0
Friday 10 Nov 2017 16:07

امریکہ، روس کی منصوبہ بندی اور امت مسلمہ

امریکہ، روس کی منصوبہ بندی اور امت مسلمہ
تحریر: تصور حسین شہزاد

مسلمانوں کی حالت زار یہ ہے کہ گروہ در گروہ تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں اور دشمن ہیں کہ متحد ہو رہے ہیں۔ اندر کھاتے ایک اور بظاہر جدا جدا دکھائی دینے والے دشمنان اسلام کا ہدف ایک ہے کہ اسلام کو نقصان پہنچاؤ، خواہ دوست بن کر یا دشمن بن کر۔ اب امریکہ کی جانب سے داعش کی سرپرستی کا معاملہ ہو یا روس کی مسلم ممالک کیساتھ دوستی دونوں کا ہدف اسلام کو نقصان پہنچانا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ امریکی فورسز افغانستان میں داعش کو اسلحہ اور تربیت دے رہی ہیں۔ ایک ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ امریکی اڈوں سے غیر فوجی ہیلی کاپٹرز داعش کے ٹھکانوں تک ساز و سامان پہنچاتے ہیں۔ القاعدہ اور طالبان بلاشبہ پہلے سے یہاں موجود تھے، تاہم داعش کا وجود افغانستان میں امریکی خفیہ اداروں کی "شفقت" کا نتیجہ ہے۔ امریکہ یہاں امن و استحکام لانے کیلئے آیا تھا، لیکن امریکی فوج اور خفیہ اداروں کی موجودگی افغانستان میں شدت پسندی بڑھانے کا وسیلہ بن گئی۔ اس سے قبل روسی صدر پیوٹن بھی یہ الزام عائد کرچکے ہیں کہ عراق و شام کے بیشتر علاقوں میں داعش کے مضبوط ٹھکانے امریکی فورسز کے تحفظ میں ہیں، جنہیں روسی فضائیہ نشانہ نہیں بنا سکتی۔ اس صورتحال میں مبصرین کہتے ہیں کہ امریکہ شام کے جنوبی علاقوں میں داعش کی سنی ریاست بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ مشرقی عراق کے ایرانی بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں کرد ریاست کے قیام کا منصوبہ بھی عراق کو نسلی اور مسلکی بنیادوں پر منقسم کرنے کی سازش ہے۔ دمشق اور کیپرئیو کے علاقوں میں ایسی ریاست بنانے کی کوشش کی جائے گی، جو سنی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان حائل رہے۔

اگر ایسا ہوگیا تو سعودی عرب اور ایران کے جغرافیہ کو مربوط رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانستان میں داعش کی افزائش بھی جنوبی ایشاء میں جغرافیائی تبدیلیوں کی محرک بن سکتی ہے؟ امریکی منصوبہ یہ ہے کہ امریکہ داعش سمیت دیگر انتہا پسند گروپوں کے ذریعے پاک افغان بارڈر پر نسلی تعصبات سے لبریز مذہبی ریاست بنا کر اس خطہ کے جغرافیہ کو بدلنے کی کوشش کرے گا۔ فاٹا میں اصلاحات کے نفاذ کیلئے امریکی انتظامیہ کی غیر معمولی دلچسپی اس گریٹ گیم کو اسباب مہیا کرنے کی ابتداء ہوسکتی ہے، لیکن جبری تقسیم کی یہ لہریں بالآخر بھارت سمیت خطہ کے دیگر ممالک کی جغرافیائی وحدت کو بھی منتشر کر دیں گی۔ اس کیلئے بلوچستان بھی امریکہ کی پسندیدہ جگہ ہے۔ یہی وجہ ہے برطانیہ سمیت مغربی ممالک میں فری بلوچستان موومنٹ چلائی جا رہی ہے اور وہاں آزاد بلوچستان کے فلیکسز آویزاں کرکے پیغام دیا جا رہا ہے کہ دشمن کا منصوبہ کیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 20 ویں صدی کے دوسرے عشرہ سے ہی روس اور امریکہ نے دنیا کے مادی وسائل پر یکساں تصرف اور عالمی معاملات پر حتمی اجارہ داری کی خاطر سرد جنگ کے پردوں تلے تاجرانہ لین دین کا بازار گرم رکھا ہے۔

رواں صدی میں لڑی جانیوالی 2 عالمی جنگیں بھی دراصل اس کرہِ ارض کے وسائل اور اقوام کو کئی حصوں میں تقسیم کرنے کی سکیم کا ذریعہ تھیں۔ 1960ء کی دہائی میں جب وسط مشرقی ممالک عرب قوم پرستی اور سوشل ازم کے نظریات سے متاثر ہو کر روسی بلاک جوائن کر رہے تھے، اسی دور میں سوویت یونین مصر میں دنیا کے دوسرے بڑے اسوان ڈیم کی تعمیر کے ذریعے شرق الاوسط میں اپنے پاؤں مضبوط کرنے میں مشغول تھا۔ اسی اثناء میں روسی قیادت نے اسرائیلی اثر و رسوخ کے ذریعے امریکہ سے خفیہ ڈیل کرکے مشرقی یورپ پر روسی تسلط کو خاموشی سے تسلیم کرنے کے عوض عرب ممالک سے دستبرداری قبول کرلی۔ چنانچہ کیمونسٹ روسی قیادت، مصر، شام، لیبیا اور عراق جیسی سوشلسٹ حکومتوں کو امریکی استعمار کے حوالے کرتے ہوئے اسوان ڈیم کا تعمیراتی کام ادھورا چھوڑ کر اچانک واپس پلٹ گئی۔ بعد ازاں امریکہ نے اسوان ڈیم کی تعمیر کا باقی ماندہ کام مکمل کیا اور اسی عہد میں امریکی ایجنسیوں نے بلاد عرب میں شدت پسند مذہبی تحریکوں کی آبیاری کرکے امت مسلمہ کو داخلی انتشار کی آگ میں دھکیل دیا۔ 80ء کی دہائی میں سوویت زوال پذیر ہوا تو مشرقی یورپ کے چھوٹے ممالک کیمونزم کی آہنی دیواریں توڑ کر ایک بار پھر روشن یورپ سے ہم آغوش ہوئے۔

بیسویں صدی کے آخری عشرے میں روس بدترین معاشی بحرانوں کا شکار رہا، لیکن اکیسویں صدی کے آغاز پر نائن الیون کے بعد امریکہ کے افغانستان اور عراق کی جنگوں میں الجھ جانے کے باعث روس اور چین کو تیزی سے معاشی ترقی پانے کے مواقع ملےٟ یا دانستہ فراہم کئے گئے تو دونوں ممالک نے غیر روائتی اتحاد کے ذریعے مشرق و مغرب کی جغرافیائی حدود تک اپنے معاشی و سیاسی اثرات کو وسعت دیکر ایک بار پھر خود کو کرہ ارض کے معاملات کا اسٹیک ہولڈر اور اقوام عالم کے وسائل پر یکساں تصرف کے قابل بنا لیا۔ جب شام میں امریکی انتظامیہ نے بشار الاسد حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں سنی ریاست کے قیام کی کوششوں کا آغاز کیا تو روس نے فوجی مداخلت کرکے اس منصوبہ کی راہ روک لی نتیجتاً تاریخ میں پہلی بار ایرانی حکمت عملی اور روسی رکاوٹ کے باعث امریکی حکومت کو شام پر مکمل جنگ مسلط کرنے کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ روسی مداخلت نے شام میں امریکی عزائم کی راہ روک لی، لیکن اگر ماضی و حال کے معاملات کو جوڑ کے دیکھا جائے تو روس کی تازہ مزاحمت بھی ماضی کی اسی منافع بخش سکیم کا عکس نظر آتی ہے، جس کے تحت 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں ایک غیر مرئی بندوبست کے تحت دنیا بھر کے اقوام اور وسائل امریکہ اور روس کے درمیان منقسم رہے۔ حال ہی میں سعودی عرب کے امریکہ سے 4 ارب ڈالرز اور روس سے 3 ارب ڈالرز کا اسلحہ خریدنے کے معاہدے اس امرکی تصدیق کرتے ہیں کہ کمزور اقوام کے وسائل پر تصرف پانے کیلئے امریکہ اور روس کے درمیان اب بھی کوئی نادیدہ گٹھ جوڑ موجود ہے۔

مشرقِ وسطٰی کے موجودہ و آئندہ حالات و واقعات میں امریکہ کیساتھ روسی رائے بھی شامل ہوگی اور دونوں ملکوں کے درمیان طے شدہ معاملات کو ایک مشتبہ مگر منضبط کشمکش کے ذریعے روبہ عمل لا کر مقہور اقوام کا استحصال کیا جائے گا۔ بلاشبہ مقدس آمریتیں ہمیشہ استعماری تشدد کو سرمایہ فراہم کرکے سیاسی عدم استحکام کا سبب بنتی ہیں۔ جدید رموز حکمرانی کی مہارت کی حامل روس و امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں پر مشتمل عالمی اسٹیبلشمنٹ حالات کے دھارے کو اپنی مرضی کے مطابق گردش کناں رکھنے کی خاطر مل کر کانفلکٹ منیجمنٹ کرتی ہیں، تاہم انہی سودا بازیوں کے پہلو بہ پہلو وہ ایک دوسرے پر خفیہ حملے اور بعض اوقات ایک دوسرے کو سنگین نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ ابھی حال ہی میں شام کے شہر دارالعزر میں داعش کے مبینہ حملوں کے دوران روسی جنرل ویلرے کی ہلاکت اسی خفیہ کشمکش کا شاخسانہ تھی۔ اگرچہ ایسی ہی جدلیات اجتماعی حیات کی جزیات تک برپا رہتی ہے، لیکن وسیع تر مصالح اور عظیم ترین مقاصد کے دائروں میں خاص قسم کی ہم آہنگی دونوں ممالک کی بقائے باہمی کیلئے لازم ہوتی ہے۔ روس اور مریکہ اگر ایک دوسرے کیخلاف عملاً برسرِجنگ رہتے تو دنیا آزاد ہو جاتی۔ جیسے ہٹلر نے جنگ عظیم دوم چھیڑ کر مشرق و مغرب پر مسلط برطانوی استعمار کو اپنے 3 جزائر میں سمٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی تقسیم جنگ عظیم دوم کا فطری نتیجہ تھی، لیکن افسوس کہ یہ دونوں ممالک براہ راست لڑنے کی بجائے چھوٹے ممالک کو میدان جنگ بنا کر ان کے وسائل اور حاکمیت اعلٰی کو سلب کر لیتے ہیں اور دنیا کے جغرافیہ کو اپنی ضرورتوں کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔

اس وقت مشرقِ وسطٰی میں عراق، شام اور سعودی عرب کے وسائل پہ قبضہ اور خطہ کی جغرافیائی تقسیم کے ذریعے وہاں چھوٹی اور تابع فرمان شیعہ اور سنی ریاستیں بنانے کی سکیم پر امریکی اور روسی قیادت کے مابین سنجیدہ مشاورت جاری ہے۔ شاید پاکستان کو روس اور چین کی طرف دھکیلنے کی امریکی حکمت عملی بھی ایسی ہی کسی سکیم کا حصہ ہو۔ اگر افغانستان میں داعش کے ظہور کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ روس ایک بار پھر داعش کے خطرہ کو جواز بنا کر افغانستان میں فوجی مداخلت کے ذریعے جنوبی ایشیا میں وسائل اور جغرافیہ کی تقسیم کے دو طرفہ عمل کو نتیجہ خیز بنانے میں امریکہ کی مدد کرسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کی رپورٹس کو نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ اپنے ملکی مفاد کے پیش نظر مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ شیعہ اور سنی کو بالخصوص اس حوالے سے سوچنا چاہیے کہ ہر بار دشمن اسی ہتھیار کو ہی کیوں استعمال کرتا ہے اور ہر بار مسلمان اس سازش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس معاملے میں علماء پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شیعہ اور سنی دونوں طرف ایک ایسے کلچر کو فروغ دیں کہ دشمن شیعہ سنی کو باہمی نہ لڑا سکے۔ جب بھی ایسی کوئی سازش کی جائے دونوں طبقے فوراً اس کا ادراک کریں اور لڑنے کے بجائے دشمن کے منہ پر طمانچہ رسید کریں کہ ہم ایک ہی درخت کی 2 شاخیں ہیں۔ ایک ہی جسم کے دو بازو ہیں۔ جس دن امت نے ان سازشوں کا ادراک کر لیا، اسی دن اسلام دشمن اپنی موت آپ مر جائیں گے، بصورت دیگر وہ مسلمانوں کو ہی مارتے رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 681596
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش