0
Sunday 10 Sep 2017 00:42

حدیث غدیر پر ایک نظر

حدیث غدیر پر ایک نظر
تحریر: محمد حسن جمالی

روز غدیر تاریخ اسلام کے اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے، یہ وہ دن ہے جس میں مسلمانوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی، کیونکہ اس دن مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول (ص) نے مختلف بشارتیں سنا کر ان کی عظمت اور منزلت کو بڑها دیا۔ ایک طرف سے اللہ کے رسول (ص) نے وحی الٰہی کے مطابق علی (ع) کی ولایت کا اعلان کیا تو دوسری جانب سے خود اللہ تعالٰی نے امین وحی کے ذریعے ان تک اکمال دین، اتمام نعمت اور ان کے دین کو پسندیدہ ہونے کی نوید سنائی۔ یہ وہ دن ہے جس کا امت مسلمہ کو سعید اور شقی بنانے میں بڑا بلکہ بنیادی کردار ہے، اس دن میں پیش آنے والے عظیم واقعے کو جنہوں نے بغیر کسی تاویل و ردوبدل کے اچهی طرح سمجھ لیا، وہ سعادتمند ہوگئے اور جن مسلمانوں نے اس واقعے کو تحریف کا شکار کرکے اپنی مرضی سے اسے درک کرنے کی کوشش کی، وہ ہمیشہ کے لئے گمراہ ہوگئے۔ پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دن امت مسلمہ کے لئے تقدیر ساز دن ہے۔ واقعہ غدیر کو درست نہ سمجهنے کی وجہ سے مسلمان مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے اور ہر فرقے نے اپنے آپ کو حق اور سچ ثابت کرکے دوسروں پر غلبہ حاصل کے لئے بے پناہ کوششیں کی ہیں اور آج پوری دنیا میں مسلمان فرقہ واریت کے تعصب میں ایک دوسرے کے دست گریبان ہیں۔

مذہبی اختلافات مسلمانوں کے درمیان اس قدر شدت اختیار کرچکے ہیں کہ مسلمان بآسانی اپنے مسلمان بهائیوں پر کفر اور شرک کے فتوے جاری کرتے ہیں، مسلمان اپنے برادر مسلمان کا گلا کاٹنے میں کوئی ڈر اور خوف محسوس نہیں کرتے، طالبان جیسا شدت پسند گروہ انہی افراد کی نسل تو ہے، جو واقعہ غدیر کی حقیقت کا انکار کرکے راہ ضلالت پر گامزن ہوگئے تهے۔ آج مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکهنے والے کچھ پڑهے لکهے باشعور افراد فرقہ واریت کی آگ کو خاموش کرنے کے لئے اپنی بساط کے مطابق کوشش کر رہے ہیں، مگر میری نظر میں مسلمانوں کے درمیان سے فرقہ واریت کے تعصب کو جڑ سے اکهاڑ پهینک کر مسلمانوں کے درمیان امن، آشتی، محبت اور اتحاد کی جڑیں مضبوط کرنے کا واحد راہ حل مسئلہ غدیر کو کما حقہ پوری دیانتداری، صداقت اور امانتداری سے سمجهنا ہے، اگر واقعہ غدیر کو ہم اس کی اصلی شکل میں درک کر لیں تو باقی جزئی اختلافات خود بخود ختم ہو جائیں گے، اس لئے کہ اصل مرض تشخیص ہونے کے بعد اس کا علاج کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اب آیئے ہم روز غدیر، حدیث غدیر پر ایک نظر کرتے ہیں۔

حدیث غدیر ان متواتر احادیث میں سے ہے کہ جن کی اسناد صحابہ و تابعین کے دور سے لے کر زمان حاضر تک متصل و پیوستہ طور پر محفوظ ہیں۔ اس حدیث کو 110 صحابی اور 84 نفر تابعین نے نقل کیا ہے۔ قرون بعدی میں بهی علماء اور محدثین نے اسے نقل کیا ہے، اس کے مصادر و مراجع کے بارے میں شیعہ محققین، محدثین اور مؤلفین نے بہت زیادہ کتابین لکهی ہیں، جن میں سے بعض کا نام یہ ہے: علامہ سید ہاشم بحرانی (متوفا 1306ھ) نے کتاب "غایت المرام"، سید حامد میر حسین ہندی (متوفا 1306ھ) نے عظیم کتاب "عبقات الانوار" علامہ امینی (متوفا 1390ھ) نے نفیس کتاب "الغدیر" اور سید شرف الدین عاملی (متوفا 1381ھ) نے کتاب "المراجعات" تالیف فرمائی ہیں۔ حدیث غدیر کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے ہجرت کے دسویں سال لوگوں کو حج پر جانے کا حکم دیا، پیغمبر (ص) کے ساتھ حج کے لئے جانے والے افراد کی کمترین تعداد 90 ہزار بتائی گئی ہے، جب حج کے اعمال ختم ہوئے تو لوگوں نے مدینہ کی طرف حرکت شروع کی۔ چلتے چلتے یہ حج کا عظیم کاروان 17 ذی الحجہ کو جمعرات کے دن خم نامی مقام پر پہنچا، جبرئیل امین اس آیہ مجیدہ کو لے کر پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت اقدس میں پہنچے (یا ایها الرسول بلغ ماانزل الیک....) اے پیغمبر آپ اس حکم کو لوگوں تک پہنچا دیں، جو آپ کے پروردگار کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔

نبی مکرم اسلام (ص) نے آگے نکلے ہوئے افراد کو واپس لوٹنے کا اور جو لوگ وہیں تهے، انہیں وہیں ٹهر جانے کا حکم دیا، جب سارے لوگ اس مقام پر جمع ہوگئے اور لوگوں کو استراحت کرنے اور بیٹھ جانے کے لئے جگہ فراہم کر دی گئی۔ لوگوں کو نماز ظہر اقامہ کرنے کے لئے ندا دی گئی، لوگوں نے آنحضرت (ص) کی اقتدا میں باجماعت نماز ظہر ادا کی، نماز سے فارغ ہوتے ہی پالان شتر سے ایک ممبر بنوایا اور پیغمبر اکرم (ص) نماز کے فوراً بعد لوگوں کے درمیان سے اٹھ کر اس ممبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں سے مخاطب ہو کر خطبے کا آغاز کر دیا۔ اللہ تعالٰی کی حمد و ثناء کرنے کے بعد اجتماع کے حاضرین سے وحدانیت پروردگار، نبوت اور معاد کا اقرار لیا اور لوگوں سے سوالیہ انداز میں یہ پوچھا کہ اے لوگو ذرا یہ تو بتائیں کہ کیا تمہارے اوپر خود تم سے زیادہ مجهے تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں؟ سب نے کہا یارسول اللہ بے شک آپ کو ہم پر ہم سے زیادہ تصرف کا حق حاصل ہے۔ جب لوگوں نے یہ اقرار کیا، پیغمبر اسلام (ص) نے بلا فاصلہ مولای متقیان حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کے دست مبارک کو اپنے مبارک ہاتھ میں پکڑ کر اس قدر بلند کیا کہ وہاں اجتماع میں موجود لوگوں پر علی(ع) اور نبی(ص) کے زیر بغل کی سفیدی آشکار ہوگئی اور سارے لوگوں نے علی ابن ابی طالب (ع) کو خوب پہچان لیا۔

پیغمبر (ص) نے تین مرتبہ فرمایا: (من کنت مولاہ فهذا علی مولاہ) جس جس کا میں مولی ہوں، اس اس کے یہ علی مولی ہیں۔ اس کے بعد آنحضرت (ص) نے علی (ع) کے دوستوں کو دعا اور آپ کے دشمنوں پر نفرین کی اور اس بات پر تاکید کی کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں، جن کے کانوں تک اعلان ولایت علی کی آواز پہنچی ہے، وہ یہاں سے جب اپنے اپنے علاقوں میں واپس لوٹیں گے، وہ میرا یہ پیغام ضرور غائبین تک بهی پہنچائیں۔ ابهی اجتماع متفرق نہیں ہوا تها، امین وحی الٰہی یہ آیہ مجیدہ لے کر نازل ہوئے (الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لک الاسلام دینا) آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کر دیا ہے، اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کر دیا ہے اور تمہارے لئے تمہارے دین کو پسندیدہ بنا دیا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: خدا دین کامل کرنے اور نعمتوں کے کامل کرنے پر سب سے برتر ہے، اللہ تعالٰی راضی ہوا، میری رسالت اور میرے بعد علی (ع) کی ولایت پر۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر لوگوں نے فرط مسرت سے علی ابن ابی طالب (ع) کو ہدیہ تبریک پیش کرنا شروع کر دیا اور جناب ابوبکر و عمر نے دوسرے اصحاب پر سبقت لیتے ہوتے علی (ع) کو یوں تبریک عرض کی، (بخ بخ لک یابن ابی طالب اصبحت مولای ومولی کل مؤمن ومؤمنہ) واہ خوشابحال اے فرزند ابی طالب ہمارے اور سارے مومنین و مومنات کے مولٰی قرار پائے۔ یہ تها واقعہ غدیر کا لب لباب۔

حدیث غدیر کی دلالت: کلمہ مولٰی مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے، جیسے مالک، عبد، معتق، و معتق، صاحب، جار، حلیف، بیٹے کا بیٹا، چاچا کا بیٹا، تنزیل، شریک، رب، ناصر، منعم، منعم علیہ، محب، تابع، داماد اور اولی بالشی۔ کلمہ مولٰی کے ان مذکورہ معانی میں سے جو معانی شیعہ و اہلسنت کے درمیان مورد اختلاف قرار پائے ہیں، وہ دو ہیں، محب، اولی بالشئی۔ اہلسنت کہتے ہیں کہ حدیث غدیر میں موجود کلمہ مولٰی سے مقصود محبت و مودت ہے، جبکہ اہل تشیع اس بات کے قائل ہیں کہ کلمہ مولٰی کے معنی مؤمنین و مسلمین کے امور میں اولی بالتصرف ہونا ہے اور امامت کے معنی بهی یہی ہیں، اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے شیعہ محققین نے قرائن حالیہ و مقالیہ سے استفادہ کیا ہے۔

قرینہ حالیہ: محبت ایمانی کا لازم ہونا ہر مسلمان کے لئے ایک آشکار چیز ہے، غدیر خم کے اس بیابان میں جہاں کی حالت کی سختی اور دشواری کے بارے میں تاریخی معتبر کتابوں میں یہ باتیں نقل ہوئی ہیں کہ وہاں گرمی کی حدت و شدت بہت زیادہ تهی، لوگ گرمی کی جلن سے اپنے کو بچانے کے لئے اپنی اپنی چادر کا ایک حصہ سر پر رکهتے تهے اور دوسرا حصہ پاؤں کے نیچے بچهانے پر مجبور تهے اور وہاں پالان شتر سے انوکها ممبر تیار کیا۔ اتنی سختیاں برداشت کرکے لوگ بیٹھے اور پیغمبر (ص) ممبر پر تشریف لے جا کر لوگوں سے ایک ایسی بات کریں، جو بدیهیات میں سے ہے، سب کو جس کا بخوبی علم ہے، معقول نہیں۔ یہ سارے قرینے خود پکار پکار کر یہ کہہ رہے ہیں کہ حدیث غدیر میں کلمہ مولٰی کے معنی محبت و مودت نہیں بلکہ اولی بالتصرف ہے۔

قرینہ مقالیہ: لفظی قرینے تو بہت زیادہ ہیں، بعض اسلامی محققین نے 70 تک لفظی قرآئن کی تعداد بتائی ہے، جن میں سے کچھ قرینے یہ ہیں:
پہلا قرینہ مقالیہ: حدیث غدیر کا ابتدائی حصہ یا اس معنی کے قریب معنی کے حامل الفاظ پہلا قرینہ ہے، چونکہ حدیث غدیر کا آخری حصہ پہلے والے حصے پر متفرع ہے، یعنی جملہ من کنت مولاہ فهذا علی مولاہ حدیث کا پہلا حصہ یعنی الست اولی بکم من انفسکم پر متفرع ہے، ظاہر ہے اب حدیث کے ابتدائی حصے میں کلمہ مولی کا جو معنی ہوگا، وہی معنی حدیث کے بعد والے حصے میں بهی کلمہ مولی کا ہوگا۔
دوسرا قرینہ: یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کو آئندہ نزدیک میں اپنی رحلت کی خبر سے آگاہ کرتے ہیں، یہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ پیغمبر (ص بہت جلد امت کے درمیان سے چلے جائیں گے، جن کے بعد امت میں ایک وحشتناک خلا پیدا ہوگا، پیغمبر اکرم (ص) روز غدیر علی ابن ابی طالب(ع) کو ولایت و جانشینی کے مقام پر منصوب کرکے اپنے بعد پیدا ہونے والے اس خلا کا جبران کرنا چاہتے تهے، نہ یہ بتانا مقصود تها کہ اے لوگو یہ سن لو کہ علی (ع) تمہارے دوست ہیں۔ ان کے علاوہ اور بہت سارے قرینے ہیں، جنہیں علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں ذکر کیا ہے۔

اصحاب نبی نے حدیث غدیر کے اصل معنی سےکیوں روگردانی کی؟
نص حدیث غدیر اور اس جیسی دوسری احادیث سے روگردانی کرنے والوں کا قوی ترین بہانہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد خلیفہ معین کرنے کے لئے کیوں حدیث غدیر وغیرہ کو معیار و میزان قرار نہ دیا۔ یہ کہنا ہرگز معقول و منطقی نہیں کہ صحابہ کرام اور ساری امت مسلمہ نے غدیر کے اس جمع غفیر میں پیغمبر اکرم (ص) نے جو چیز لوگوں تک پہنچائی ہیں، کے رد پر اجماع و اتفاق کریں۔
جواب: ہر وہ شخص جو صحابہ کی زندگی کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے، اس پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں خصوصاً سیاسی زندگی کے بہت سارے موارد میں پیغمبر اکرم (ص) کی مخالفت کی ہے، کوئی بعید نہیں کہ حدیث غدیر اور اس جیسی دوسری احادیث پر اصحاب کا عمل نہ کرنا بهی ان موارد میں سے ہو، جن موارد میں کچھ یہ ہیں:
1۔ (رزیہ یوم خمیس) یعنی مصیبت روز جمعرات، جب پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی رحلت کے دن اصحاب سے فرمایا: مجهے قلم اور دوات لا دو، میں ایک ایسی چیز لکه دوں گا، جس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے، مگر اصحاب نے پیغمبر(ص) کے حکم کی اطاعت کرنے کے بجائے مخالفت کی۔ اسے بخاری و مسلم وغیرہ نے نقل کیا ہے۔
2۔ (سریہ اسامہ) پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی اواخر عمر میں اسامہ بن زید کی قیادت میں رومیوں سے لڑنے کے لئے ایک لشکر ترتیب دیا اور سارے اصحاب کو بغیر کسی عذر کے اس لشکر میں حاضر ہونے کی تاکید فرمائی، یہاں پر بهی ہم دیکهتے ہیں کہ کچھ اصحاب نے لشکر اسامہ میں حاضر ہونے سے خودداری کی۔
3۔ (صلح حدیبیہ) یعنی پیمان صلح حدیبہ پر جو دستخط پیغمبر اکرم (ص نے کئے تھے، کچھ صحابہ نے اس پر بهی اعتراض کیا۔
خبر کا کوڈ : 667821
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش