1
Sunday 19 Nov 2017 11:18

تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجودگی اور امریکہ کا دوہرا معیار

تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجودگی اور امریکہ کا دوہرا معیار
تحریر: تصور حسین شہزاد

امریکہ کا دوہرا معیار اب کسی سے پوشیدہ نہیں، ہر دور میں امریکہ نے ڈبل گیم کھیلی ہے۔ افغانستان کا معاملہ ہو یا پاک بھارت تعلقات کی بات، امریکہ کی پالیسی روز اول سے مبہم رہی ہے۔ پاکستان کی مدد سے امریکہ نے افغان محاذ کیلئے طالبان تیار کئے۔ انہیں روس کیخلاف استعمال کیا اور پھر حسب روایت امریکہ نے ان "مجاہدین" کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا۔ بے یارو مدد گار طالبان نے اس سلوک کا بدلہ پاکستان سے دہشت گردی کے واقعات کرکے لیا۔ ظاہر ہے پاکستان ہی اس معاملہ میں استعمال ہوا تھا، امریکہ تو پشت پر تھا۔ اب وہی امریکہ جہاں طالبان کو دہشت گرد قرار دیتا نہیں تھکتا، وہ امریکہ افغانستان میں طالبان کو خفیہ طریقے سے سپورٹ بھی کر رہا ہے۔ افغانستان میں جہاں طالبان کے محفوظ ٹھکانے آج بھی موجود ہیں، وہاں امریکہ کی خصوصی آشیرباد سے داعش بھی عراق و شام سے جوتے کھا کر افغانستان پہنچ چکی ہے۔

پاکستان کی جانب سے مسلسل کہا جاتا رہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں، جہاں سے وہ پاکستان آکر دہشتگردی کرتے ہیں اور پھر واپس اپنی پناہ گاہوں میں جا چپھتے ہیں۔ افغان حکومت مسلسل اس سے انکار کرتی رہی، مگر اب افغانستان نے تسلیم کر لیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے افغانستان میں ٹھکانے ہیں۔ جب ٹھکانے تسلیم کر لئے گئے ہیں تو یہ بھی تسلیم کر لیا جانا چاہیے کہ انہیں ان ٹھکانوں میں مالی امداد افغانستان میں موجود امریکی فورسز کی جانب سے ملتی ہے۔ ایک بار نیٹو طیاروں کے ذریعے طالبان کے علاقے میں اسلحہ گرایا گیا۔ جب افغان حکام نے امریکہ سے احتجاج کیا تو جواب میں یہ کہہ دیا گیا کہ "اسلحہ کے باکس غلطی سے گرئے ہیں"
اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا

افغانستان کے چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ نے اعتراف کیا ہے کہ افغان سرزمین پر پاکستان تحریک طالبان موجود ہے۔ ایک انگریزی اخبار کے مطابق افغان چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ نے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے مدیران سے واشنگٹن میں ایک ملاقات کے دوران اعتراف کیا کہ پاکستانی طالبان افغانستان میں اْس عدم استحکام کی وجہ سے قدم جما سکے ہیں، جو افغان طالبان کی افغان ریاست کیخلاف جنگ کی وجہ سے پیدا ہوا۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ صورتِحال کو واضح طور پر دیکھے اور جنوبی ایشیاء میں دہشتگردی کو شکست دینے کیلئے کی جانیوالی بین الاقوامی کوششوں میں تعاون کرے۔ عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کیخلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران 80 کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ 1995ء میں اس نیٹ ورک نے طالبان کیساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ 2012ء میں امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشتگرد گروہ قرار دے دیا تھا۔

عبداللہ عبداللہ کا یہ بیان مثبت ہے، کیونکہ اس سے پہلے تو افغان حکام اعتراف ہی نہیں کرتے تھے۔ صدر اشرف غنی جب ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں آئے تو انہوں نے پہلی مرتبہ اس بات کا اعتراف کیا تھا اور اب عبداللہ عبداللہ کی طرف سے اس بات کا اعتراف خوش آئند ہے۔ اس اعتراف سے بات چیت اور تعاون کیلئے مزید گنجائش پیدا ہوگی۔ تاہم اس اعتراف کیساتھ پاکستان یہ بھی توقع کرے گا کہ کابل حکومت ان پاکستانی طالبان کیخلاف کوئی بڑا آپریشن کرے۔ حالیہ دنوں میں جو پاکستانی طالبان مارے گئے ہیں، وہ امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے، تو پاکستان کے خیال میں افغان حکومت کو بھی پاکستانی طالبان کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانا چاہیے اور کابل حکومت بھی یہی چاہے گی کہ اسلام آباد افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائیاں کرے۔ واضح رہے کابل انتظامیہ ایک طویل عرصے تک افغان سرزمین پر پاکستانی طالبان کی موجودگی سے انکار کرتی رہی ہے اور یہ بھی کبھی تسلیم نہیں کیا کہ طالبان افغانستان کی سرزمین کو پاکستان پر حملے کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلے کے علاوہ بھی پاکستان کے اور بھی کئی تحفظات ہیں۔

اسلام آباد کو اس پر اعتراض نہیں کہ بھارت کو وہاں کوئی تعمیری کردار ملے، لیکن پاکستان یہ نہیں چاہتا ہے کہ افغان فوجی بھارت میں تربیت لیں یا نئی دہلی کو کوئی سیاسی کردار دیا جائے۔ عبداللہ عبداللہ ماضی میں شمالی اتحاد کے اہم رہنما رہے ہیں۔ اس اتحاد سے اسلام آباد کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں، کیونکہ پاکستان افغان طالبان کی حمایت کرتا تھا اور شمالی اتحاد کو بھارت نواز سمجھتا تھا۔ دونوں ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انتہا پسند کسی کے دوست نہیں ہوتے۔ نہ صرف افغان حکومت کو ان پاکستانی طالبان کیخلاف کارروائیاں کرنی چاہیں بلکہ پاکستان کو بھی حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کیخلاف اقدامات کرنے چاہیں۔ پاکستان کے اس وقت بھارت، ایران اور افغانستان سے تعلقات خراب ہیں، جبکہ امریکہ بھی پاکستان سے خوش نہیں تو اسلام آباد کو دانشمندی کیساتھ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے تمام ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے چاہییں۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے حالیہ دورہ افغانستان کے بعد دونوں ممالک میں برف پگھل رہی ہے۔

حال ہی میں جماعت احرار کے دہشتگردوں کو افغانستان میں نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈ بھی جاری کرنے کا اعلان کیا ہے اور واشنگٹن نے جو پاکستان پر سخت پابندیاں لگانے کی بات کی تھی، اس کے حوالے سے بھی ان کا رویہ کچھ نرم ہو رہا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ خود بھی پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور افغان حکومت پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اسلام آباد سے معاملات بہتر کرے۔ اس سے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں آسانیاں پیدا نہیں ہوسکتیں، کیونکہ امریکہ کا معیار دوہرا ہے۔ وہ دوستی کی آڑ میں بھی دہشتگردی ہی کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پائیدار امن کے قیام کیلئے امریکہ سے تعلقات سمیت دہشتگردوں کی ہر قسم کو ختم کرنا ہوگا، جو پاکستان، ایران، ترکی اور چین کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔
خبر کا کوڈ : 684325
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش