0
Friday 23 Jun 2017 21:35

سعودی عرب میں امریکی نرم بغاوت

سعودی عرب میں امریکی نرم بغاوت
تحریر: روح اللہ صالحی

ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی غرض سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب دورے کے کچھ ہفتے بعد سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز نے ولیعہد محمد بن نائف کو برطرف کر کے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو نیا ولیعہد مقرر کر دیا ہے۔ محمد بن سلمان اس سے پہلے نائب ولیعہد کے عہدے پر فائز تھا اور وہ ایران کے خلاف زیادہ شدت پسندانہ پالیسیوں اور نقطہ نظرات کے اعتبار سے معروف ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ایران کے اندر فرقہ وارانہ جنگ کا آغاز ہونا چاہئے۔

سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز نے اپنی کابینہ میں تیسری بار تبدیلی کرتے ہوئے بدھ کے دن شاہی فرمان جاری کیا جس کے تحت محمد بن نائف کو ولیعہدی کے عہدے سے برطرف کرتے ہوئے اپنے بیٹے اور نائب ولیعہد محمد بن سلمان، جس نے وزارت دفاع کا قلمدان بھی سنبھال رکھا تھا، کو نیا ولیعہد مقرر کر دیا۔ سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی "واس" کے مطابق اس شاہی فرمان کے نتیجے میں محمد بن نائف کو ولیعہدی سمیت دیگر تمام عہدوں سے بھی برطرف کر دیا گیا ہے جن میں وزارت داخلہ اور وزراء کونسل کی نائب سربراہی بھی شامل تھی۔ اس ایجنسی کے مطابق سعودی فرمانروا ملک سلمان نے اصلی قانون حکومت کی شق 5 کے ذیلی بند ب کو بھی تبدیل کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ حکومت کا حق صرف سعودی عرب کے بانی عبدالعزیز بن عبدالرحمان الفیصل آل سعود کے بیٹوں اور بیٹوں کے بیٹوں کو حاصل ہو گا۔ ملک سلمان بن عبدالعزیز نے شاہی فرمان جاری کرنے کے بعد تمام حکومتی عہدیداروں کو حکم دیا کہ وہ بدھ (21 جون) کی رات نماز تراویح کے بعد مکہ مکرمہ میں نئے ولیعہد محمد بن سلمان کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ اسی طرح محمد بن سلمان کو محمد بن نائف کی جگہ وزراء کونسل کا نیا نائب سربراہ مقرر کیا گیا ہے جبکہ ان کے پاس وزارت دفاع کا عہدہ بھی باقی رہے گا۔ بیعت شوری کے کل 34 اراکین میں سے 31 اراکین نے محمد بن سلمان کی ولیعہدہ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

سابق ولیعہد محمد بن نائف نے عہدے سے برطرفی کے بعد مکہ میں واقع صفا محل میں حاضر ہو کر نئے ولیعہد محمد بن سلمان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ملک سلمان بن عبدالعزیز نے حکومتی قانون کی شق 5 کے ذیلی بند "ب" کو نارملائز کیا ہے۔ سعودی تاریخ میں پہلی بار طاقت باپ سے بیٹے کو منتقل ہو گی۔ سیاسی ماہرین کی نظر میں اگر سعودی عرب کی سیاسی شطرنج میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوتی تو 31 سالہ ولیعہد محمد بن سلمان بادشاہت تک پہنچنے میں صرف ایک قدم دور رہ گئے ہیں۔ ان کی نظر میں اگر ایسا ہو جاتا ہے تو سعودی عرب میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ سعودی فرمانروا ملک سلمان کی جانب سے نئے ولیعہد کی تقرری کے ساتھ اور بھی کئی اہم حکومتی عہدوں پر تبدیلیاں انجام دی گئی ہیں۔ احمد بن محمد السالم کو وزیر کی سطح کا نیا نائب وزیر داخلہ مقرر کیا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر ناصر الداوود کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے وزیر کی سطح کا وزارت داخلہ کا نمائندہ بنا دیا گیا ہے۔ اینڈی پنڈنٹ اخبار کے صحافی محمد مزوار نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر اعلان کیا ہے کہ نئے ولیعہد محمد بن سلمان نے سابق ولیعہد محمد بن نائف کو اپنے گھر میں نظربند کرنے کا حکم جاری کیا ہے جس کا مقصد ان کی حفاظت بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح محمد مزوار نے ایک اور ٹوئٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ محمد بن نائف کے بھائی یعنی سعود بن نائف جو الشرقیہ خطے کے امیر بھی ہیں نیز اپنی رہائش گاہ العزیزیہ محل میں نظربند کر دیئے گئے ہیں۔

محمد بن سلمان کی بادشاہت کیلئے مقدمہ سازی
اس بات کے پیش نظر کہ گذشتہ دو سال کے دوران ملک کی حقیقی باگ ڈور محمد بن سلمان کے ہاتھ میں رہی ہے اور وہ ہی حقیقی معنا میں ملک کو چلاتے رہے ہیں، بعض سیاسی ماہرین ولیعہد کی تبدیلی کو نرم بغاوت قرار دے رہے ہیں اور اسے حقیقت میں محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا نیا فرمانروا بنانے کا مقدمہ قرار دیتے ہیں۔ ٹوئٹر پر سعودی عرب کے سیاسی راز فاش کرنے میں مشہور ہونے والا معروف صارف جو "مجتہد" کے نام سے جانا جاتا ہے، نے بھی ملک سلمان کے اس حالیہ اقدام کو بغاوت قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ عنقریب اپنے بیٹے محمد بن سلمان کے حق میں بادشاہت کے عہدے سے برطرف ہو جائیں گے۔ فارن پالیسی میگزین نے بھی بدھ کے روز اپنی ایک رپورٹ میں یہ پیشن گوئی کی ہے کہ محمد بن سلمان عنقریب سعودی عرب کے نئے بادشاہ بن جائیں گے کیونکہ ان کے والد ملک سلمان شدید آلزائمر کا شکار ہونے کے باعث حکومتی معاملات سنبھالنے سے عاجز ہیں اور وہ بہت جلد اپنا عہدہ چھوڑنے والے ہیں۔

فارن پالیسی میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے اس مدت میں جتنے بھی اقدامات انجام دیئے گئے ان کا واحد مقصد اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو بادشاہت تک پہنچانا تھا اور ان کی منصوبہ بندی پہلے سے ہی انجام دی گئی تھی۔ لیکن یہ اقدامات اٹھاتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ انہیں ایسے انداز میں انجام دیا جائے جس سے شاہی دربار میں کسی قسم کی حساسیت پیدا نہ ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے محمد بن سلمان کو حکومت داری کا کوئی تجربہ نہیں اور اس مدت میں ملک سلمان کی پوری کوشش یہ تھی کہ محمد بن سلمان کو اہم ملکی عہدے اور نامحدود اختیارات دے کر انہیں ملک کے اندر اور باہر ایک مقتدر چہرے کے طور پر متعارف کروایا جا سکے۔ سیاسی ماہرین کے بقول سعودی فرمانروا نے ولیعہد کے انتخاب میں دوسری بار عرف عام کی خلاف ورزی کی ہے جس نے انہیں ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ مختلف فرمانروا بنا دیا ہے۔ ملک سلمان بن عبدالعزیز نے برسراقتدار آتے ہی ایسے اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا جس کا مقصد اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اقتدار تک پہنچانا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے سابق فرمانروا ملک عبداللہ کے شاہی فرمان کو بھی تبدیل کر دیا اور نائب ولیعہد کے طور پر اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو مقرر کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بڑے پیمانے پر حکومتی عہدوں میں ردوبدل انجام دی اور بیشمار حکومتی اور غیر حکومتی عہدوں پر نئے افراد کا تقرر کیا۔

واشنگٹن میں بروکینگز انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ اور سی آئی اے کے سابق افسر بروس ریڈل کہتے ہیں: "ملک سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے 31 سالہ بیٹے کو ولیعہد کے عہدے پر مقرر کر کے آل سعود کی نئی نسل کے سامنے تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک کی بادشاہت تک پہنچنے کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔" کچھ دن پہلے بھی بعض سعودی خبری ذرائع نے بعض سعودی حکام کی جانب سے محمد بن سلمان کی ولایت عہدی کی حمایت کی خبر دی ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر ایک کمپین کا بھی انکشاف ہوا ہے جو 6 ماہ قبل سے سعودی شہزادوں کی جانب سے چلائی جا رہی تھی اور اس میں انہوں نے محمد بن سلمان کو ولیعہد بنائے جانے کے ممکنہ فیصلے کے منفی اثرات کے بارے میں وارننگ جاری کی تھی۔ سعودی فرمانروا کا یہ حکم ایسے وقت جاری ہوا ہے جب وہ پہلے ہی سابق ولیعہد محمد بن نائف کے اختیارات میں کافی حد تک کمی کر چکے تھے اور ان کا یہ اقدام سعودی شاہی خاندان میں جاری طاقت کی جنگ کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا تھا۔ اکثر سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ملک سلمان کی جانب سے اپنے بیٹے کو ولیعہد کے عہدے پر مقرر کئے جانے سے سعودی بادشاہی خاندان میں انتشار پھیلے گا کیونکہ محمد بن سلمان سعودی خاندان میں کافی حد تک محبوبیت کے حامل نہیں ہیں۔

محمد بن سلمان کا شمار ایسے شہزادوں میں ہوتا ہے جنہوں نے موجودہ فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز کے بعد برسراقتدار آنے کی سب سے زیادہ تگ و دو کی ہے۔ محمد بن سلمان کی جانب سے امریکہ کے متعدد دورے، امریکی حکام سے ملاقاتیں، یمن کے خلاف فوجی مہم جوئی کا آغاز اور اپنے ہی ملک کے نہتے عوام کے خلاف اعلان جنگ، وہ اقدامات ہیں جو گذشتہ چند سالوں کے دوران انجام پائے ہیں اور ان کا مقصد بادشاہت کا عہدہ اپنے نام کرنا ہے۔ سعودی فرمانروا کا یہ حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب دورے کے چند ہفتوں بعد جاری ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر کے سعودی عرب دورے کے مقاصد میں سے ایک محمد بن سلمان کی بادشاہت کی حمایت کا اعلان کرنا تھا۔ اسی طرح گذشتہ مہینے ایسی رپورٹس شائع ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد بن سلمان نے مارچ میں اپنے امریکی دورے کے دوران 65 ملین ڈالر رشوت کے طور پر امریکی حکومت کو دیئے تھے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ 500 ارب ڈالر کا فوجی معاہدہ بھی اسی تناظر میں انجام پایا ہے جس کا مقصد امریکہ کی جانب سے محمد بن سلمان کی حمایت کو یقینی بنانا ہے۔

ایران دشمن پالیسیوں کی شدت میں اضافہ
سعودی عرب کے فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز کے برسراقتدار آتے ہی اس ملک کی ایران دشمن پالیسیوں میں قابل توجہ شدت آ گئی۔ ملک سلمان بن عبدالعزیز اور محمد بن سلمان سے پہلے سعودی عرب نے ایران کی نسبت معتدل پالیسی اپنا رکھی تھی۔ اسی طرح سعودی عرب ایران اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے اعتبار سے جانا جاتا تھا۔ لیکن جب سے ملک سلمان بن عبدالعزیز برسراقتدار آئے اور ملک کی باگ ڈور محمد بن سلمان کے ہاتھ میں آئی سعودی عرب کی پالیسیاں بھی شدت پسندانہ ہو گئیں۔ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں جارحانہ رویوں نے جنم لینا شروع کر دیا۔ یمن پر فوجی حملے سے لے کر ایرانی حجاج پر بے جا سختی اور ظلم و ستم جیسے واقعات رونما ہوئے۔ محمد بن سلمان نے ایک ماہ قبل انتہائی متنازعہ بیان دیتے ہوئے اعلان کیا کہ "ہم بدامنی کو ایران کے اندر دھکیل دینا چاہتے ہیں۔" سعودی حکام نے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کو سنہری موقع جانا اور ایران دشمن سرگرمیاں مزید تیز کر دیں۔ ان سرگرمیوں کی واضح مثال حال ہی میں ایران کے خلاف فوجی اتحاد کی تشکیل ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ محمد بن سلمان کی طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی ایران دشمن پالیسیوں میں بھی مزید شدت آئے گی۔
خبر کا کوڈ : 648423
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش