0
Tuesday 25 Oct 2016 10:13

دہشتگردی کیخلاف جنگ اور امریکہ کی دوغلی پالیسی

دہشتگردی کیخلاف جنگ اور امریکہ کی دوغلی پالیسی
تحریر: تصور حسین شہزاد

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب دنیا بھر کیلئے "جنگ برائے امن" کی بہترین مثال ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان ہی پہلے سے زیادہ مستحکم نہیں ہوا بلکہ پورے خطے میں استحکام آیا ہے۔ آج ہمارے بہادر لوگ دنیا کو فخر سے یہ بتا سکتے ہیں کہ افغان سرحد پر دور دور تک دہشتگرد نیٹ ورک کو ختم کرکے امن و خوشحالی کی فضا قائم کر دی گئی ہے۔ سنگدل دشمن پر قابو پانے کے بعد ہمیں ترقی کی راہ پر آگے بڑھنا ہوگا۔ پاک فوج کے جوان چست، پھرتیلے اور ہوشیار ہیں، کھیلوں کے انعقاد سے تمام ممالک سے روابط مزید مضبوط ہوں گے، امید ہے کہ مستقبل میں کھیلوں کا یہ انعقاد مزید وسیع ہوگا۔ لاہور میں پہلی پیسز چیمپئن شپ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے پیسز میں شرکت کرنیوالے تمام مہمانوں کو مبارکباد دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ کھیلوں کے انعقاد سے ان ممالک میں شریک تمام ممالک سے روابط مضبوط ہوں گے۔ دنیا کی 18 اہم فورسز کے کھلاڑیوں نے جرات، بہادری اور پیش وارانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ آرمی چیف نے توقع ظاہر کی ہے کہ مہمان کھلاڑیوں نے پاکستان کی خوبصورتی، استحکام اور یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھایا ہوگا۔ انہوں نے پہلے پیسز مقابلوں کو ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مستقبل میں بھی اسی طرح کے مقابلے منعقد کرنے پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔

چیمیئن شپ سے تمام ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا ہے۔ دنیا کی بہترین افواج نے چیمیئن شپ میں شرکت کی۔ ضرب عضب آپریشن کو "جنگ برائے امن" قرار دے کر مثال پیش کرنا یقیناً درست ہے۔ ایک عالم ہماری کوششوں کا معترف ہے کہ ہم نے بڑی قربانیاں دے کر وطن عزیز کو دہشتگردی سے نجات دلائی ہے اور شدت پسندوں کے ٹھکانے ختم کرکے اسے پسپا کیا ہے، لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ انکل سام ہماری کارکردگی کا اعتراف کرنے کے باوجود دودھ میں مینگنیاں ڈالنے سے باز نہیں آتا۔ گذشتہ روز ایک طرف پاک فوج کے سربراہ دنیا کو ضرب عضب آپریشن میں سمیٹی گئی کامیابیوں کے تناظر میں باور کروا رہے تھے، اگر جنگ برائے امن کا عملی ثبوت دیکھنا ہے تو دہشتگردی کیخلاف ہمارے ضرب عضب آپریشن اور اس کے ثمرات کا نظارہ کرو، تو وہیں ایک مرتبہ پھر امریکیوں کی طرف سے صدا بلند ہوئی کہ ٹھیک ہے، آپ نے شدت پسندوں کو شمالی وزیرستان مار بھگایا، دہشتگردی کی وارداتوں میں بھی جان و مال کا نقصان برداشت کیا۔ خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں پاکستانیوں کی جانیں گئیں، املاک تباہ ہوئیں، عالمی روابط میں رخنہ اندازی ہوئی، مگر صاحب، آپ نے حقانی نیٹ ورک کیخلاف کچھ نہیں کیا تو آپ کی سبھی کارگزاری بے کار، یعنی امریکیوں کا پرنالہ ابھی تک وہیں ہے جہاں پہلے تھا۔

اب کی بار تو قائم مقام امریکی نائب وزیر ایڈم روبن نے تھنک ٹینک سے خطاب میں پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے الزامات کا تومار ہی نہیں باندھا بلکہ کھلے بندوں یہ دھمکی دینے سے بھی گریز نہیں کیا کہ اگر پاکستان نے اس کی منشا کے مطابق حقانی نیٹ ورک کیخلاف موثر اقدام نہ کیا تو پاکستان میں ان کے ٹھکانوں پر حملے سے گریز نہیں کرے گا۔ یعنی اسامہ بن لادن والی کارروائی دوہرانے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ کہ پاکستان اپنی سرزمین پر کام کرنے والے دہشت گردوں کے تمام نیٹ ورکس کیخلاف کارروائی کرے۔ وگرنہ امریکہ جب ضروری سمجھے گا، دہشتگردوں کے نیٹ ورکس تباہ اور انہیں تتربتر کرنے کیلئے اکیلے بھی کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ امریکی قائم مقام نائب وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت پاکستان بالخصوص آئی ایس آئی میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو پاکستان میں سرگرم تمام دہشتگردوں کیخلاف مساوی اقدامات سے انکار کرتی ہیں اور کچھ گروپس کو برداشت کرتی ہیں۔

ایسے وقت میں جب پاکستان دہشتگردی کے نیٹ ورک کے خاتمے کیلئے مصروف عمل ہے پاک فوج کے معتبر ادارے پر انکل سام کے کارندوں کی الزام تراشی وہ مذموم حرکت ہے، جس پر پاکستانی حکومت کو اپنے احتجاج ریکارڈ کرانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ خود مسلح افواج کی طرف سے بھی امریکی اہلکار کی ہرزہ سرائی کا ٹھوس جواب دیا جانا ناگزیر ہے۔ بالخصوص پاکستان میں امریکہ کی طرف سے کارروائی کرنے کی دھمکی پاکستان کی سلامتی، وقار اور خود مختاری کیلئے کھلا چیلنج ہے، جس پر حکومت وقت کو نوٹس لینا چاہیے، کسی قسم کی مصلحت کوشی کی بنا پر اس دھمکی پر خاموشی اخیتار کرنا ایک فون کال پر مشرف کی طرح جھکنے کے مترادف ہوگا، جس اب کسی پاکستانی کی غیرت و حمیت برداشت نہیں کرے گی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے بیان میں بات واضح کر دی ہے کہ ہم نے جنگ برائے امن میں جو کامیابیاں سمیٹی ہیں، وہ ہمارے بہادر، نڈر اور شیر دل جوانوں کی قربانیوں کا ثمر ہیں۔ ہم نے پاکستان کو محفوظ و مستحکم نہیں بنایا بلکہ پورے خطے کو گہوارہ امن بنانے کی سعی کی ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کو ہمارے کردار پر شک ہے تو اس پر ہمیں کوسنے دینے کے بجائے اپنی دو عملی پر مبنی منافقانہ حکمت عملی پر نگاہ ڈالنی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 578249
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش