0
Wednesday 27 Dec 2017 03:09

سانحہ ماڈل ٹاون، حکومت کیخلاف جڑتا ہوا گرینڈ اپوزیشن الائنس

سانحہ ماڈل ٹاون، حکومت کیخلاف جڑتا ہوا گرینڈ اپوزیشن الائنس
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ 

سانحہ ماڈل ٹاؤن کئی جہتوں سے اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور اچھوتا واقعہ ہے، جسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی. قانونی بیرئیر ہٹانے کے نام پر حکومت نے ماڈل ٹاؤن میں اتنا بڑا آپریشن کیا کہ اس میں ڈی آئی جی اپریشن، 7 ایس پی اور پولیس کی کئی سو افراد شامل تھے اس ریاستی دہشتگردی کو پاکستانی ہی نہیں بین الاقوامی میڈیا نے بھی 11 گھنٹوں تک براہ راست دکھایا، لیکن حکومت پھر بھی ڈھٹائی سے خون خرابہ کرتی رہی. اس دہشت گرانہ حملہ اور اس پر خاموشی کی صورت میں ریاستی اداروں کا کردار بھی باعث شرم ہے. تاریخ میں پہلی بار چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ اس ریاستی دہشتگردی میں خواتین اور بزرگوں کو بھی بد مست آمر نے نشانہ بنایا اور موت کی نیند سلا دیا. ایف ائی آر بھی مقتولین کے خلاف کاٹی گئی اور انہیں گرفتاری اور کیسوں کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان عوامی تحریک نے ایف آئی آر کے اندراج اور انصاف کے حصول کے لیے تاریخ ساز 70 دن کا دھرنا دیا. دھرنے سے روکنے کے لیے حکومت نے پورے پنجاب میں نیم کرفیو نافذ کردیا، کئی روز تک پاکستان عوامی تحریک کے سیکریڑیٹ کا محاصرہ کئے رکھا اور عوامی تحریک کے ہزاروں کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا اور بہت بڑی تعداد میں مقدمات قائم کئے گئے۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے جو ہاتھ لگا انہیں گرفتار کر لیا گیا جو ہاتھ نہ لگا انکے گھروں پر پولیس کا پہرہ لگا دیا گیا، کارکن فیملی سمیت یا تو ماڈل ٹاؤن آگئے یا رشتےداروں کے گھروں میں پناہ لے لی۔
 
کسی مہذب معاشرہ میں پہلی بار مقتولین کی ایف آئی آر آرمی چیف کی مداخلت سے درج ہوئی. پاکستان میں پہلی بار مقتولین نے حکومتی دباؤ اور پیسے کی آفر کو ٹھکرا دیا. انصاف کے حصول کےلیےکراچی تا کشمیر ہزار سے زائد مظاہرے اور احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ اس بین الاقوامی اہمیت کے حامل کیس میں عدالت نے خود سے کوئی کاروائی نہیں کی نہ ہی سو موٹو ایکشن لیا گیا اور نہ ہی حکومت وقت کی دہشتگردی کا شکار عوام کو انصاف کی صورت میں کوئی رلیف دیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے جسے پاکستان عوامی تحریک اور اسکے کارکنوں نے ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود زندہ رکھا ہوا ہے اور حکومت وقت اور اداروں پر پریشر ڈال رہی ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔ عوامی تحریک نے نہ صرف شہداء کے ورثا کا خیال رکھا بلکہ زخمیوں کا علاج کروایا اور انکی دادرسی بھی کی، وہ تمام مقدمات جو ورکرز کے خلاف بنائے گئے تھے وہ بھی لڑے اور کارکنوں کی ضمانت بھی کروائی وزیراعلی پنجاب کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے جسٹس باقر نجفی کمیشن بنایا جسکی رپورٹ پر تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا کیونکہ اس رپورٹ میں حکومت وقت اور پولیس کے اعلی افسران کو ملوث کرار دیا گیا تھا۔
 
حکومت نے قتل عام اور باقر نجفی کمیشن کے داغ کو دھونے کے لیے اپنے مرضی کی جے آئی ٹی تشکیل دی تاکہ اس سے کلین چٹ حاصل کی جائے۔اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان عوامی تحریک نے 15 مارچ 2016 کو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں استغاثہ دائر کیا جسمیں 56 زخمیوں اور چشم دید گواہوں نے بیانات قلمبند کئے یہ کاروائی کافی طویل تھی جسکے دوران پاکستان عوامی تحریک نے نہ صرف وکلاء کا انتظام کیا بلکہ گواہوں کی بروقت ہر پیشی پر عدالت میں موجودگی کو بھی یقینی بنایا جبکہ حکومت نے ہر دباؤ اور حربہ استعمال کیا تاکہ گواہان اور پاکستان عوامی تحریک کو حراسا کیا جائے۔7 فروری 2017 کو انسداد دہشتگردی عدالت نے 124 پولیس والوں کو طلب کیا لیکن وہ افراد جن کے حکم پر یہ کاروائی کی گئی تھی جس کی نشاندہی جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں بھی کی گئی طلب کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی، ان 124 پولیس والوں میں سے 105 ہی عدالت میں پیش ہوتے رہے جبکہ اعلی پولیس افسران جن کو حکومت نے ملک سے فرار یا بیرون ملک پوسٹ کردیا تھا مسلسل عدالت کی حکم عدولی کے مرتکب ہوتے رہے اس کے باوجود انکے خلاف کوئی کاروائی نہ کی گئی۔
 
پاکستان عوامی تحریک نے جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو انسداد دہشتگردی عدالت میں جاری استغاثہ کا حصہ بنانے کے لئے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 94 کے تحت درخواست دی جسے خارج کردیا گیا جس کے خلاف پاکستان عوامی تحریک نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا یہاں بھی مظلوموں کی دادرسی نہ ہوئی اور اب سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔ استغاثہ کیس کے علاوہ پاکستان عوامی تحریک نے دسمبر 2014 میں ایک درخواست کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی کہ باقر نجیف کمیشن کی رپورٹ کو شائع کروایا جائے، جہد مسلسل سے بینچ تشکیل دیا گیا اور دلائل سنے گئے لیکن فیصلہ آنے سے پہلے ہی بینچ کے سربراہ ریٹائر ہوگئے لگاتار کوششوں کے بائث دوسرا بینچ بنایا گیا جسکی آخری سماعت دسمبر 2014 میں ہوئی اور تاحال کوئی نئی تاریخ یا فیصلہ نہیں دیا جارہا. اس سال شہیدوں کے لواحقین کے ذریعے ایک اور رٹ فائل کی گئی سنگل بینچ کا فیصلہ عوامی تحریک کے حق میں آیا توحکومت نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا. عدالت نے تین رکنی فل بینچ تشکیل دیا جس نے حکومتی رٹ خارج کردی اور جسٹس باقر نجفی رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ سنا دیا. پاکستان عوامی تحریک نے حکومت پر پریشر برقرار رکھا اور حکومت کو رپورٹ پبلک کرنا پڑی. یہ پاکستان عوامی تحریک کی قانونی محاذ پر ایک بڑی کامیابی ہے اور حکومت اس وقت پریشر میں نظر آرہی ہے۔
 
پاکستان میں انصاف کے اداروں کی صورت حال سے ہر پاکستانی بخوبی واقف ہے اور اگر کسی کیس میں نامزد ملزم حکومتی اعلی شخصیات ہوں اور وہ تمام حکومتی مشینری کے ذریعے انصاف کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہوں تو کوئی بھی زی شعور انسان پاکستان عوامی تحریک اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کی مشکلات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ کوئی معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں، پاکستان عوامی تحریک تین سال سے زائد عرصہ سے حکومتی ظلم اور اداروں کی بے رحمی کا شکار ہے لیکن حالات و واقعات یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے اداروں میں وہ ہمت نہیں کہ وہ حکومت وقت کے خلاف فیصلہ دے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ حکومت اور اسکے حواری یہ پروپیگنڈہ بھی کرتے ہیں کہ پاکستان عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہرالقادی ماڈل ٹاؤن کا انصاف حاصل نہیں کرسکے اور کچھ باشعور افراد بھی حکومتی زبان بولنا شروع ہوجاتے ہیں کوئی انسے پوچھے کہ مقتولین کو انصاف دینا عدلیہ کا کام ہے نہ کہ عوامی تحریک کا، یہ ریاست پاکستان اور اسکے تمام اداروں پر ایک قرض اور انکا فرض ہے. ظالم حکومت کے ہوتے ہوئے کسی فرد یا جماعت کا حق کے لیے کھڑا رہنا پاکستانی معاشرہ میں ناممکن ہے لیکن یہ پاکستان عوامی تحریک کی قیادت اور کارکنان ہی ہیں جو کہ اس نا ممکن کو ممکن بنا رہے ہیں ورنہ بڑی پارٹیاں اور طاقتور احباب وسائل اور اختیارات ہونے کے باوجود بھی انصاف حاصل نہیں کرسکے اور نہ ہی اپنے لیڈر و کارکنان کے لیے انصاف کی بات ہی کرتے ہیں۔
 
عمران خان کی منہاج القرآن آمد، گرینڈ اپوزیشن الائنس کا نقطہ آغاز: 
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک بھائی پانامہ کیس میں گیا دوسرا ماڈل ٹاؤن قتل عام کیس میں گھر جائے گا، 45 تھانوں اور پولیس کی 12 کمپنیاں اگر شہباز شریف کے حکم پر نہیں آئیں تو پھر کس کے حکم پر آئیں بتایا جائے؟ احتجاج کا فیصلہ اے پی سی میں مشاورت سے کریں گے انہوں نے عمران خان اور مرکزی قائدین کی آمد پر انہیں خو ش آمدید کہا، ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہاکہ اچھا ہے میرا نام ای سی ایل میں ڈال دیں، اس سے میری باہر کی مصروفیات ازخود کینسل ہو جائیں گی۔
 
عمران خان نے کہا کہ انصاف کیلئے پوری جماعت ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ہے اور ڈاکٹر صاحب جو لائحہ عمل دیں گے ساتھ کھڑے ہوں یہ سیاسی معاملہ نہیں انسانی معاملہ ہے اور کون کس جماعت سے ہے یہ بحث طلب موضوع نہیں ہے۔ اگر یہ مافیا برسر اقتدار نہ ہوتا تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف ایک ماہ میں ہو جاتا، انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے گواہ پاکستان کے عوام کی آنکھیں ہیں جنہوں نے قتل و غارت گری کے سارے مناظر براہ راست دیکھے، ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہاکہ فوج کو مداخلت کی ضرورت ہے نہ اسکا مطالبہ کریں گے، قاتلوں کا مقابلہ عوامی طاقت سے ہو گا، غیر جانبدار تفتیش کیلئے شہباز شریف اور راناثناء اللہ کا استعفیٰ ناگزیر ہے۔، جسٹس باقر نجفی کمیشن میں سرکاری گواہیاں تھیں اس کے باوجود ذمہ دار شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ ٹھہرائے گئے، نجفی کمیشن کے ہمراہ 13 سو دستاویزات ہیں جو ہمیں نہیں دی جا رہیں، انہوں نے کہاکہ عمران خان اور ان کی پوری جماعت پہلے دن سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کے ساتھ کھڑ ی ہے، انہوں نے مظلوموں کا مقدمہ اپنا مقدمہ سمجھ کر لڑا، دونوں جماعتوں کا دیرینہ تعلق ہے، باہمی مشاورت کو مزید وسعت دے رہے ہیں۔سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ڈی آئی جی، ایس پی، ڈی ایس پی اپنی پوزیشنز پر بیٹھے ہیں قتل عام پر ایک بھی ذمہ دار جیل میں نہیں ہے، ساڑھے تین سال صبر کے ساتھ انصاف کا راستہ دیکھا، باقر نجفی کی رپورٹ آنے کے بعد قاتل کسی رو رعائت کے مستحق نہیں۔ انہوں نے کہاکہ نواز شریف شہباز جان لیں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں آپ کو معافی نہیں ملے گی۔
 
سربراہ عوامی تحریک نے عمران خان کے ہمراہ آنے والی پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، عون چودھری، فواد چودھری، شفقت محمود، عبدالعلیم خان، اعجاز چودھری، میاں اسلم اقبال کا بطور خاص شکریہ ادا کیا۔ سیکرٹریٹ آمد پر عمران خان کا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، خرم نواز گنڈا پور، ڈاکٹر حسین محی الدین، فیاض وڑائچ، بریگیڈئیر (ر) محمد مشتاق، مرکزی سیکرٹری اطلاعات نور اللہ صدیقی، ساجد بھٹی، جی ایم ملک، میاں ریحان مقبول، جواد حامد و دیگر رہنماؤں نے استقبال کیا۔سیکرٹریٹ آمد پر دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک اجلاس منعقد کیا، اے پی سی کے ایجنڈے اور آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا، اجلاس میں عمران خان نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ڈاکٹر صاحب انصاف کیلئے آپ جو فیصلہ کریں گے ساتھ کھڑے ہوں گے میں پوری پارٹی ساتھ لے کر آیا ہوں، یہ انصاف اور ہیومن رائٹس کامعاملہ ہے کون انصاف کیلئے اس جدوجہد کے ساتھ ہے یہ بحث طلب موضوع نہیں، پوری قوم اس مسئلہ پر مظلوموں کے ساتھ ہے، ہماری ملاقاتوں میں انتخابی یا سیاسی الائنس زیر بحث نہیں آتا، ہم انسانی حقوق کیلئے کھڑے ہیں، یہ کہاں کی جمہوریت ہے کہ دن دیہاڑے 100لوگوں کو گولیاں مار دی جائیں اور اسکا انصاف نہ ہو؟ یہ شریف خاندان کی پولیس ہے اور صرف مافیا کو تحفظ دیتی ہے، قتل و غارت گری کا یہ واحد کیس ہے جسے براہ راست پوری قوم نے دیکھا، قوم کی آنکھیں اس سانحہ کا ثبوت ہیں، شہید ہونیوالے PAT کے نہیں پاکستان کے شہری تھے۔
 
عمران خان نے کہا کہ اسحاق ڈار کے والد کی سائیکلوں کی دکان تھی، وہ آج ارب پتی بنے ہوئے ہیں، انہوں نے صرف اپنے بچوں کو اربوں پتی بنایایہ سیاست دان نہیں مافیا ہیں۔ ملٹری ڈکٹیٹر کی گود میں پلنے والے ہمیں جمہوریت کا درس دے رہے ہیں؟ انہوں نے کہاکہ شریف برادران نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو سبق سکھانے کیلئے ماڈل ٹاؤن میں بربریت دکھائی۔عمران خان نے کہا کہ انکی کرپشن اور قتل و غارت گری کے خلاف احتجاج ہو تو یہ کہتے ہیں ترقی کا سفر رک گیا اور یہ اپنے احتجاج دھرنے سڑکوں کی بندش، ایوان صدر کے باہر احتجاج اور جلاؤ گھراؤ کو درست سمجھتے ہیں۔ انکا طریقہ واردات مافیا والا ہے کہ پکڑے جاؤ تو شور کرو، عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکوں اور اداروں پر چڑھ دوڑو۔ میں لاڈلا نہیں ضیاالحق کی چوسنی منہ میں لے کر سیاست کرنیوالا لاڈلا ہے، انہیں غصہ ہے کہ پکڑے جانے پر اسٹیبلشمنٹ انکی مدد کیوں نہیں کر رہی، اس لاڈلے کے خلاف مہران بنک سکینڈل کا کیس کھلتا ہے نہ نیب کے کیس کھلتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ نواز شریف کی تحریک کے شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، مزدور اور کسان جن کا استحصال یہ کرتے چلے آ رہے ہیں وہی انکا استقبال کریں گے، یہ تحریک چلانے کی جرات نہیں کر سکتے، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے پاس سرنڈر کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔
 
مذکورہ ملاقاتوں سے قبل جماعت اسلامی سمیت پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتیں سانحہ ماڈل ٹاون کو انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دیکر ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے موقع پر چرچل نے کہا تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں لندن شہر کا بڑا حصہ کھنڈر بن چکا تھا۔ سانحہ ماڈل پر بھی اگر عدالتیں انصاف فراہم نہ کر سکیں تو پاکستانی سیاست، معاشرے اور ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ یہ تو انسانی دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہو گا۔ جیسا کہ مشہور ہے کہ ملاقاتیوں کے ایک وفد نے وزیر اعظم چرچل کو بتایا کہ بمباری نے بہت تباہی مچا دی ہے۔ چرچل نے اچانک ایک عجیب اور غیر متعلقہ سوال پوچھ لیا، مجھے بتاؤ، کیا ملک کی عدالتیں صحیح کام کر رہی ہیں؟ حیرت زدہ ملاقاتیوں نے کہا، جی ہاں وہ بالکل ٹھیک کام کر رہی ہیں۔ چرچل نے کہا، پھر فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہمارا ملک بچ جائے گا، اور ہم اس جنگ میں سرخرو ہوں گے۔ لیکن صد افسوس کہ اب تک ہم پاکستان میں نہ ہی برابری کا نظام قائم کرسکے اور نہ ہی ہمارے معاشرے میں غریب کو انصاف ملتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ریاست پاکستان آج ناکامی کا منہ دیکھ رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 692774
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش