7
0
Sunday 10 Jul 2016 20:18

ڈی آئی خان، احتجاجی دھرنے کا غیر متوقع انجام(1)

ڈی آئی خان، احتجاجی دھرنے کا غیر متوقع انجام(1)
تحریر: آئی اے خان

حالیہ عید الفطر ڈیرہ اسماعیل خان کے شہریوں کیلئے بالعموم اور اہل تشیع کیلئے بالخصوص خونی عید ثابت ہوئی۔ اس عید پر فقط جسم و جان کا ہی نہیں، بلکہ جذبات، اقدار، روایات کا بھی خون ہوا ہے۔ ڈیرہ کے اہل تشیع نے سید شاہد شیرازی کی المناک شہادت کی صورت میں نہ صرف ایک مخلص، مدبر، معروف قانون دان کھویا بلکہ اس ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں بدانتظامی کے باعث چند ناسمجھ اور جاہل افراد کو ایک صاحب توقیر، مخلص عالم دین کی توقیر پر حملے کی جرات و جسارت ہوئی، جس سے شہریوں کے جذبات بری طرح مجروح ہوئے۔ جس طرح کامیابیوں کے ہزار وارث اور ناکامیاں لاوارث ہوتی ہیں، اسی طرح احتجاجی مظاہرے، دھرنے اور اس کے نتیجے میں حاصل کامیابیوں کا کریڈٹ لینے کیلئے تو کئی خوشنما چہرے خم ٹھونک کر میدان میں موجود تھے، مگر اس پرملال، پرافسوس واقعہ یا اس غفلت کی ذمہ داری قبول کرنے پر کوئی آمادہ نہیں، جس کے باعث یہ پرمذمت واقعہ پیش آیا۔

ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھلے دل سے ان کوتاہیوں کو تسلیم کیا جاتا، جن کی وجہ سے پرامن احتجاج اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں نے ناکامیوں کی چادر اوڑھ لی۔ مل بیٹھ کر اس قبیح عمل کی مذمت اور اس سے برائت کا اظہار کیا جاتا، تاکہ یہ روش پختہ نہ ہو، مگر اس کے برعکس سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوگیا۔ 80 کی دھائی سے فیصلوں، اقدامات اور قائدین کا محاسبہ شروع کر دیا گیا۔ جعلی ناموں سے متحرک سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بزرگان دین کی کردار کشی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ نتائج سے نابلد جذباتی نوجوان اس واقعہ کے بعد لعن طعن کا جو سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ دشمن کی خدمت، خانوادگان شہدائے ڈیرہ کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈی آئی خان میں شیعان حیدر کرار کو ایک طویل عرصے سے مسلسل جبر و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں تسلسل کے ساتھ اپنے پیاروں کے جتنے جنازے ڈی آئی خان کے اہل تشیع نے اٹھائے، شاہد ہی کسی نے اٹھائے ہوں۔ یہاں کے اہل تشیع نے جان، مال، ناموس کو کبھی بھی ذکر محمد و آل محمد پر مقدم نہیں رکھا۔ ایک ساتھ پچاس پچاس جنازے بھی اٹھائے، روزانہ کی بنیاد پر شہر کے گلی کوچوں سے لاشیں اٹھائیں، یہاں تک ضلع بھر میں کہیں بھی کوئی قتل ہوتا اور لاش لاوارثوں کی طرح جائے وقوعہ پر پڑی رہتی تو کسی کو یہ سمجھنے یا سمجھانے میں دیر نہیں لگتی کہ ہو نہ ہو مقتول کا تعلق ضرور شیعہ مسلک سے ہے۔ وگرنہ کسی اور مسلک سے ہوتا تو اب تک اس کے وارث پہنچ چکے ہوتے۔ جن گھروں سے دن میں جنازے اٹھے۔ (بحوالہ شہید سید فیروز شاہ، شہید جواد حسین) رات کی تاریکی میں پولیس نے انہی گھروں میں چادر و چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا۔ (سانحہ بم بلاسٹ جنازہ شہید شاہد شاہ 2008)

سرزمین ڈیرہ کے اہل تشیع کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ ذکر حسین (ع) و عزاداری کے جرم میں پولیس و ایف سی نے سرعام پورے جلوس پر براہ راست فائرنگ کی اور اس فائرنگ کے زخمی، جن کے جسموں میں گولیوں کے چھید تھے، انہیں پولیس لائن میں ہتھکڑیاں لگاکر گرفتار کیا۔ کئی زخمیوں کے جسم سے گولیوں کے ساتھ ساتھ روڈ کی بجری بھی برآمد ہوئی تو ڈاکٹروں کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ ان زخمیوں کو ریاستی قانون کے رکھوالے سڑکوں پر گھسیٹتے رہے ہیں۔ (حوالہ سانحہ 30ستمبر1988ء) بتانا یہ مقصود ہے کہ ڈیرہ کے اہل تشیع کیلئے شہادتیں، چھاپے، جیلیں، صعوبتیں، مصیبتیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ تاہم ان سب کے باوجود یہاں کے شہریوں نے اختلافات، تحفظات، خدشات کے باوجود بھی بزرگ رہنماؤں کی ناموس کو نشانہ بنانے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ چنانچہ شہید شاہد شیرازی کے جنازے اور احتجاجی دھرنے کے اختتام سے قبل جو کچھ ہوا یا جس طرح شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب صدر اور جامعۃ النجف کے پرنسپل پر حملہ ہوا، اسے معمولی قرار دیکر نظرانداز کرنا قطعاً مناسب یا ممکن نہیں۔ یہ واقعہ کیوں کر اور کیسے پیش آیا، اس موضوع پر غیر جانبدارانہ اور حقائق پر مبنی بحث و تمحیص اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ ایسی انتظامی کوتاہیوں پر قابو پایا جاسکے، جو ان واقعات کا باعث بنتی ہیں۔

عید الفطر کے پہلے روز شام کے وقت شہید سید شاہد شیرازی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے ٹوئٹ کیا گیا کہ شہید سید شاہد شیرازی کی نماز جنازہ اگلے روز نماز ظہر کے وقت کوٹلی امام حسین (ع) میں ادا کی جائے گی، جبکہ رات بارہ بجے شہید شاہد شیرازی کے خانوادے کی جانب سے مساجد میں اعلان کرایا گیا کہ صبح نو بجے کوٹلی امام حسین (ع) میں جنازہ ہوگا۔ اعلان کردہ نماز جنازہ کے اوقات میں فرق کے باعث شہری معمولی کنفیویژن کا بھی شکار ہوئے، شائد یہی وجہ تھی کہ جنازے میں شہریوں کی ابتدائی شرکت توقع سے قدرے کم تھی۔ اگلے روز صبح نو بجے کوٹلی امام حسین (ع) میں اہل تشیع کی بڑی تعداد موجود تھی، جبکہ جنازے کے آنے سے قبل ہی ساؤنڈ سسٹم آن کرکے شرکاء کو جنازہ گاہ سے سڑک پر بلانے، احتجاج، دھرنے کے اعلانات کے ساتھ ساتھ مطالبات کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔

یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ اس وقت مائیک کے قریب کوئی تنظیمی یا ایسی ذمہ دار شخصیت موجود ہی نہیں تھی کہ جس کی بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا۔ شہید سید زادے کا جنازہ پہنچ جانے کے بعد اس اعلان کے ساتھ کہ جب تک ہمارے مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوگا، اس وقت تک تدفین نہیں ہوگی۔ میزبان و مہمان ملی، تنظیمی شخصیات کی تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ جنہوں نے دور حاضر میں یزیدی، تکفیری قوتوں کے مذموم عزائم کی مذمت، ڈی آئی خان کے اہل تشیع کی قربانیوں کو سلام و خراج عقیدت پیش کیا۔ اپنی بے لوث خدمات اور مصمم ارادوں سے آگاہ کیا اور اعلان کیا کہ خواتین و حضرات زیادہ سے زیادہ اس احتجاج میں شریک ہوں، ہم دھرنا دیں گے۔ یہ دھرنا مطالبات کی منظوری تک جاری رہیگا۔ اس دوران انتظامیہ کی جانب سے سڑک کو دونوں جانب یعنی شیخ یوسف اڈا اور شوبراہ چوک سے پولیس نے ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں شہر کے دیگر کئی دیگر مقامات پر بھی احتجاجی دھرنے شروع ہوگئے اور ڈی آئی خان عملی طور پر جام ہوکر رہ گیا۔

شہید سید شاہد شیرازی چونکہ مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ تھے، چنانچہ ان کے جنازے میں دونوں جماعتوں کے مرکزی قائدین بھی موجود تھے اور انتظامیہ، پولیس کو بھی سخت ردعمل متوقع تھا۔ جنازے کی آمد سے قبل جس طرح ساز و سامان سے لدے ریڑے کوٹلی امام حسین (ع) کا رخ کئے ہوئے تھے اور ساؤنڈ سسٹم کے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ دونوں تنظیموں نے مشترکہ طور پر احتجاج اور دھرنے کا فیصلہ پہلے ہی کر لیا تھا۔ ابھی ابتدائی تقاریر کا سلسلہ جاری تھا کہ شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب صدر اور جامعۃ النجف کے پرنسپل علامہ محمد رمضان توقیر کو بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔

علامہ رمضان توقیر سٹیج کے مقام کے تھوڑے فاصلے پر دیگر اساتذہ کے ہمراہ موجود تھے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اس جاری ظلم کی شدید مذمت کی، شہید سید شاہد شیرازی کے خانوادے سے تعزیت پیش کی اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ باالفاظ دیگر انہوں نے احتجاج و دھرنے کی حمایت کا اعلان کیا، حالانکہ اس سے قبل شائد کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ مائیک سے جو مطالبات پیش ہوئے، ان میں ضلعی انتظامیہ مستعفی ہو، ڈیرہ اسماعیل خان میں ضرب عضب شروع کیا جائے، نیشنل ایکشن پلان پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کیا جائے، ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلا کر ڈی آئی خان سے متعلق حکمت عملی وضع کی جائے، شہداء کے خانوادوں کی مالی معاونت اور انہیں سرکاری ملازمتیں فراہم کی جائیں۔ ڈی آئی خان کو فوج کے حوالے کیا جائے، عمران خان اسی وقت خود ڈی آئی خان آئیں اور غفلت برتنے والے افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کریں۔

اس دوران جب ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما علامہ اعجاز حسین بہشتی مطالبات کے حوالے سے خطاب کر رہے تھے تو ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی عہدیدار تہور عباس نے علامہ اعجاز بہشتی کو ایک کاغذ پر مطالبہ لکھ کر دیا، جسے انہوں نے دوران تقریر پڑھا کہ منتخب ایم پی اے اور صوبائی وزیر مال علی امین خان مستعفی ہو، اس مطالبے پر پی ٹی آئی یا عمران خان سے وابستگی رکھنے والے افراد نے ناراضگی کا اظہار کیا، جبکہ کچھ افراد نے اس مطالبے کو ذاتی و سیاسی قرار دیا۔ (واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات میں تہور عباس کی فیملی نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا تھا اور بعد ازاں اختلافات کی بنیاد پر یا جے یو آئی کی جانب سے ضلع ناظم کو ہٹانے کی مہم کے دوران استعفی دیا تھا، جس پر مقامی ایم پی اے اور ان کے درمیان اختلافات شہریوں کے علم میں تھے۔

اس کے علاوہ وزیراعظم کے دورہ ڈی آئی خان کا بھی انہوں نے خیر مقدم کیا تھا، حالانکہ شہید رضی الحسن و دیگر کی شہادتوں کے خلاف وزیراعظم کے دورے کے دوران ایس یو سی نے احتجاج کا اعلان بھی کیا تھا۔ چنانچہ سٹیج سے مقامی ایم پی اے سے استعفی کے مطالبے نے واضح طور پر مظاہرین کو تقسیم کیا، جبکہ مولانا فضل الرحمن جو کہ ڈیرہ سے منتخب ایم این اے ہیں، ان کا نام تک نہیں لیا گیا اور نہ ہی ان سے اپیل کی گئی کہ وہ امن و امان کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔ بہرحال اس دوران انتظامیہ کی جانب سے رابطے کی کوششیں شروع ہوئیں، انتظامیہ سے بامعنی اور ثمر آور مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی کے اراکین کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس قاعدے و کلیہ کے تحت یہ کمیٹی تشکیل پائی۔ نہ تو تنظیمی نمائندگی کے حوالے سے یہ کمیٹی بیلنس تھی، نہ ہی علاقائی حوالے سے۔

کمیٹی ذیل افراد پر مشتمل تھی۔ مجلس وحدت مسلمین سے مولانا اعجاز حسین بہشتی، اقرار حسین، نثار فیضی، تنویر مہدی۔ آئی ایس او سے مرکزی صدر علی مہدی، شیعہ علماء کونسل سے علامہ محمد رمضان توقیر، سید مستان زیدی ایڈووکیٹ، تحسین علمدار ایڈووکیٹ، ظل حسنین اور شہید شاہد شیرازی کے بھائی سید اسد شیرازی کمیٹی کے رکن تھے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ تینوں تنظیموں کا ایک ایک مقامی نمائندہ کمیٹی میں شامل ہوتا، علاوہ ازیں متاثرہ علاقوں جیسے کوٹلہ سیداں، حاجی مورہ، چاہ سید منور، ڈیوالہ اور سٹی سے اہل افراد شامل کرکے کمیٹی ترتیب پاتی۔ جو سب سے پہلے مطالبات کو تقسیم کرتی کہ یہ فوری عملدرآمد کے مطالبات ہیں، جن پر فوری طور پر نوٹیفکیشن جاری کرایا جائے اور یہ وہ مطالبات ہیں جن پر ذمہ داران سے یقین دہانی لی جائے۔ مگر ترتیب پانے والی کمیٹی میں مقامی افراد کی نمائندگی کم جبکہ غیر مقامی افراد زیادہ شامل تھے۔ مقامی افراد کا خیال تھا کہ باہر سے آنے والے قائدین کا عزت و احترام سر آنکھوں پر مگر شہر کے مسئلہ پر گفتگو مقامی افراد بہتر کرسکتے ہیں۔

کمیٹی ترتیب پانے کے بعد مذاکرات کیلئے جو پہلا وفد آیا، وہ خیبرپختونخوا حکومت اور ضلعی انتظامیہ کا اعلٰی ترین نمائندہ وفد تھا۔ صوبائی وزیر مال سردار علی امین خان نے آنے کیلئے پیغام بھجوایا، جس کے بعد مذاکرات کا پہلا دور علامہ رمضان توقیر کے دفتر میں احتجاجی دھرنا کی نمائندہ کمیٹی علی امیں خان اور ڈی پی او کے مابین شروع ہوا۔ مذاکرات کے پہلے دور کو مختصر ترین دور کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ مذاکرات کے آغاز میں ہی کمیٹی کے چند اراکین نے حکومتی وفد کے اختیارات پر سوال اٹھا دیئے۔ ڈی پی او کا موقف تھا کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے، آر آئی یو اور سی ٹی ڈی کے کتنے ہی اہلکار و افسران ٹارگٹ ہوچکے ہیں۔ پولیس ہر طرح سے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی طرح گرفتار دہشت گردوں کے نام لیکر ڈی پی او نے یقین دہانی کرائی کہ ان ٹارگٹ کلرز کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

اسی طرح صوبائی وزیر مال علی امین خان نے بھی صوبائی حکومت کے تعاون کا یقین دلایا۔ ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے مطالبے پر صوبائی وزیر مال نے وزیراعلٰی سے رابطہ کیا، جنہوں نے ڈی آئی خان کے امن کے موضوع پر اجلاس بلانے کا اعلان کیا اور عسکری ذمہ داران کو بھی آگاہ کیا۔ اسی دوران پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، وزیراعلٰی پرویز خٹک کی جانب سے دہشت گردی کی مذمت اور متاثرہ خانوادوں سے اظہار یک جہتی کے بیانات بھی جاری ہوئے۔ انہی مذاکرات کے دوران ہی کمیٹی کے ممبران نے خواہش ظاہر کی کہ سکیورٹی اداروں کے ذمہ داران بھی ہمارے خدشات و تحفظات دور کریں اور فوج سے متعلق مطالبات پر عملدرآمد کی یقین دھانی کرائیں۔ حکومتی وفد نے اس سے اتفاق کیا۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 551670
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
اپنے آپ کو بچانے کے لئے اچھا جھوٹ گھڑا ھے
United States
منصفانہ تحریر ہے
Iran, Islamic Republic of
جهوٹ اس میں کیا ہے؟ علامه رمضان توقیر کی توهین کس جرم میں هوئی؟ توهین کے ذمه دار معلوم هوں اور باقاعده معافی مانگیں، ورنه دوسروں کا عمامه بهی محفوظ نه هوگا
Iran, Islamic Republic of
جنهیں جذبات کے ساته هوش نه هو، ان کا محاسبه ضروری هے۔
Netherlands
بهت هی مناسب تحریر هے
علیم
Pakistan
الفاظ کی خوشبو بتا رہی ہے کہ آپ کا تعلق اچھے خون سے ہے، کاش کہ یہ الفاظ مظلوم کے دفاع کے لئے استعمال ہوتے۔
syeda zahra
Satellite Provider
Bht afsos ki bt ha imran khan sy aisy jhot k palandy ki tawqa nai thi, ye in k brather e muhtram ki zaban bol ri ha, jo suc k sath tha, suc ny hamesha munafiqana syasat sy kam liya ha. Lakin ziafa dukh aur herangi imran kgan k iss article py ha, kaosy haqeqat ko tor mor k halat ko totaly rukh change kr dia. Ramzan toqeer ny aty hi kaha abi chuttian hain eid ki. Amari bt ho gai ha. Msla hal ho jaiey ga. Wo mukhlis log jo aik raat din sy madom bachoun ko liay dharna diay baithy thaiy aty hi in ki mehnat py pani phair dia.ye wohi ramzan touqeer ha jis ny jameat k ijlas main sajid naqvi aur fazlur rehman ko aik maqam ka btaya. Dushman ki goud main baithny wali parti ha . shoro sy in ki yahi rawish rahi. Iso k larkoun ny tw ulta bachaya molvi ko. Marny wali awam thi jo apni mehnat py pani phirty deakh k gussy main a gai. Plzz in comments ko zaror lgaien. Aur apny reporter ki munafiqana policy pr issy jawab go karain. Thanx
ہماری پیشکش