3
0
Thursday 1 Dec 2016 19:19

اے سربستہ رازوں کے امین

اے سربستہ رازوں کے امین
علی ناصر صفوی کی بیٹی کے اپنے شہید بابا کے بارے تاثرات

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ۔ آل عمران ١٦٩
"اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا، وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پا رہے ہیں ۔"
سلام شہدائے راہ خدا پر، سلام عشق الٰہی کی منزل پر سرفراز شہداء پر، سلام کربلا والوں سے اپنا عہد وفا نبھانے والوں پر، سلام عشق الٰہی کے سربستہ رازوں کے امینوں پر، سلام ان شہدائے اسلام پر جن کے خون کا حساب اب بھی باقی ہے، سلام ان شہداء پر جن کی شہادت سے قوم کا دل خون ہے، سلام عشق کی منزل میں شجاعت کی سچی حکایت بتانے والوں پر جو "ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ" کی منزل پر فائز ہو کر مظلوم کی حمایت میں ظلم کا سر کچل دینے والے ہیں۔ کیا شہید کا جرم یہ ہے کہ وہ ظالموں کی پرخوری، مستضعفین کی بے بسی اور مظلومین کی مظلومیت پر خاموش بیٹھنے والوں میں سے نہ تھے؟ کیا شہداء کا جرم یہ ہے کہ وہ حق کا پرچار کرنے والے، شیر دل، بہادر اور شجاع ہیں، جو ظلم سے پنجہ آزمائی کرتے تھے۔؟ کیا شہداء کا جرم یہ کہ وہ قتل و غارت، سیاسی پالیسیوں، عوامی مشکلات کے نازک ترین حالات میں ظالمین کے غرور کو پاوں تلے روندنے والے تھے۔؟

شہادت عشق الٰہی کی منزل کو پانے کا ایک عظیم راستہ ہے۔ شہادت محبوب حقیقی سے ملاقات کا ایک عظیم تحفہ ہے۔ شہادت میدان عشق الٰہی میں کامیاب ہونے کی دلیل ہے۔ شہادت امتحانوں میں سرفرازی کا زینہ ہے۔ شہادت ظالموں کی بزدلی اور شکست کو بھانپنے کا پیمانہ ہے۔ اے شہید علی ناصر صفوی تمہیں یہ عظیم تحفہ، یہ عظیم کامیابی اور خدا سے ملاقات کا شرف مبارک ہو۔  واقعاً تم نے اپنے عشق وفا کو کامیاب کر دکھایا۔ واقعاً تم نے سبقت حاصل کر لی۔ واقعاً خدا نے تمہارا انتخاب کر لیا۔ حقیقتاً تم نے اپنا خون دے کر اپنی بہادری اور دشمن کی ذلت کا راز آشکار کیا۔ مانا کہ تم نے عظیم کامیابی کو پا لیا، مانا کہ خدا نے تمہارا انتخاب کر لیا، مانا کہ تم نے عشق وفا کو پورا کر دکھایا۔ آج ہم تم سے سوال کرتے ہیں، اے شہید اللہ کی محبت میں تم کیسی لذت محسوس کرتے ہو؟ آئمہ کی محفل میں بیٹھنا کتنا خوشگوار لگتا ہے؟ وہ کونسی طاقت تھی کہ جس نے تمہیں خطروں سے بے نیاز کر دیا تھا؟

وہ کونسی طاقت تھی کہ تم طوفان طلاطم سے نہیں گبھراتے تھے؟ وہ کونسا جذبہ تھا کہ تمہاری  اپنی کمسن بچیوں کی محبت تمہاری راہ میں رکاوٹ نہ ڈال سکی؟ وہ کونسی محبت تھی کہ تمہاری بوڑھی ماں کی آنکھوں میں تمہاری محبت کے آنسو تمہارے قدم نہ لرزا سکے؟ تم اپنی قوم کا آخر کتنا درد رکھتے تھے؟ تمہیں اپنی قوم سے کتنی محبت تھی کہ جن کی اصلاح کے لئے تم رواں دواں رہے۔؟ تمہیں مظلومین کی آہیں اور سسکیاں چین سے بیٹھنے نہیں دیتی تھیں۔ تم ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ ظالموں کی ہر سازش کو ناکام بنا ڈالوں۔ تم ہر وقت اس لگن میں رہتے تھے کہ مظلوموں کی حمایت میں ظالموں کے غرور کو پاوں تلے روند کر ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکوں۔

حقیقت میں یہ عشق الٰہی ہی تھا کہ تم اپنی کمسن بچیوں سے اپنی شہادت کی دعاوں کی التجا کرتے تھے۔ آج یہ قوم اپنے عمل و کردار سے تمہارے نظریئے کو زندہ رکھنے کی تمام صلاحیتوں کی حامل ہے، لیکن کوئی تجھ سا نہیں، جو ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے۔ اپنی شہادت کے بعد بھی تمہیں بے چین کرنے والی چیز اپنی قوم کی اصلاح اور مظلومیت کو ختم کرنا ہی تھا۔ شہید کا قیمتی سرمایہ شہید کا نظریہ ہوتا ہے، جس پر وہ اپنی جان تک کا نذرانہ پیش کر دیتا ہے، اس کے نظریئے کو زندہ رکھنا، اس کے مقاصد کو، اس کی جدوجہد کو باقی رکھنا شہید سے وفا کرنا اور اس کے حق کی ادائیگی شمار ہوتا ہے۔ آج دشمن حیران و سرگرداں ہے کہ وہ  کونسی طاقت ہے، جو اس مکتب عشق کی ان ماوں، بہنوں کو اپنے جوان سال بیٹوں کے لاشوں پر لبیک یاحسین (ع) کا نعرہ لگواتی ہے۔ یہ طاقت کربلا سے عشق ہے، حسین علیہ السلام کے راستے سے عشق ہے، خدا سے عشق ہے۔

اے استعماری طاقتو، اے باطل قوتو، تم نے شہید ناصر صفوی کو ان کی زوجہ سمیت شہید کرکے اپنی بزدلی اور ذلت کا ثبوت دیا ہے، تم نے اس بوڑھی ماں کے سامنے اس کے اکلوتے بیٹے کے سینے میں گولیاں اتار کر اپنی درندگی کا ثبوت دیا ہے، تم ہرگز اس ماں اور اس کی کمسن بیٹیوں کو کمزور نہ پاو گے۔ درحقیقت تم ایسا کرکے شہید کے کام کو، اسکے مقاصد کو ختم کرنا چاہتے تھے، مگر یہ تمہاری بھول ہے، یہ قوم گھبرائی نہیں، یہ قوم پیچھے نہیں ہٹی، پہلے ایک صفوی تھا، آج یہ پوری قوم صفوی ہے، پہلے ایک نقوی تھا، آج پوری قوم نقوی ہے، پہلے ایک حسینی تھا، آج یہ پوری قوم حسینی ہے۔ لاشے گرنے سے تو قومیں بیدار ہوتی ہیں، یہ قوم شہید کے عہد کو وفا کرنے کی لگن میں ہے۔

ارشاد باری تعالٰی ہے:
مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ
"مومنین میں ایسے بھی مردُ میدان ہیں، جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ۔"
شہید علی ناصر صفوی وہ شیر دل مجاہد، با ایمان عاشق خدا، عاشق امام زمانہ (عج) تھےو جن کا مقصد باطل کو جڑ سے اکھاڑنا تھا، مظلومین کی مدد کرنا تھا، معاشرے اور قوم کی اصلاح کرنا تھا۔ وہ انقلابی کوششوں کا حصہ تھےو وہ شجاعت و بہادری کی وہ سچی حکایت تھے، جن کے دل میں قوم کا درد تھا۔ وہ مشکلات کے گہرے سمندر میں غوطہ لگانے کے عادی تھے، جن کی رضا صرف رضائے الٰہی میں متمرکز تھی۔ وہ اپنی ذاتی ضروریات اور مفادات سے بالکل عاری تھے۔ آج بھی ان کا خون "بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ" کی صدائیں بلند کر رہا ہے، وہ مظلوم شہید آج بھی آواز دے رہا ہے کہ اے میری قوم، میرے بھائیو، میری ماوں، بہنوں باطل کے خلاف سر اٹھاو، اپنے عمل و کردار سے شیطانی قوتوں کو شکست دو۔
این طالب بدم المقتول بکربلا
العجل العجل یا صاحب الزمان

ان شہیدان کے خون کا بدلہ لیکر ان کی روحوں کو تسکین پہنچائیں۔
خبر کا کوڈ : 588064
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

کریمی
Iran, Islamic Republic of
سلام آپ سلامت رہیں، آپ کے کالم کا انتظار تو 25نومبر کو تھا، خیر اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے، ہمیں شہید کی سیرت پر چلنے کی توفیق دے اور پاکستان کے شیعوں کو شہید کے افکار پر عمل کی اللہ توفیق دے۔ آپ کا ہم پر بہت حق ہے، ہمیں معاف کیجیے گا، ہم آپ کے لئے کچھ نہیں کر سکے۔
ameer
Pakistan
kamal
حسن
Iran, Islamic Republic of
بیٹی علی ناصر بھائی کی روح کتنی خوش ہوتی ہوگی, جب اپنی بیٹی کے اس جذبے، فہم و ادراک اور عزم کو دیکھتی ہوگی.
آپ کے بابا حریت پسندوں کے قافلے کے ایک عظیم سپوت تھے اور یہی حریت انہوں نے قوم کے ساتھ ساتھ اپنی کمسن بچیوں کی روح میں پھونکی، جو اس تحریر سے نظر آ رہی ہے۔
بیٹا ہمیشہ سلامت رہو۔
ہماری پیشکش