1
1
Friday 29 Sep 2017 00:31

میں ابھی لشکر یزید میں ہوں

میں ابھی لشکر یزید میں ہوں
تحریر: سجاد مستوئی

بھوک بڑی ظالم چیز ہے، بھوکے انسان کو پیٹ کے سوا سب کچھ بھول جاتا ہے، البتہ پیٹ کی بھوک تو خشک روٹی کے ایک ٹکڑے سے بھی ختم ہو جاتی ہے، لیکن عقل کی بھوک یعنی ہوس ایسے نہیں مٹتی۔ جن کی عقل بھوکی ہو، وہ مرغ مسلم کھا کر بھی بھوکے رہتے ہیں، ہوس میں مبتلا لوگ کبھی سیر نہیں ہوتے۔ ان کے سامنے کچھ حرام و حلال یا حق و باطل نہیں ہوتا، وہ صرف دولت سمیٹنے کے چکر میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اگر ان کی دنیا خطرے میں پڑے تو ان کے چہروں کے رنگ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ انہی لوگوں میں سے کوفے والے بھی تھے، جب کوفیوں نے یہ سوچا کہ حکومت ملے گی تو انہیں بھی مال و دولت ہاتھ آئے گا، چنانچہ انہوں نے حضرت مسلم ؑ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور جب انہوں نے دیکھا کہ یہاں مال و دولت ملنے کے بجائے جان جانے کا خطرہ ہے تو حضرت مسلمؑ کو تنہا چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں میں دبک گئے۔ انہوں نے جب شام سے لشکر کے آنے کی جھوٹی خبر سنی اور اپنی تنخواہ کو بیت المال سے کاٹے جانے کی دھمکی سنی تو ان کے چہروں کے رنگ تبدیل ہوگئے اور انہوں نے اپنے تیروں کے رخ ابن زیاد سے موڑ کر امام حسین (ع) کی طرف کر لئے۔

دنیا داروں کی حقیقت یہی ہے کہ جو امام حسین (ع) نے اپنی ایک حدیث میں بیان فرمائی ہے کہ لوگ دنیا کے اسیر ہیں اور دین صرف ان کی زبان کا لقلقہ ہے(لقلقہ زبان کے اوپر لگے ہوئے پانی کو کہتے ہیں، جو تھوڑی سی ہوا سے خشک ہو جاتا ہے)لوگ اس وقت تک دین کی اطاعت کرتے ہیں، جب تک ان کی معیشت چلتی ہے، لیکن جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو دیندار کم رہ جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب عمر ابن سعد چار ہزار فوجیوں کے ہمراہ کربلا پہنچا تو عروہ بن قیس سے کہا کہ حسین (ع) کے پاس جاو اور ان سے پوچھو کہ وہ کس لئے اس سرزمین پر آئے ہیں!؟ عروہ اس ماموریت پر راضی نہیں تھا، یعنی وہ امام حسین (ع) کے پاس نہیں جانا چاہتا تھا، کیونکہ اس نے امام کو کوفے میں آنے کیلئے خط لکھا ہوا تھا۔ اب وہ امامؑ کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ عروہ بن قیس کے پیٹ میں بھوک نہیں تھی، اس کے دماغ میں بھوک تھی۔ وہ بھوکا تھا، اقتدار، انعام اور منصب کا۔

لیکن دوسری طرف بریر بن خضیر ھمدانی تھے، جو اپنے وقت کے زاھد، عابد، قاری اور مفسر قرآن تھے اور اپنے وقت کے بہترین جنگجو تھے۔ جب وہ میدان کربلا میں پہنچے تو انہوں نے کوفیوں کو مخاطب کرکے کہا:اے اہل کوفہ وائے ہو تم پر! آیا وہ خطوط جو تم نے لکھے تھے، وہ عھد و پیمان جو تم نے باندھے تھے، ان سب کو بھول گئے ہو۔؟ وائے ہو تم پر۔ آیا اہل بیت پیامبر کو دعوت نہیں دی تھی، اپنی طرف نہیں بلایا تھا! آیا ان پر جان نثار کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔؟ لیکن جب اہل بیت ؑ نے تمہاری طرف رخ کیا تو ان کو ابن زیاد کے حوالے کر دیا اور اب (پردیس میں) ان پر پانی بھی بند کر دیا ہے۔ فرزندان پیامبر کے ساتھ اتنا برا سلوک کیوں کر رہے ہو، تم کو کیا ہوگیا ہے۔ خدا تم کو قیامت کے دن پیاسا رکھے، تم بدترین امت ہو۔

اس کے جواب میں کوفیوں نے کہا کہ: اے فلاں! تم کیا کہہ رہے ہو، ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ ہاں کوفی سچ کہہ رہے تھے! انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، جب انسان کی عقل پر دنیا کا لالچ سوار ہو جائے تو  پھر اسے کچھ سمجھ نہیں آتا۔ آج ہمیں بھی جب حسینؑ اور یزید، حق اور باطل، حرام اور حلال کا فرق سمجھ میں نہ آئے تو ایک مرتبہ اپنی عقل کو ہاتھ مارنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ کس چیز کی ہوس نے ہمیں اہل کوفہ کی طرح اندھا، بہرہ اور گونگا کر دیا ہے، جو آج ابھی حق کو حق سمجھتے ہوئے حق کی حمایت نہیں کرتا اور باطل کو باطل سمجھتے ہوئے باطل کی مخالفت نہیں کرتا، اسے یقین کر لینا چاہیے کہ میں ابھی لشکر یزید میں ہوں۔
خبر کا کوڈ : 672815
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
بہت خوب
ہماری پیشکش