0
Monday 27 Feb 2017 12:59

سعودی وزیر خارجہ کا غیر متوقع دورہ عراق

سعودی وزیر خارجہ کا غیر متوقع دورہ عراق
تحریر: ہادی محمدی

سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر ملک کے پہلے اعلی سطحی عہدیدار ہیں جنہوں نے چند سال پہلے عراق سے سعودی سفیر واپس بلائے جانے کے بعد اس ملک کا دورہ کیا ہے۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ غیرمتوقع دورہ انتہائی جلدبازی میں انجام پایا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے اپنے اس دورے میں عراق کیلئے نئے سعودی سفیر کی بھی تقرری کی ہے۔ انہوں نے اپنے دورے کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دورہ دوطرفہ تعاون اور ہمکاری کو فروغ دینے کیلئے انجام پایا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اعلان کیا کہ سعودی عرب داعش کے قبضے سے آزاد ہونے والے علاقوں کی سکیورٹی قائم کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہے اور داعش کے خلاف جنگ میں عراق کی مدد کرنے کا بھی خواہاں ہے۔ عادل الجبیر نے کہا کہ اگر عراق بے طرفانہ پالیسی پر گامزن ہو جائے تو وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار بھی ادا کر سکتا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ جو ضمنی طور پر خود کو عراق کے آزاد شدہ اور سنی نشین علاقوں کا سرپرست ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے ایسے وقت عراق آئے ہیں جب داعش واضح طور پر اپنی نابودی کے دہانے پر ہے۔ سب بخوبی آگاہ ہیں کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی تشکیل سے اس کے حامی اور بانی ممالک کا مقصد عراق کی قانونی حکومت کا خاتمہ تھا۔ عراق میں داعش کی پرورش میں سعودی عرب اور ترکی نے انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت عراق کی مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورس (الحشد الشعبی) کی انتھک محنت اور جدوجہد کے نتیجے میں داعش آخری سانسیں لے رہی ہے اور عراق کی تین بڑی اقوام (شیعہ، سنی، کرد) میں اتحاد اور وحدت کا زمینہ فراہم ہو چکا ہے۔

خطے میں موجود تکفیری دہشت گرد گروہ اور وائٹ ہاوس میں ایک مشترکہ قدر پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ دونوں نہیں چاہتے عراق میں داعش کا خاتمہ عراقی حکومت کی طاقت میں اضافے پر منتج ہو۔ لہذا آل سعود رژیم کی جانب سے عراق واپس لوٹنے میں جلدبازی کی حقیقی وجہ عراق میں بچے کھچے دہشت گرد عناصر کو حتمی نابودی سے بچانا اور ان میں نئی روح پھونکنے کے علاوہ عراقی معاشرے میں قومی اور مذہبی فرقہ واریت کو فروغ دے کر قومی اتحاد کو ناممکن بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی وزیر خارجہ خود کو صرف داعش سے آزاد شدہ علاقوں کا سرپرست بنائے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان سے پہلے عراق میں سابق سعودی سفیر السبہان صوبہ الانبار کی سرپرستی کا اظہار کیا کرتے تھے اور داعش کے قبضے سے آزادی کے بعد اس صوبے میں بسنے والے اہلسنت عراقی شہریوں کے بارے میں پریشان دکھائی دیتے تھے۔ السبہان واضح طور پر عراق کے اندرونی مسائل میں مداخلت کرتے اور داعش کے خلاف برسرپیکار عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے خلاف زہر اگلتے رہتے تھے۔ انہیں اقدامات کے باعث انہیں عراق سے نکال دیا گیا۔

حالیہ دورے میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کو وائٹ ہاوس اور سی آئی اے کے سربراہ مائیک پمپیو کی جانب سے ایک اور اہم مشن بھی سونپا گیا ہے جو عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے پر مبنی ہے۔ لہذا ان کی جانب سے عراقی وزیراعظم کو بے طرفی کی دعوت دی گئی ہے اور اسے سعودی عرب اور عراق میں تعلقات کے فروغ کی شرط قرار دیا گیا ہے۔ آل سعود رژیم عراق کو ایران سے دور کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایران اور عراق میں تعلقات فطری بنیادوں پر استوار ہیں۔ سعودی حکومت عراق کو ایران سے دور کر کے اس کے سیاسی فیصلوں پر اثرانداز ہونا چاہتی ہے اور اس مقصد کیلئے سعودی وزیر خارجہ نے عراقی حکام کو داعش کے قبضے سے آزاد شدہ علاقوں کی تعمیر نو میں تعاون کرنے کا لالی پاپ بھی دیا ہے۔

سعودی حکام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آل سعود اور ترکی کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گرد عناصر کے مجرمانہ اقدامات کا نتیجہ عراقی عوام میں سعودی حکام سے شدید نفرت کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے جس کے باعث عراق میں سعودی عرب کی پوزیشن انتہائی کمزور ہو چکی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سعودی حکام کے سامنے عراقی معاشرے میں وہابی اور تکفیری افکار کی ترویج کا صرف ایک ہی راستہ بچ گیا ہے اور وہ عراقی حکومت کو رشوت دینے کا راستہ ہے۔ لہذا سعودی وزیر خارجہ خود کو اہلسنت شہریوں کا نجات دھندہ ظاہر کر کے عراقی حکومت کو رشوت لینے پر راضی کر رہے ہیں تاکہ اس طرح اپنا کھویا ہوا اثرورسوخ دوبارہ واپس لوٹا سکیں اور عراق میں قومی اور مذہبی فرقہ واریت پر مبنی اپنا پراجیکٹ مکمل کر سکیں جو عراقی مسلح افواج اور عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کی جدوجہد کی بدولت نامکمل رہ گیا ہے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد عراق میں سیاسی عدم استحکام کو فروغ دے کر موجودہ حکومت کی بنیادیں نابود کرنا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اچھی طرح جانتے ہیں کہ عراق میں داعش کے مکمل خاتمے کے بعد شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی نابودی شروع ہو جائے گی اور اس کے بعد تکفیری دہشت گرد عناصر کے اصلی حامیوں کی باری آ جائے گی جنہوں نے دہشت گرد گروہوں کی فوجی اور مالی امداد کے ذریعے شام اور عراق کو موجودہ صورتحال سے دوچار کیا ہے۔ سعودی حکام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر آج عراق سے تکفیری دہشت گردی کی لعنت کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے تو عراق اپنے پاوں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہو جائے گا اور عراقی معاشرے میں قومی اور مذہبی فرقہ واریت کا زمینہ ختم ہو جائے گا جو سعودی حکومت کے ہاتھ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے ایک اہم ہتھکنڈہ ہے۔ لہذا آل سعود رژیم کی جانب سے انتہائی جلدبازی میں عراق میں سفارتی واپسی اور خود کو اہلسنت عراقی شہریوں کا نجات دھندہ ظاہر کرنے کی اصلی وجہ عراق کو ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک سے دور کرنا ہے۔ لیکن آل سعود رژیم کی یہ آرزو ہر گز پوری نہیں ہو گی۔ عراقی وزیراعظم حیدر العبادی اور وزیر خارجہ ابراہیم جعفری نے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کو واضح انداز میں سمجھا دیا ہے کہ وہ ملک میں سعودی حمایت یافتہ تکفیری – وہابی دہشت گرد عناصر کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں اور بہت جلد ان کا مکمل خاتمہ کر کے ہی دم لیں گے۔
خبر کا کوڈ : 613303
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش