3
0
Tuesday 14 Jun 2016 01:00

پاکستان کی معلق خارجہ پالیسی اور ایران بھارت معاہدے

پاکستان کی معلق خارجہ پالیسی اور ایران بھارت معاہدے
تحریر: شیخ سلمان رضا

ماہ مارچ میں ایرانی صدر کے دورہ پاکستان سے لیکر تاحال پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ایران کو ایک ولن کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ اخبارات کی شہ سرخیوں میں پہلے بھارتی جاسوس کلبھوشن کی ایران میں سکونت کو ایسے پیش کیا جاتا رہا۔ جیسے وہ بھارتی شہری کم اور ایرانی شہری زیادہ ہو۔ اب سونے پہ سہاگہ ملا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کو بھی ایران کے خفیہ اداروں کی مخبری سے جوڑا جارہا ہے۔ بھارت جو پاکستان کا اعلانیہ دشمن ہے، جب اس کے وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے غیر اعلانیہ دورے پر وزیراعظم نواز شریف سے ملنے رائے ونڈ آئے تو اس وقت بھی وزارت خارجہ اور پاکستانی ذرائع ابلاغ نے سفارتی آداب کا خیال رکھا لیکن حیرت انگیز طور پر جب ایرانی صدر پاکستان کے دورے پر آئے تو پاکستانی ذرائع ابلاغ نے ان کی آمد کو پس پشت اور بھارتی جاسوس کی گرفتاری کو ایران سے جوڑنے کی خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔

پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے رویے اور آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنا سارا وزن سعودی پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب کلبھوشن بیس بائیس روزپہلے گرفتار کرلیا گیا تھا تو اس کی گرفتاری کو خفیہ کیوں کر رکھا گیا اور اگر یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ اس کی گرفتاری کو چند روز بعد افشا کیا جائے گا تو پھر ایرانی صدر کی پاکستان آمد سے عین ایک دن پہلے کا وقت ہی کیوں منتخب کیا گیا۔ جواب یہی نظر آتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی دلدل میں پھنسی آل سعود کو یہ گوارا نہیں کہ پاکستان جیسی مضبوط عسکری طاقت کیساتھ ایران کی قربت ہو، خواہ یہ قربت سفارتی یااقتصادی میدان میں ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان میں سعودی سفیر جو لبنان میں اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں اور لبنان والی پالیسیاں یہاں پاکستان میں بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سعودی سفیرنے اپنی ریالوں سے بھری ہوئی تجوریوں کے منہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کیلئے کھول دیئے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے ذاتی بنک اکاؤنٹس کو تو آل سعود ماضی میں بھی بھرتی رہی ہے، مگر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہماری اسٹیبلشمنٹ کے اکاونٹس بھی سعودی دولت سے پرباش ہوچکے ہیں۔

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے بعد جن دو طبقات پر سعودی سفارت خانہ نہایت مہربان ہے۔ ان میں سے ایک ذرائع ابلاغ اور دوسرے مولوی حضرات ہیں کہ جن کی لاٹری اس وقت نکلی جب یمن پر حملے کے نتیجے میں آل سعود پاکستانی فوج سے مدد کی بھیک مانگ رہے تھے، لیکن مثبت جواب نہ ملنے پر سعودی وزیر مذہبی امور پاکستان آئے اور سنا ہے کہ جہاز کے کارگو میں ان کا ذاتی سامان نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ پاکستانی مولویوں کیلئے ریالوں کی بوریاں رکھنے کے بعد کارگو میں جگہ کم پڑ گئی تھی۔ حاصل کلام یہ کہ آج پاکستانی الیکڑانک میڈیا پر بیٹھے ہوئے بقراط بھی یہ رونا رو رہے ہیں کہ ایران انڈیا اور افغانستان ایک دوسرے کے قریب ہورہے ہیں اور پاکستان سے افغانستان اور ایران دور ہورہے ہیں، اور اس Equation کو بھی امریکہ کی سازش قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم ہمارے خیال میں ہم نے خود ایران کو اپنے سے دور کرکے موقع دیا ہے کہ وہ اپنا اقتصادی پارٹنر ڈھونڈ لے اور نتیجتاً انڈیا نے اس خلا کو دیکھتے ہوئے فائدہ اٹھایا ہے اور ایران کے قریب ہوا ہے، لیکن انڈیا کی ایران سے قربت صرف اسی EVENT کی مرہون منت نہیں۔ ہم اس موضوع پر تفصیلی بحث کرتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو ہمارے تجزیہ کار ایران اور اور انڈیا کی قربت میں جو سب سے بڑی دلیل لاتے ہیں وہ چاہ بہار کی بندرگاہ میں انڈیا کی سرمایہ کاری اور افغانستان کیلئے متبادل ٹریڈ روٹ کا مہیا کیا جانا ہے۔ ماہرین کے خیال میں جب پاکستان نے چین کے ساتھ گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کا فیصلہ کرلیا تھا تو ایران کو اس سے صرف 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک نئی بندرگاہ کی تعمیر و ترقی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ ہمارا ان ماہرین سے سوال ہے کہ آج اگر پاکستانی سرحد کے اس پار ایران میں تیل کے خزانے دریافت ہوجائیں اور ایران ان کی Exploitation کیلئے کسی ملک سے معاہدہ کرلے، تو کیا پاکستان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سرحد کے اس پار اپنی سرزمین پر بھی تیل کی دریافت کیلئے جان لڑائے اور اپنے وسیع ترقومی مفادمیں کسی تیسرے ملک کے ساتھ مل کر تیل کی پیداوار کیلئے مواقع تلاش کرے۔ اگر پاکستان اپنے قومی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ کہہ کر ان ذخائر کی Exploitation چھوڑدے کہ چونکہ ہمارا ہمسایہ ملک اس کے قریب ہی تیل کی پیداوار میں سرمایہ کاری کررہا ہے اور اگر ہم نے بھی تیل کی پیداوار شروع کردی تو ایرانی تیل کی اہمیت کم ہوجائے گی اور دونوں برادر ہمسایہ ممالک کے درمیان مقابلہ شروع ہوجائے گا، تو کیا یہ ملک و قوم کے ساتھ خیانت نہیں ہوگی۔؟ اور کیا پاکستانی عوام ایسے حکمرانوں کو معاف کردیں گے؟ جو پاکستانی وسائل سے استفادہ کرنے کے بجائے اسے ہمسائیہ ملک کے تحفظات کی وجہ سے ضائع کرے۔ ہرگز نہیں،

اگر سرحد کے ایک طرف پاکستانی جغرافیہ پاکستان کو موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی سرزمین کو تعمیر و ترقی دے کر اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کی اقتصاد کو بہتر بنائیں تو سرحد کے اس پار ایران کو بھی پوری طرح یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خوشحالی اور اقتصادی ترقی کیلئے اپنے جغرافیہ سے بھرپور استفادہ کرے۔ گوادر اور چاہ بہار والے کیس میں ہم جانتے ہیں کہ دونوں طرف جغرافیہ ایک جیسا ہے اور دونوں کو اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کا پورا حق ہے۔ کبھی ہم نے سنا ہے کہ عراق نے کویت سے یہ تقاضا کیا ہو کہ سرحد کے اس پار ہم تیل نکال رہے ہیں لہذا تم سرحد کے اس پار اپنی زمین سے تیل مت نکالو۔ یا ایران نے قطر سے یہ مطالبہ کیا ہو کہ پارس گیس فیلڈ سے ہم گیس نکال رہے ہیں لہذ تم اسی جگہ سے ملحقہ اپنے حصے کی گیس نہ نکالو۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ٹیکسٹائل پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے، لیکن کبھی ہم نے چائینہ سے یہ کہا ہے کہ آپ سرحد کے اس پار ٹیکسٹائل کو فروغ نہ دیں یا چین نے ویتنام، بنگلہ دیش یا بھارت سے کہا ہو کہ ہم ٹیکسٹائل میں پیداوار بڑھا رہے ہیں، لہذا آپ اس شعبہ میں سرمایہ کاری نہ کریں۔

ہم لحظہ بھر کیلئے یہ تصور کریں کہ قریب قریب دو بندرگاہوں کے بننے سے اگرچہ مقابلے کی فضا بنے گی لیکن کلی طور یہ خطہ ٹریڈ hub کے طور پر نمودار ہوگا اور پھر دونوں بندرگاہوں کے ٹریڈ پارٹنر الگ الگ ہیں۔ یعنی دنیا کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے دو ملک۔ ایک کے ساتھ چین اور دوسرے کے ساتھ بھارت۔ تو پھر اس مقابلے میں same client والی صورت بھی نظر نہیں آتی اور اسی صورت کو دیکھتے ہوئے ایرانی صدر جب پاکستانی دورے پر آئے توا نہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ ان دونوں بندرگاہوں کے درمیان راہداریاں بنالی جائیں۔ اگر اس تجویز کو تسلیم کرلیا جائے تو آپس کے مقابلے کو تعاون میں بدل کر ایک مثبت مسابقتی ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے۔ البتہ جہاں تک یہ بات کہ اس طرح افغانستان کو ایران کی صورت میں ایک متبادل روٹ مل جائے گا اور اس پاکستان پر انحصار کم ہوجائے گا تو اس کے جواب میں ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ جس طرح پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ملک ہے اس طرح ایران بھی ہمسایہ ملک ہے۔ دونوں ملک افغانستان کو ایک جیسی سہولت فراہم کرسکتے ہیں۔ تاہم افغانستان کو اپنے عوام کے مفاد میں جس ملک سے بہتر سروسز ملیں گی اس کا حق ہے کہ اس ملک سے سروسز حاصل کرے۔ پاکستانی ہونے کے ناطے ہماری یہ خواہش اور آرزو رہے گی کہ پاکستان اس جغرافیہ کا فائدہ اٹھائے اور خدا نہ کرے کہ ہمارا ملکی مفاد کسی اور ملک کے حصے میں جائے۔

ہم پاکستانی فیصلہ ساز اداروں کو یہ دعوت فکر دینا چاہیں گے کہ وہ سوچیں کہ ہماری وہ کون سی (طالبان نواز) پالیسیاں تھی کہ جن کی وجہ سے پہلے افغانستان اور آج پاکستان کا امن غارت ہوگیا ہے۔ انہی پالیسیوں کی وجہ سے آج افغان عوام کی اکثریت ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ہمیں چھوڑ کر ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ اس ضمن میں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ چین کی انڈیا کے ساتھ 1962 میں جنگ ہوچکی ہے اور امریکہ خطے میں انڈیا کو چین کے مقابلے کیلئے تیار کررہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات بھی ہیں لیکن اس کے باوجود چین کو ایران کی چاہ بہار بندرگاہ میں بھارتی سرمایہ کاری پر کوئی اعتراض نہیں لیکن پاکستان جو صرف چین کیلئے پورٹ کا اہتمام کرے گا اور سارا ٹریڈ چین کرے گا تو اس کو اس بات پر اعتراض ہے۔ شائد انہی خدشات کو بھانپتے ہوئے 27مئی کو پاکستان میں ایرانی سفیر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاہ بہار اور گوادر حریف نہیں بلکہ ٹریڈ پارٹنر ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ پاکستان گوادر کی تعمیر وترقی پر توجہ دے اور کو شش کرے کہ اپنی مستعدی، بہتر سروسز اور بہتر پالیسیوں کی بدولت دنیا کے دیگر ممالک سے تجارت کا رخ اپنی جانب موڑے اور کسی ملک کو موقع نہ دے کہ وہ ہماری بدامنی اور کرپشن کی دلدل میں پھنسی حکومت کی بری ساکھ کی وجہ سے ہمارے عوام کے مفاد کا حصہ ہم سے چھین لے۔
                بقو ل شاعر جو بڑھ کے تھام لے ساگر اسی کا ہے
اب آتے ہیں ہم بھارت ایران تعلقات کی طرف، ہمارے لیے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں سب سے اہم چیز مفادات ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے آپسی تعلقات میں بھی یہی عامل دیکھنے میں آیا ہے کہ مذہب اخوت بھائی چارے کے رشتے کے برعکس دو مسلم ممالک میں بھی مفادات کارشتہ زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ جس کی تازہ مثال ترکی اور شام کے تعلقات ہیں۔ دونوں اسلامی ممالک ہیں لیکن ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں، جبکہ شام کے ساتھ نہ صرف تعلقات خراب ہیں بلکہ ترکی دنیا بھر سے دہشت گرد منگوا کر انہیں ٹریننگ دیتا ہے اور شام کی طرف بھیج دیتا ہے ، کیونکہ اس کے بدلے اسے یورپی یونین سے کچھ ملنے کی امیدہے اور ساتھ ہی ساتھ اسے شام اور عراق کے مقبوضہ علاقوں سے داعش کی بدولت سستا تیل بھی ملتا ہے۔

لہذا ایک مسلمان ملک امریکہ اسرائیل اور چند دیگر مسلمان ممالک جیسے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے کہنے پر ایک دوسرے مسلمان ملک کے باسیوں پر زندگی تنگ کردیتا ہے پھر اسی طرح ایک مسلمان ملک سعودی عرب اپنے ہمسایہ غریب مسلمان ملک یمن پر روزانہ بارود کی بارش کرتا ہے اور اس کام کیلئے امریکہ و برطانیہ سے اربوں ڈالر کا باقاعدہ اسلحہ خریدتا ہے لیکن دوسری جانب غیر مسلم ملک ہندوستان سے دوستی کی پینگیں بڑھاتا ہے۔ اس کے وزیراعظم نریندر مودی کو دعوت دے کر بلاتا ہے۔ یاد رہے کہ اسی مسلمان ملک سعودی عرب کے سابق بادشاہ شاہ عبداللہ نے اگر کبھی کسی غیر مسلم ملک کے سربراہ کو برادر کا درجہ دیا تھا تو اسی بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم کو اپنے سرکاری دورے کے دوران دیا تھا۔ ہمیں یاد رہے کہ مشہور زمانہ میگزین Time نے اپنی اشاعت میں اس بات کو کافی زور دے کر لکھا تھا کہ اس سے پہلے کسی سعودی بادشاہ نے بھائی کا درجہ کبھی کسی غیر مسلم ریاست کے سربراہ کو نہیں دیا۔ ہم نے دیکھا کہ اس وقت بھی کسی پاکستانی سیاست دان نے غصے کا اظہار نہیں کیا یا پاکستانی سیاستدانوں کی امریکہ سے پینگیں ڈالنے پر کبھی کسی ایرانی سیاستدان نے شور و غوغا نہیں کیا کہ آپ کیوں ایران کے ازلی دشمن سے دفاعی معاہدے کررہے ہیں۔ ہاں تحفظات ہوسکتے ہیں۔

پاکستان یا ایران کی طرح کسی بھی دوسرے ہمسایہ ملک کو اگر تحفظات ہوں تو انہیں سفارتی آداب کے دائرے میں رہتے ہوئے سفارتی طریقے و ذرائع سے حل کرنا چاہیئے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی ایران کے ساتھ کلبھوشن اور چاہ بہار کے مسائل پر کھل کر بات کرنی چاہیئے اور پاکستان کا مفاد مقدم رکھنا چاہیئے اور بطور پاکستانی عوام ہم اپنی حکومت کے ہرجائز مطالبے پر اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ رہا مسئلہ بھارت کے ایران کے ساتھ تجارتی روابط کا تو ہمارا خیال ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے امریکہ و آل سعود کی خوشنودی کیلئے خود کو ایرانی پوٹینشل کے استفادہ سے ہمیشہ محروم رکھا اور ایران کو تجارتی میدان میں خود سے دور دھکیلا ہے، نتیجے میں ایران ہم سے دور ہوتا گیا۔ آج ہمارا ایران کے ساتھ دو طرفہ ٹریڈ 200 ملین ڈالر سے زیادہ نہیں ،یعنی ہم ایران سے محض 150 ملین ڈالر کی درآمدات کرتے ہیں جبکہ غالباً چالیس ملین ڈالر کی برآمدات کرتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس انڈیا ایران سے 10.3 ارب ڈالر کا تیل و دیگر اشیاء درآمد کرتا ہے اور 4.4 ارب ڈالر کی اشیاء برآمد کرتا ہے۔ گویا انڈیا ہم سے 65 گنا زیادہ قیمت کا تیل وغیرہ ایران سے درآمد کرتا ہے ،جبکہ اس کی ایران کے ساتھ کوئی سرحد نہیں یعنی ایرانی ایکسپورٹ کا بیس فیصد انڈیا کو جاتا ہے اور اس کی درآمدات کا 8.2 فیصد انڈیا سے آتا ہے۔

اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چین اور ہندوستان کی مسابقتی پوزیشن کے باوجود چین ہرسال ایران سے تقریباً 25 ارب ڈالر کی مصنوعات درآمد کرتا ہے جو ایرانی برآمدات کا لگ بھگ 50 فیصد بنتا ہے اور تقریبا 24 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے جو ایران کی درآمدات کا تقریباً 45 فیصد ہے لیکن ہمیں کسی چینی سیاستدان کی جانب سے یہ تقاضا سنائی نہیں دیتا ہے کہ چین ایران سے یہ کہے کہ تم یا انڈیا کو تیل فروخت کرو یا ہمیں، نہ انڈیا کی طرف سے یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ ہمیں تیل بھیجنا ہے تو چین کو تیل کی فراہمی بند کرو۔ دونوں ملک جانتے ہیں کہ بین الاقوامی معاملات میں آپ کی مرضی نہیں چلتی۔ اسی طرح شام کے معاملے پر شدید اختلافات کے باوجود ترکی اور ایران کے درمیان لگ بھگ 15 ارب ڈالر کی ٹریڈ ہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا امریکی کاسہ لیسی کے باجود ایران سے درآمدات کے میدان میں بالترتیب 5.5 ارب ڈالر اور 4.12 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے اور چوتھے نمبر ہیں۔ پوری دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ آزاد ممالک اپنی خارجہ پالیسی میں اپنے ہمسایہ ممالک کو خاص طور پر اہمیت دیتے ہیں کیونکہ خارجہ امور کی کتابوں میں ایک جملہ بہت معروف ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ہم اپنے دوست تو تبدیل کرسکتے ہیں لیکن ہمسایہ نہیں۔

پاکستان جو پہلے سے اپنی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر بیٹھے ہمسائیوں سے کشیدہ تعلقات رکھتا ہے اور دونوں سرحدوں پر اس کی فوجیں مصروف بیٹھی ہیں ،چنانچہ چین کے علاوہ اگر ایران سے بھی تعلقات کو آل سعود یا امریکہ کی خواہش پر خراب کرلیتا ہے تو کیا یہ ہمارے ملکی مفاد میں ہوگا۔؟ چین سے ہمارے مثالی تعلقات ہیں لیکن اسے بھی سنکیانگ میں شدت پسند گروہوں کے پاکستانی علاقوں میں بسنے والے افراد کیساتھ تعلقات پر تشویش ہے۔ لہذا ہمیں چاہیئے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لیں اور اس پالیسی کو مرتب کرتے وقت ہمارے حکمران اپنے خاندان پر ہونے والے ذاتی احسانات کا بدلہ چکاتے ہوئے اس مملکت خدادا پاکستان کو کسی اور کے مفاد اور پرائی لڑائی کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ ماضی میں پاکستان نے افغانستان میں طالبان کی حمایت کیلئے جو دلیل گھڑی تھی وہ یہ تھی کہ ہمیں افغانستان میں تزویراتی گہرائی میسر آئے گی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک دوسرا ہمسایہ ملک ایران بھی ہمیں کسی حد تک تزویراتی گہرائی فراہم کرسکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کسی دوسرے ملک کے ساتھ جنگ کی صورت میں ایران ہمارے ملک کو ایندھن کی بلا تعطل سپلائی لائن بھی جاری رکھ سکتا ہے۔ جو حالت جنگ میں کسی ملک کی لائف لائن کہلاتی ہے۔

سرحد کے پار سے آنے والی تیل کی سپلائی لائن پر بھارت اثرانداز نہیں ہو سکتا، لیکن اگر ہمارا تیل سمندر کے راستے کسی اور ملک سے آتا ہوتو ہماری اس سپلائی لائن کو کاٹ کر ہمار ا دشمن ہم پر کاری ضرب لگا سکتا ہے، مگر ہم اس زاویہ نگاہ سے دیکھنے کے بجائے اپنا سارا تیل متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے منگواتے ہیں کہ جس کے ساتھ ہمارا کوئی زمینی راستہ نہیں ،یعنی ہم اپنی ملکی ضروریات کیلئے یو اے ای سے سالانہ 5.8 ارب ڈالر کا تیل اور سعودی عرب سے لگ بھگ تین ارب ڈالر کا تیل منگواتے ہیں جسے منگوانے کیلئے بحری جہازوں کو ایک طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، جبکہ ایران سے محض 33.7 ملین ڈالر کی گیس درآمد کرتے ہیں، جبکہ تیل کی مد میں ہماری تجارت ایران کے ساتھ فقط 6.2ملین ڈالر ہے۔ چنانچہ اب اگر مشاہدہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ چین اور بھارت نے ایران کے ساتھ تجارت اس وقت بڑھائی جس وقت ایران پر شدید اقتصادی پابندیاں لگی ہوئی تھیں اور انہوں نے ایران پر کوئی احسان نہیں کیا تھا بلکہ اپنے ملکی مفاد کیلئے یہ سب کیا تھا۔ چین نے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو ایران کے ساتھ FIXیعنی معلق کیا، تاکہ اسے دنیا کے برعکس ایک ہی قیمت پر تیل مہیا ہوسکے اور اسی طرح بھارت نے ایران کو مجبور کیا کہ وہ اس سے بھارتی کرنسی میں رقم وصول کرے ،جسے ایران کو قبول کرنا پڑا۔

کیا پاکستان اپنے قومی مفاد میں اس دوران ایران کے ساتھ barter trade یعنی تجارتی تبادلہ کی شرائط پر چین اور انڈیا جیسی شرائط پر تجارت کرکے اپنے اقتصادی فائدے کا اہتمام نہیں کرسکتا تھا، جبکہ اس کے برعکس بین الاقوامی قوانین کے مطابق عالمی اقتصادی پابندیاں ہمسایہ ممالک پر لاگو نہیں ہوتی اور بالخصوص ایران پر عائد امریکی پابندیوں میں آئل اینڈ گیس سیکٹر شامل ہی نہیں تھے۔ اس لیے تو جاپان اور جنوبی کوریا کے علاوہ ترکی بھی ایران سے ان پابندیوں کے دوران بھی تیل خریدتے رہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی عجیب ہے کہ پاکستانی عوام توانائی بحران کی وجہ سے دن بہ دن زمین میں دھنستے جارہے ہیں اور دوسری طرف ایران اپنی سرحد تک گیس پائپ لائن بچھا کر پاکستان کا انتظار کررہا ہے کہ وہ گیس خرید کر اپنی صنعت کا بند پہیہ دوبارہ چالو کرے لیکن پاکستانی حکمران ابھی بھی امریکہ و آل سعود کے اشارے کے منتظر ہیں۔ ہم آئے روز امریکہ اور جاپان کی طرف سے south china sea میں جزائر کے قبضے کے چینی دعوے پر ردعمل دیکھتے رہتے ہیں۔ اس خطے میں جزائر پر قبضے کا چین اور جاپان کا جھگڑا مریکہ کیلئے غنیمت ہے اور چین کاپوری دنیا کے ساتھ اپنی تجارت کیلئے اس علاقے پر تسلط ناگزیر ہے جبکہ امریکہ مستقبل میں جنگ کی صورت میں اس روٹ کو چین کیلئے بند کرنا چاہتا ہے۔

چین کی پاکستان کے ساتھ گوادر اور اکنامک کوریڈور کیلئے سرمایہ کاری بھی اسی مستقبل کے خطرے کو counter کرنے کی حکمت عملی ہے۔ اب اگر خدانخواستہ چین پر جنگ مسلط کرکے چین کیلئے south china sea والے راستے کو چین کیلئے بند کر دیا گیا، تو چین تک ایندھن کس راستے سے پہنچے گا۔ ظاہر ہے گوادر کے راستے ہی چین کو ایندھن کی سپلائی جاری رہے گی، لیکن چین جو اپنی توانائی کی ملکی ضروریات کا ایک بڑا حصہ تیل کی صورت میں ایران سے درآمد کرتا ہے اس کے لیے اگر گوادر کا راستہ کھلا نہ ہو تو چین مشکل میں پھنس جائے گا، لہذا اگر پاکستان گوادر اورچاہ بہار کے درمیان راہداری بنانے پر آمادہ ہوجائے تو ایران چاہ بہار سے چین کیلئے جانے والا تیل گوادر منتقل کرکے اس راستے کو سارا سال استعمال کرسکتا ہے اور جنگ کی صورت میں تو یہ راستہ چین کی لائف لائن بن سکتا ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ حکومت پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے پوٹینشل سے فوائد حاصل کرنے کیلئے آزاد خود مختار اور عوام دوست خارجہ پالیسی اپنائے، لیکن معلوم نہیں کہ جس ملک میں پچھلے تین سالوں سے کوئی باضابطہ وزیر خارجہ ہی نہ ہو اور گاڑی کے ریزرو ٹائر کی طرح کبھی جز وقتی سرتاج عزیز، کبھی طارق فاطمی اور کبھی اسحاق ڈار سے کام چلایا جارہا ہو ، وہاں خارجہ پالیسی معلق ہی رہیے گی یا کسی سمجھدار اور تجربہ کار کل وقتی وزیر خارجہ کی تعیناتی سے یہ مسائل حل بھی ہوسکیں گے۔ ؟
بشکریہ: افکار العارف، جون 2016
خبر کا کوڈ : 545591
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Ahsan
United Kingdom
So nicely written article
نذر حافی
Iran, Islamic Republic of
ہم پاکستانی فیصلہ ساز اداروں کو یہ دعوت فکر دینا چاہیں گے کہ وہ سوچیں کہ ہماری وہ کون سی (طالبان نواز) پالیسیاں تھی کہ جن کی وجہ سے پہلے افغانستان اور آج پاکستان کا امن غارت ہوگیا ہے۔ انہی پالیسیوں کی وجہ سے آج افغان عوام کی اکثریت ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ہمیں چھوڑ کر ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ ۔۔۔۔
لمحہ فکریہ ہے۔۔۔حالات حاضرہ پر لاجواب تحریر ہے۔
Hashim
Pakistan
realistic and research based analysis
God bless you
ہماری پیشکش