0
Friday 20 Oct 2017 23:42

پاکستان کی بقاء کیلئے دشمن شناسی کی ضرورت

پاکستان کی بقاء کیلئے دشمن شناسی کی ضرورت
تحریر: سرادر تنویر حیدر بلوچ

امریکہ کی قائم مقام ہوم لینڈ سیکرٹری ایلائن ڈیوک نے لندن میں امریکی سفارتخانے میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیمیں نائن الیون جیسے حملے کی پلاننگ کر رہی ہیں۔ واضح اطلاعات ہیں کہ دہشتگرد تنظیمیں طیارہ گرانا چاہتی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کو سوشل میڈیا فورمز پر انتہا پسندوں کا پروپیگنڈا ہٹانے پر زور دینا چاہئے۔ دوسری طرف سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس میں دہشت گردی سے نمٹنے کے بہترین طریقوں اور اس حوالے سے تزویراتی حکمت عملی اپنانے پر غور کیا گیا، یہ دوسری عالمی کانفرنس سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی زیرصدارت منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں شرکاء نے دہشت گردی سے چھٹکارا پانے، اس سے نمٹنے کے جدید سائنسی طریقوں اور سفارشات، دہشت گردی کے خلاف قائم عالمی اتحاد کی صلاحیت اور اس کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ کانفرنس کے شرکاء نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کو جدید خطوط پر فروغ دینے اور جنگی وسائل کا استعمال کرنے پر بھی روشنی ڈالی۔ کانفرنس سے خطاب میں شاہ سعود نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کمانڈ اینڈ کنٹرول سٹڈی سینٹر کے قیام کا اعلان کیا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ریاض میں ہونے والی کانفرنس میں امریکی صدر ٹرمپ نے مسلم عرب ممالک کو دہشت گردی کیخلاف خطبہ دیا تھا۔ حالانکہ امریکہ کا مشرق وسطٰی اور افغانستان سمیت تمام مسلمان ممالک میں قبضے جمانے کا مقصد ہی خظے کی ریاستوں کو خطرات سے دوچار رکھنا ہے، سوائے فساد اور بدامنی کے انکا کوئی مقصد نہیں۔ جیسا کہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے کہا ہے کہ بھارت امریکہ کو پاکستان پر گہری نظر رکھنے اور ملک کو دہشتگردوں کے لئے محفوظ پناہ گاہ ہونے کے حوالے سے بھرپور معاونت فراہم کرسکتا ہے، امریکہ کا افغانستان اور جنوبی ایشیا میں مفاد دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ ہے، جو کہ امریکی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ انہوں نے ایک بار پھر امریکہ کی طرف سے پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جوہری ہتھیار بھی دہشتگردوں کے ہاتھ نہ لگنے کے خواہاں ہیں۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ اور پاکستان کے درمیان حالات معمول پر لانے کی بات کی جا رہی ہے اور دوسری طرف امریکی اپنا موقف دہرا رہے ہیں کہ ہم اہداف کے حصول کے لئے اپنی قومی طاقت کے تمام اقتصادی سفارتی اور عسکری عناصر کا بھرپور استعمال کرینگے۔ جیسا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے دفاع کے حوالے سے سخت پالیسی اپنائی ہے۔

ساتھ ہی یہ کہا جا رہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا زبردست اتحادی ہے اور ہم اسکی قدر کرتے ہیں، تاہم دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے پاکستان کیساتھ کوئی نرمی نہیں برتیں گے۔ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ محفوظ افغانستان کے لئے بھارت کے مدد درکار ہے، کیونکہ امریکیوں کی نگاہ میں بلوچستان اور فاٹا میں تباہی مچانے والا نئی دہلی نہ صرف کابل کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، بلکہ بھارت امریکہ کو پاکستان پر گہری نظر رکھنے اور دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے میں بھی بھرپور معاونت فراہم کرسکتا ہے۔ امریکی اب اس نتیجے پہ پہنچ چکے ہیں کہ مضبوط پاکستان ان کے مفادات کی راہ میں رکاوٹ ہوسکتا ہے اور اس وقت پاکستان کا چین کی طرف جھکاؤ امریکہ کیلئے ناقابل برادشت ہے، اسی لئے امریکی حکام کی جانب سے یہ راگ الاپا جا رہا ہے کہ ایک خوشحال اور مستحکم افغانستان کے لئے بھی دہشتگردی کے انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ کرنا ضروری ہے اور اب بھارت کے تعاون سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ بھارت اور امریکہ اس حوالے سے ایک پیج پر ہیں کہ دہشت گردی کے اسٹرکچر سے مراد حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، جیش محمد اور چند دوسرے گروپ ہیں۔ داعش اور کالعدم تحریک طالبان کا کہیں نام نہیں، جو کہ پاکستان سکیورٹی فورسز اور شہریوں کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں، نہ ہی مسلح بلوچ باغیوں کو دہشت گرد شمار کیا جاتا ہے۔

روس کے دورے سے واپس آنے کے بعد شاہ سلمان اب بھی امریکہ کے حلیف ہیں، اب انہوں نے صہیونی اور امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے مسلمان ممالک کے ساتھ ساتھ روس اور چین جیسی طاقتوں اور امریکہ کے درمیان بھی دلالی شروع کر دی ہے۔ اسی طرح بھارت بھی ٹرمپ کی پالیسی کے عین مطابق چین اور پاکستان کیخلاف کمر بستہ ہے۔ تیسری عنصر داعش یعنی تکفیری دہشت گرد ہیں، جو امریکہ، اسرائیل، انڈیا اور سعودی عرب سے براہ راست وابستہ ہیں۔ بھارت، پاکستان اور چین سے بیک وقت جنگ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے، ایسی چومکھی لڑائی جس میں بری، بحری اور فضائی، تینوں افواج بروئے کار آئیں گی۔ یہ بھارت کا نیا جارحانہ فلسفۂ جنگ ہے، جس کا واشگاف اعلان بھارتی یوم فضائیہ کے موقع پر ائیرچیف مارشل بی ایس دھنوآ نے کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ بھارتی فضائیہ پاکستان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکتی ہے اور پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیکس کرنے میں فوج کی مدد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ بھی کہ مختصر نوٹس پر پوری قوت اور ہم آہنگی کے ساتھ بھارتی فضائیہ لڑائی کے لئے ہمہ وقت تیار ہے، چین اور پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مشرقی سرحد پر چین سے آنے والے خطرات سے نمٹنے کے لئے مؤثر قوت موجود ہے۔ حالانکہ پاکستان اور چین کے کوئی جارحانہ عزائم نہیں، البتہ پاکستان میں کشمیریوں کی حمایت ابھی باقی ہے، لیکن یہ سب امریکہ کی شہہ پہ ہو رہا ہے کہ افغانستان میں قدم جمائے رکھنے کیلئے پاکستان پر دباؤ برقرار رکھا جائے۔

پاکستان کے پاس سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ عراق اور شام میں اسرائیل، امریکہ اور سعودی عرب کی سرپرستی کے باوجود جنرل قاسم سلیمانی اور عوامی رضاکار فورسز نے جس طرح داعش کا خاتمہ کیا ہے، اس تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے۔ جب تک ہم دشمن کی شناخت میں غلطی پہ رہیں گے، ہماری مشکلات حل نہیں ہوسکتی ہیں۔ شروع دن سے ہم اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ پاکستان کی بقاء، استحکام اور ترقی کا راز اس میں چھپا ہے کہ پاکستان انڈیا کی نسبت امریکہ کے قریب رہے۔ آنکھیں کھولنے اور عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے دنیا میں فساد اور بحران کی جڑ امریکہ ہے، چاہے وہ علاقائی مسائل ہوں، داخلی بحران ہو یا عالمی بساط پہ دگرگوں صورتحال، یہ سب امریکی مفادات کے گر گھومتی ہے، جس اپنا وزن امریکہ کے پلڑے میں ڈالے گا، وہ ملک کبھی نجات کی راہ نہیں پا سکے گا۔ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کے خاتمے اور بلوچستان میں کنٹرول مکمل کرنے کیلئے مسلح افواج کے سپاہی جانیں دے رہے ہیں، بارڈر مینجمنٹ کی جا رہی ہے، لیکن دہشت گردی اور بحران کا سرچشمہ تو امریکہ اور اس کے حواری ہیں، جب تک ان سے کنارہ کشی نہیں کرینگے، نہ حقیقت کو دیکھنے والی آنکھ پا سکتے ہیں، نہ خطے اور دنیا میں اپنے دوست اور دشمن کی پہچان ممکن ہے، راہ حل کیسے سمجھتے سکتے ہیں۔

یہ تو امریکہ کی لگائی ہوئی آگ پہ تیل ڈالتے جائیں گے، یہ آگ اور بھڑکے گی، کم نہیں ہوگی، جیسا کہ دہشت گردی کیخلاف زبردست آپریشن کیا گیا، لیکن امریکہ سے ناطہ برقرار رہا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا، ٹی ٹی پی کا مقابلہ ابھی جاری تھا کہ داعش نے زور پکڑا شروع کر دیا، سی پیک ابھی تکمیل کے مراحل میں انڈیا دھکمیوں پہ اتر آیا ہے۔ اب ہر صاحب بصارت و بصیرت کیلئے کھلی مثال اور حقائق روشن ہیں کہ کس طرح شام اور عراق میں حزب اللہ، حشد الشعبی اور پوری دنیا سے جمع ہونے والے حسینیؑ رضاکاروں نے دشمن کے دانت توڑے اور انہیں شکست کا مزہ چکھایا، پاکستان تو ایٹمی طاقت ہے، مضبوط فوجی قوت اور چین جیسے دوست رکھتا ہے، کمی کہاں ہے، ہماری سوائے اس کے کوئی کمزوری نہیں کہ ہم حقیقی دشمن کو پہچاننے اور اس کے مقابل استقامت دکھانے سے عاری ہیں۔ اسی لئے قربانیوں کے باوجود ہماری ذلت اور پے در پے بحران ہمارا مقدر ہیں، جب دشمن کو نہیں پہچانتے تو الٹا دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا میں پاکستان کیلئے ننگ و عار کا باعث بننے والوں کی مین اسٹریمنگ کی بات کی جاتی ہے، تاکہ انکے عرب سرپرست، جو خود اسرائیل اور امریکہ کے وفادار ہیں، وہ خوش رہیں۔

لیکن شام اور عراق میں مفسد فی الارض دہشت گرد گروہوں کو شکست دینے والوں کی حمایت میں جو سچے اور محب الوطن شہری آواز اٹھائیں، انہیں لاپتہ کر دیا جاتا ہے، دشمن کی شناخت نہ ہونے کا مطلب، ظلم پہ قائم نظام کی حمایت جیسی غلطی ہے، جو ریاست، خطے اور بالآخر دنیا میں شفاف کردار سے مانع رہیگی، یہ مشکل آسانی سے حل ہونے والی نہیں، اس کی دلیل پاکستان کی عدالتوں میں کرپشن کیسز اور جرنیلوں کیخلاف کھربوں کے غبن کی خبریں ہیں۔ روایات میں ہے ائمہ معصومینؑ، شیعہ جن کے پیروکار ہیں، دنیا کے خبیث ترین افراد کے مظالم کا شکار رہے ہیں، لیکن ان کے پائے استقامت میں تزلزل نہیں آیا، یہ روایت کسی نہ کسی طرح جاری ہے، آج ان اصولوں پہ مبنی ایک ںظام قائم ہوچکا ہے، اس نظام کی اساس امامت و ولایت ہے، ولایت و امامت کا نظام عدل پہ مبنی ہے، جہاں ظلم ستیزی ایک اصل ہے اور دشمن شناسی دوسری۔ یہ اصول اس نظام اور اسکے پیروکاروں کی طاقت ہیں، اسی لئے انکا اعلان عام ہے کہ کسی ملک میں مداخلت نہیں کرینگے لیکن جہاں ظلم ہوگا وہاں پہنچیں گے۔

دوسری طرف بربریت کا بازار گرم کرنے والی عالمی طاقتیں ہیں، جنہیں علاقائی دوستوں کا ساتھ حاصل ہے، شام اور عراق کے مظلومین کی آواز پہ لبیک کہنے والے کسی دوسرے ملک نہیں گئے، کہ وہ سعودی عرب جا گھسے ہوں، بلکہ وہ کائنات کی مقدس ترین ہستیوں کے مزارات کی حفاظت کے لئے گئے، جو خطرات کی زد میں ہیں، انکا حق یہ ہے کہ ان غازیوں کو پھولوں کے ہار پہنائے جائیں اور شہیدوں کے عالی شان مزار بنائے جائیں، لیکن اس جرم میں طوق و رسن، زندان، عقوبت خانے اور قید و بند بھی ان کے لئے عار نہیں، نہ انکے والدین اور عزاء و اقرباء کے حوصلے توڑ سکتے ہیں۔ کوئی بھی شیعہ جو علی ولی اللہ پڑھتا ہے، اس سے بڑھ کر اسلام اور وطن کا کوئی وفادار نہیں، جہاں بھارت پاکستان کا دشمن ہے، وہیں امریکہ پوری امت مسلمہ کا دشمن ہے، وہیں سعودی عرب ساری اسلامی دنیا میں فساد کی جڑ ہے۔ حقائق تو یہ ہیں، لیکن فقط یہی نہیں، کیونکہ امام سجاد علیہ السلام فرما گئے ہیں کہ اگر قرآن ہماری دشمنی کا حکم دیتا تب بھی لوگ ہمارے اوپر اتنا ظلم نہ کرتے، جتنا ہماری محبت کو واجب کر دینے پر کیا گیا۔

اہلبیت علہیم السلام کی محبت، مودت اور عشق نہ صرف خدا کی راہ میں نکلنے کا جذبہ اور استقامت دیتا ہے بلکہ حق و باطل کی دقیق پہچان بھی دیتا ہے، انسانیت، اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کا کوئی دشمن ہے تو وہ امریکہ، یہ ہمارے مذہب کے اصولوں کی طرح اٹل ہے، یہی پاکستان کی نجات اور کامیابی راستہ۔ جو بھی یہ سمجھے کہ نظام ولایت کے حامی اور عاشقان امام حسین علیہ السلام کی وطن سے وفاداری میں شک ہے، وہ امریکی آنکھ اور تکفیری دل و دماغ رکھتا ہے، ایسی سوچ ہی ملک کے لئے زہر قاتل ہے، اس بنیاد پہ جو ہاتھ بھی ظالموں کی مدد کیلئے اٹھے گا، اللہ کے قہر و غضب کا شکار ہوگا۔ وہ دن دور نہیں حیدؑرِ کرار کے حقیقی فرزند، صہیونیت اور تکفیریت کا خیبر فتح کرینگے، پوری دنیا سے سختیاں برداشت کرکے، ظلم کیخلاف نکلنے والے ان کے پیروکار کعبہ میں، اپنے امامؑ کی اقتداء میں نماز ادا کرینگے۔ ان شاء اللہ، پاکستان اسلام کا قلعہ ہے، علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر ہے، وطن عزیز کا کردار اہم بھی اور مسلمہ بھی۔
خبر کا کوڈ : 678009
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش