1
0
Monday 5 Dec 2016 14:47
سعودی عرب کے ایما پر پاکستان کی مقتدر ترین شخصیت کو متنازعہ بنانیکی کوشش کی گئی

مولانا فضل الرحمن نے آرمی چیف کی تقرری رکوانے کیلئے لاہور میں شہباز شریف سے ملاقات کیوں کی؟(1)

مولانا فضل الرحمن نے آرمی چیف کی تقرری رکوانے کیلئے لاہور میں شہباز شریف سے ملاقات کیوں کی؟(1)
تحریر: علی اویس رند

چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے محفل میلاد کی پروقار تقریب کے اہتمام سے ان کے بارے میں گردش کرنے والی تمام افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پر الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ وہ قادیانی ہیں۔ یہ کس کی سازش تھی اور اسکی منصوبہ بندی کرنے والوں کا کیا ہدف تھا۔ اس کی تفصیل منظر عام پر لانا ایک پاکستانی کا فریضہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاجدار رسل، ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پر ایمان مسلمان ہونے کی پہلی شرط ہے۔ ختم نبوت سے انکار کفر ہے۔ پاکستان اسلامی نظریئے کی بنیاد پہ قائم ہوا، بدقسمتی سے آج جو لوگ مذہب کے نام پر پاکستان کی عمومی فضا میں چھائے ہوئے ہیں، ان جماعتوں نے نہ صرف قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ تقسیم ہند کی مخالفت کے نام پر قیام پاکستان کی بھرپور مخالفت کی۔ جنرل ضیاء الحق نے امریکہ اور سعودیہ کے ایما پر پاکستان کو نفرت کی آگ میں جھونک دیا۔ اس آگ نے ابھی تک مملکت خداداد پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان نے افغانستان کی طرز پر پاکستان میں اپنی مخصوص فکر کے مطابق طالبانی حکومت قائم کرنے کے لئے پاکستانی شہروں میں دھماکوں اور پاک فوج کیخلاف جنگ کا اعلان کیا۔ یہ جنگ اور دہشت گردی دس سال سے جاری ہے۔

کالعدم تحریک طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں عسکری مراکز قائم کئے، امریکی سی آئی اے اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را نے انہیں مالی امداد اور اسلحہ فراہم کیا۔ حال ہی میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک امریکی سیٹلائیٹ کمپنی دہشت گردوں کو پاک فوج کے ٹھکانوں اور نقل و حرکت کی تفصیلات فراہم کرنے کیساتھ ساتھ پاکستان کے شہری علاقوں میں دہشت گردی کرنے اور موقع واردات سے فرار کرنے کے لئے نقشے اور انسداد دہشت گردی کے تدارک کے سرکاری اقدامات کی تازہ ترین معلومات دیتی رہی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مخصوص دیوبندی مکتب فکر کی حکومت قائم کرنے اور تکفیری قوتوں کے مفادات کی تکمیل کے لئے پاکستان میں کام کرنے والی سیاسی مذہبی جماعتوں اور گروہوں کا عسکری ونگ ہے۔ اسی جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن کالعدم تحریک طالبان کیخلاف آپریشن میں مصروف پاک آرمی کے جوانوں کو شہید ماننے سے انکار کیا اور ان شہداء کو مردار سے تشبیہ دی۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں کالعدم تحریک طالبان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر نوحہ پڑھا۔

مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمان، مولانا زاہد الراشدی، کالعدم سپاہ صحابہ، وفاق المدراس العربیہ، مولانا طاہر اشرفی، مولانا ساجد میر اور ختم نبوت کے تحفظ کے نام پر سرگرم  دیوبندی گروپوں نے کالعدم تحریک طالبان کیخلاف آپریشن کی سخت مخالفت کی اور لال مسجد کی جانب سے پاک فوج کیخلاف جنگ کے جائز ہونے کی تائید کرتے ہوئے، حکومت اور فوج کو کالعدم تحریک طالبان کیخلاف آپریشن شروع کرنے کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں۔ پاکستان کے وجود کو لاحق خطرے کے پیش نظر، سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد پاک فوج نے کالعدم تحریک طالبان کیخلاف ضرب عضب کے نام سے کارروائی کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کی تمام دیوبندی اور اہل حدیث جماعتوں، مدارس، گروپوں اور شخصیات کی جانب سے ضرب عضب کی مخالفت کی گئی۔ قومی اتفاق رائے کو نقصان پہنچانے کے لئے دہشت گردی کی تعریف میں مذہب کے نام پر وضاحت کو ختم کروا کر اس میں ابہام برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی، تاکہ پاکستان دشمن قوتوں کو مختلف بہانوں سے تحفظ دیا جا سکے اور پاک فوج کی کارروائیوں کو بے نتیجہ ظاہر کیا جا سکے۔ لیکن یہ آپریشن جاری ہے۔ پاکستانی رائے عامہ مکمل طور پر مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کو پاکستان مخالف ممالک اور قوتوں کا ایجنڈا سمجھتی ہے۔

اس وقت پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں موجود پاکستان دشمن کالعدم تحریک طالبان بھارتی امداد کے بل بوتے پر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن پاکستان میں ضرب عضب شروع ہونے سے پہلے والا ماحول نہیں، نہ ہی سید منور حسن سمیت کسی کو جرات ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی وارداتوں کو برملا طور پر حق بجانب کہہ سکے۔ البتہ بھارتی وزیراعظم مودی کے خاص دوست وزیراعظم نواز شریف کے قابل اعتماد حلیف مولانا فضل الرحمان آپریشن ضرب عضب کو اب بھی فاٹا کے عوام کیخلاف ظالمانہ کارروائی قرار دیتے ہیں، تاکہ پاک فوج کے متعلق یہ تاثر لیا جائے کہ ہماری افواج اپنے ہی شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہیں اور پاکستان کے خلاف کوئی مسلح جنگ موجود نہیں، نہ ہی بھارت، اسرائیل اور امریکہ کے خفیہ ادارے کالعدم تحریک طالبان کو مالی اسپورٹ اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے تحریک پاکستان کے دوران قیام پاکستان کی مخالفت کی، انہوں نے منافقانہ طور پر پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا اور پاکستانی سیاست میں پنجے گاڑ لئے۔ بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔ اس وقت سے اب تک ہمارا پڑوسی ملک ہمارے خلاف مصروف جنگ ہے۔

تحریک پاکستان کے دوران قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے عناصر چونکہ پاکستان کے وجود کو دل سے نہیں مانتے، اس لئے ہمارے خارجی اور ان اندرونی دشمنوں کا شروع سے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون نے ہمیشہ ان کی حمایت کی۔ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کی قیادت بھی اس وقت ایسے ہاتھوں میں ہے، جن کی پشت پہ بھارتی سرکار کا ہاتھ ہے۔ وفاق اور پنجاب میں موجود نواز حکومت اور مخصوص ایجنڈا رکھنے والی دیوبندی اور اہل حدیث قوتوں کے درمیان وجہ دوستی، دونوں کے لئے سعودی شہزادوں کے کھلے خزانے بھی ہیں۔ یہ ایک ہی عطار کے لونڈے سے دوا لے رہے ہیں۔ اندرونی طور پر لشکر جھنگوی، داعش، القاعدہ کو افرادی قوت انہی گروپوں کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے، نواز حکومت انکی سرپرستی کرتی ہے، یہ دونوں قوتیں ضرب عضب سمیت پاک فوج کی طرف سے مملکت کے دفاع کے لئے ناگزیر تمام اقدامات کو اپنے مفادات کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ سید منور حسن کی جانب سے پاک فوج کیخلاف بیان بازی ان تمام قوتوں کے موقف کی ترجمانی تھی، اس وقت یہ شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ سول ملٹری تعلقات کی پیچیدہ صورتحال اور فوج میں اسلامی حوالے سے مثالی نہیں، اس لئے بطور کلی ہر شعبے کی طرح فوج میں بھی اصلاحات کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسوقت مملکت اور ریاست جن خطرات سے دوچار ہے، ان حالات میں پاکستانی فوج جو کردار ادا کر رہی ہے، دنیا میں اس کوئی مثال نہیں۔

فوج میں کمانڈ کی تبدیلی کے موقع پر نون لیگ، دیوبندی اور اہل حدیث جماعتوں نے پاک فوج کو جس طرح متنازعہ بنانے کی کوشش کی، یہ کالعدم تحریک طالبان، کالعدم سپاہ صحابہ، کالعدم لشکر جھنگوی اور داعش کو اسپورٹ کرکے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے دس سال سے جاری انکی کوششوں کا تسلسل ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت صرف پاک فوج ہی ان کے راستے میں رکاوٹ ہے، جیسا کہ بھارتی سمجھتے ہیں۔ ان جماعتوں کے پیروکاروں کی ذہنی حالت اور جنون کی کیفیت کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے کہ وہ  معاشرے کے ایک خاص طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیشہ خاص پروپیگنڈہ کی زد میں رہتے ہیں، شدت پسندی اور ہٹ دھرمی ان کی رگ رگ میں شامل ہے۔ ان کے مفاد پرست قائدین ہمیشہ انہیں مذہب کے مقدس نام پر مسلمانوں کیخلاف دہشت گردی کے لئے ابھارتے ہیں اور دنیا بھر میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے آمادہ رکھتے ہیں۔ انکا خاص مزاج تکفیر ہے، یعنی اپنے علاوہ سب کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھنا۔ پاکستان کی اساس چونکہ اسلام ہے اور پاکستانی اسلام سے جذباتی تعلق رکھتے ہیں، اس لئے یہ گروہ عرصے سے پاک فوج اور پاکستانی عوام کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کے لئے یہی پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ہماری فوج اسلام کے دائرے سے خارج ہے، انکے خلاف جنگ واجب ہے، جیسا کہ اسامہ بن لادن، ملا عمر، حکیم اللہ محسود، مولانا عبدالعزیز اور سید منور حسن کے بیانات اس موقف کی تائید کے لئے موجود ہیں۔

پاک فوج میں کمانڈ کی تبدیلی ایک حساس مرحلہ ہوتا ہے، جنرل راحیل نے پاک افغان سرحد پر موجود کالعدم مذہبی جماعتوں کے ٹھکانے ہی تباہ نہیں کئے بلکہ پاکستان کے شہروں میں موجود ان کے سہولت کاروں پر بھی کاری ضرب لگائی ہے۔ یہ مجبور ہوگئے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے محدود پیمانے پر محتاط انداز اختیار کر لیا۔ جنرل راحیل شریف نے جب مدت ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے دوبارہ سے منصوبہ بندی شروع کر دی۔ جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمان نے خاص انداز میں مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیا۔ بظاہر جنرل راحیل شریف نئے کمانڈر ان چیف کے تقرر سے لاتعلق رہے اور وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیار کا حوالہ دیتے رہے، لیکن پاک فوج اپنے وجود کی گہرائیوں سے یہ محسوس کرتی ہے کہ اس وقت مملکت کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہیں، سب سے پہلی ترجیح ریاست کا وجود ہے، اس لئے جنرل راحیل کے جانے اور کمانڈ میں تبدیلی سے اس پالیسی میں جوہری تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔ اس لئے نئے آرمی چیف کو متنازعہ بنانے کے لئے اہل حدیث اور دیوبندی گروہوں نے اپنی حلیف حکومت کو قائل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے کہ اس حساس موقع پر فوج میں بحران پیدا کیا جائے، جس سے پاکستانی ریاست مزید عدم استحکام کا شکار ہو، تاکہ یہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے پیش نظر اپنے مفادات کی تکمیل کرسکیں، یہ ہر صورت میں پاکستان میں ملا عمر کی طرز پر حکومت کا خواب لیکر جی رہے ہیں۔ اس مذموم سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کس کس نے کیا کیا کردار ادا کیا، اسکی تفصیل تحریر کے اگلے حصے میں ملاحضہ فرمائیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 588556
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

خانم فلاحی
Iran, Islamic Republic of
نواز شریف کی حکومت تو کھل کر ان تکفیری جماعتوں کو سپورٹ کر رہی ہے، جس کی زندہ مثال پی پی 78 جھنگ کا ضمنی الیکشن ہے، جو سب کے سامنے ہے۔
ہماری پیشکش