائیں۔
۹۔ مشورت:
اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد آپس میں صلاح و مشورت پر ہے اور حاکم اسلامی بھی اس قانون سے مبرا نہیں ہے۔ اسکا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ ہر قسم کے معاملات میں عوام سے مشورہ کرے۔ دوسری طرف عوام کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ حاکم اسلامی کو اپنے مفید مشوروں سے محروم نہ کریں۔ قرآن میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: "و امرھم شوری بینھم" )سورہ شوری/آیہ ۳۸( "مومنین اپنے امور کو مشورت کے ذریعے انجام دیتے ہیں"۔
اسی طرح ایک اور جگہ خداوند عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دستور دیتا ہے کہ "و شاورھم فی الامر" )سورہ آلعمران/آیہ ۱۵۹( "اے نبی مسلمانوں سے مشورہ لیا کرو"۔
۱۰۔ معاشرتی عدالت کا قیام:
اسلامی جمہوری نظام ایک ایسا نظام ہے جو خالقیت اور قانون گزاری میں خداوند متعال کے عادل ہونے کے عقیدے پر مبنی ہے لہذا اس نظام میں سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی حوالے سے عدل و انصاف کا قیام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس بنیاد پر معاشرے سے بے جا تبعیض کے خاتمے اور تمام سہولیات کی عادلانہ تقسیم پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح عدالتی نظام میں سب کیلئے انصاف مہیا کرنا اور تمام فلاحی سرگرمیوں میں مساوات کا قیام بھی معاشرتی عدالت کے قیام میں شامل ہیں۔
۱۱۔ ایکدوسرے کا احترام:
دین مبین اسلام کی نظر میں انسان اس کائنات میں ایک اعلی اور باارزش مقام رکھتا ہے۔ اسلامی حکومت کا ایک اہم ہدف انسان کو اس مقام سے آشنا کروانا اور اسے اس مقام تک پہنچنے کیلئے مناسب زمینے کی فراہمی ہے۔ ایک اسلامی جمہوری نظام میں انسان کی حیثیت اس قدر بلند ہے کہ اسکی جان، مال، حقوق، گھر اور اہل خانہ ایک خاص احترام کے حامل ہیں جس کی حفاظت کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
۱۲۔ ظلم کا خاتمہ:
اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی حکومت ہر قسم کے ظلم، ستم، طاقت کے ناجائز استعمال، دھونس اور اسکے آگے تسلیم ہونے کا اندرونی اور بیرونی سطح پر مقابلہ کرتی ہے۔ اندرونی سطح پر کسی قسم کے غیر قانونی رویے اور شدت پسندی کو ممنوع قرار دیتی ہے۔ اسی طرح بیرونی سطح پر کسی کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس پر اپنے ارادوں کو تحمیل کرے یا دوسرے اسلامی ممالک اور وہاں پر رہنے والے مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنائے۔ دھونس کا ایک نمونہ اقتصادی قبضہ ہے۔ ملک کے مالی اور اقتصادی امور پر بیرونی ہاتھوں کا قبضہ ایک اسلامی حکومت کے شایان شان نہیں ہے۔ اسی طرح خارجہ سیاسی پالیسیوں پر دنیا کی کسی طاقت کو اثر انداز ہونے کا موقع فراہم نہیں کرتی۔ ایک اسلامی حکومت کی داخلہ اور خارجہ سیاسی پالیسی کی اہم بنیادوں میں سے ایک بنیاد اس کی آزادی اور خودمختاری ہے۔
۱۳۔ ترقی اور بہبود:
دنیا میں موجود اکثر سیاسی نظام اپنی ترقی اور بہبود کا ماڈل انسان کے صرف ایک پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے بناتے ہیں۔ یہ پہلو اقتصادی، مادی سہولیات یا سود دہی ہو سکتا ہے۔ لیکن اسلامی جمہوری نظام میں انسان کے مادی پہلو کے ساتھ ساتھ اسکے روحانی پہلو کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ لہذا اسلامی حکومت انسانوں کی مادی ترقی کے ہمراہ انکی روحانی ترقی کیلئے بھی منصوبہ بندی کرتی ہے اور انسان کی مادی اور روحانی ضروریات کے درمیان اعتدال پیدا کرتی ہے۔
نتیجہ گیری:
اس تمام بحث کے نتیجے میں ہم مندرجہ ذیل امور کو ایک اسلامی جمہوری نظام کے اہم اصولوں کے طور پر بیان کر سکتے ہیں:
۱۔ حقیقی اور ذاتی طور پر حاکمیت کا حق صرف خداوند متعال کو حاصل ہے،
۲۔ انسانی معاشرے میں حق حاکمیت خداوند متعال کی طرف سے اپنے منتخب بندوں کو عطا کیا جاتا ہے جو انبیاء اور امامان معصوم علیہم السلام اور انکی غیر موجودگی میں خاص شرائط کے حامل مجتہد پر مشتمل ہیں،
۳۔ اسلامی اقدار حکومت کے تمام شعبوں پر حکمفرما ہونی چاہیئیں اور عوام کی سیاسی سرگرمیاں ان اقدار کی حدود کے اندر ہونی چاہیئے،
۴۔ دینی حدود کے اندر رہ کر سیاسی سربراہ کا انتخاب عوام کا مسلمہ حق ہے اور وہ اسکے بعد حکام کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے اور انہیں مناسب مشورہ دینے کا حق بھی رکھتے ہیں،
۵۔ انسانی معاشرے اور اسلامی حکومت کے درمیان تعلقات اعتماد، تعاون اور ایکدوسرے کے حقوق کے احترام پر استوار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 5388
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

China
اسلامی طرز جمھوریت کی تین خصوصيات کیا ہیں؟
ہماری پیشکش