0
Thursday 22 Mar 2018 23:50

شام میں حقوق کی جنگ(2)

شام میں حقوق کی جنگ(2)
تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ قسط میں ہم نے دیکھا کہ فرانس کے مینڈیٹ سے آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد شام کے عوام کن حالات میں زندگی گزار رہے تھے۔ وہاں کون کون سے نظریاتی گروہوں کے مابین اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی۔ ملک کے انتظام و انصرام کی کیا صورتحال تھی۔ عرب اسرائیل جنگ نے شام کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب کئے۔ اخوان المسلمین کا شام میں قائم بعثی حکومت سے کیا اختلاف تھا۔ حافظ الاسد نے کن حالات میں نظام حکومت کو سنبھالا، ملک کو کس طرح سے سیاسی، معاشی اور امن و امان کے لحاظ سے مستحکم کیا، ساتھ ساتھ اپنے قومی و ملکی مفادات کا تحفظ کیا۔ ہم نے گذشتہ قسط میں اس امر کا بھی جائزہ لیا کہ حافظ الاسد ملک کی سنی اکثریت کے تحفظات کو کس قدر اہمیت دیتے تھے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے خارجی اور داخلی سطح پر کیا کیا اقدامات کئے۔ بہرحال حافظ الاسد کی موت کے بعد ریاست کا انتظام و انصرام بعثی پارٹی نے ان کے فرزند بشار الاسد کو دیا۔ اس میں شک نہیں کہ بعثی حکومت کے ہر اقدام کی نہ تو حمایت ممکن ہے اور نہ ہی ہر اقدام سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ یہی اصول و قانون ہر ملک اور وہاں مقتدر قوت پر لاگو ہوتا ہے۔

 اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ شام میں امریکہ اور برطانیہ جیسی جمہوریت نہیں ہے، یہ سوغات مشرق وسطٰی کے بہت سے ممالک میں اگتی ہی نہیں، شاید عوامی مزاجوں کا فرق ہے یا زمینیں ہی بانجھ ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے آم مخصوص علاقوں میں ہوتا ہے، مالٹا مخصوص خطوں میں اسی طرح گندم و چنا کے لئے بھی مخصوص حالات اور زمینیں درکار ہیں۔ جمہوریت کا بیج دنیا بھر میں ایک ہی طرح سے کاشت کرنا اور اس کا ایک ہی جیسا پھل حاصل کرنا دیوانے کا خواب تو ہوسکتا ہے، کسی دانش مند کی فکر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک جہاں جہاں جمہوریت قائم ہے، وہاں ہم جمہوریت کے وہ حقیقی ثمرات نہیں دیکھ پاتے، جو کتابوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر قوموں کے استحصال کا سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔ ملک کا اشرافیہ اقتدار پر قابض ہوتا ہے اور غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی پر عیاشی کرتا ہے۔ اشرافیہ کی حکومت جسے آج کل جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے، مختلف عناوین اور اصول و قوانین کے ساتھ دنیا بھر میں قائم ہیں۔  حتٰی کہ مغرب میں بھی وہ جمہوریت نہیں ملے گی جو کتابوں میں دانشوروں نے کاشت کر رکھی ہے۔ اگر ان ممالک میں قائم جمہوریت حقیقی جمہوریت ہوتی تو وال سٹریٹ کی تحریک برپا نہ ہوتی۔ اب وال سٹریٹ کو جمہوریت کہا جائے یا اس نظام کو جو مغربی ممالک میں رائج ہے، اس بارے میں فیصلہ اہل فکر و دانش پر چھوڑنا چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ کتابوں میں بیان کی گئی جمہوریت ایک بہترین طرز حکومت ہے، تاہم یہ بھی فی ذاتہ کوئی ہدف و مقصد نہیں ہے۔ حقیقی ہدف و مقصد ملکی معاملات کو احسن انداز سے چلانا اور مفاد عامہ کے لئے اقدام کرنا ہے۔ اب اگر کسی ملک میں یہ دونوں اہداف حاصل کئے جارہے ہوں تو وہاں قائم نظام حکومت ہی اس ملک و ملت کے لئے فائدہ بخش ہے۔

بہرحال شام میں اقتدار حافظ الاسد کے انتقال کے بعد 2000ء میں بشار الاسد کو منتقل ہوا۔ اس منتقلی کے لئے ملک کے آئین میں ترمیم کرکے صدر کی عمر چالیس سے چونتیس برس کی گئی جو کہ بشار الاسد کی عمر تھی۔ بشار کو ملک کے سربراہ کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کا سربراہ اور بعثی پارٹی کا سربراہ بھی بنایا گیا۔ بشار الاسدنے اقتدار میں آنے کے بعد عام معافی کے اعلان کے تحت اخوان المسلمین کے بہت سے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا۔ بشار الاسد نے حزب اللہ اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کئے جبکہ وہ سعودیہ، ترکی، امریکہ اور اسرائیل کی خطے میں پالیسیوں کے بڑے ناقد سمجھے جاتے ہیں۔ بشار نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی جمہوریت کو بہترین طرز حکومت قرار دیا اور کہا کہ شام میں جمہوریت ایک دم داخل نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے ملک کی معاشی صورتحال میں انقلاب، بیوروکریسی اور حکومتی اداروں میں موجود کرپشن کے خاتمے، جدت اور ثقافتی انقلاب کا وعدہ کیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد چونکہ شام کو سوویت ریاست کی جانب سے ملنے والی کمک بند ہوچکی تھی، لہذا یہ ملک معاشی طور پر بہتر حالت میں نہیں تھا، تاہم اپنی صدارت کے پہلے برس میں ہی بشار نے شامی معاشرے میں بڑی تبدیلیوں کا آغاز کیا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ خارجہ پالیسی میں بشار اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے رہے اور حماس، حزب اللہ اور اسلامی جہاد کو براہ راست مدد کرتے رہے۔ ترکی کے ساتھ پانی پر حق کے حوالے سے مسائل بدستور قائم رہے۔ مشرق وسطٰی کے دیگر ہمسایہ ممالک کے برعکس شام نے اسرائیل کے وجود کو کبھی بھی تسلیم نہ کیا اور اسرائیل کے خلاف برسرپیکار گروہوں کی براہ راست مدد اسرائیل کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹکتی رہی۔

2011ء میں مصر، تیونس اور لیبیا میں آنے والی حکومتی تبدیلیوں کے بعد شام میں بھی حقوق کی تحریک کا آغاز ہوا۔ مظاہرین شہری حقوق کی بازیابی، ملک میں نافذ ہنگامی صورتحال اور سیاسی اصلاحات کے مطالبوں کے ساتھ سامنے آئے۔ بشار الاسد نے جون 2011ء میں عوامی مکالمہ اور پارلیمانی انتخابات کا وعدہ کیا، تاہم مظاہروں کا سلسلہ روز بروز طاقت پکڑتا گیا۔ مخالفین نے اپنے حقوق کے حصول کے لئے قومی کونسل قائم کی اور معاملہ حقوق کے حصول کی جنگ سے بشار کی معزولی کی جانب چل پڑا۔ اسی دوران میں عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل کر دی، اقوام متحدہ نے شام میں جاری حقوق کی تحریک کو سول وار کا عنوان دیا اور بہت سی عرب و غیر عرب ریاستیں اپوزیشن کی حمایت میں آن کھڑی ہوئیں۔ قطر کے سابق وزیراعظم نے کینیڈا کے ایک ٹی وی چینل کو دیئے جانے والے اپنے ایک معروف انٹرویو میں انکشاف کیا کہ 2011ء میں مجھے شاہ عبد اللہ نے ریاض طلب کیا اور شام کی فائل جس میں Hunt for Pray کا مکمل منصوبہ موجود تھا دی اور ساتھ یہ کہا کہ قطر اس منصوبے کی قیادت کرے۔ سابق قطری وزیراعظم کے بقول اس مشن میں Pray بشار الاسد تھا اور Hunter وہ ممالک تھے، جو شام میں جنگ کے لئے وسائل، تربیت اور دیگر سہولیات مہیا کر رہے تھے۔ سابق قطری وزیراعظم نے بتایا کہ ہم نے اس منصوبے کو اردن اور ترکی سے چلایا، جہاں شامی جنگجوﺅں کو گوریلا جنگ کی تربیت، اسلحہ اور دیگر ضروری وسائل مہیا کئے جاتے تھے۔

سیاسی، عسکری اور سفارتی میدانوں میں بشار کو پچھاڑنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ عرب و غیر عرب ریاستیں، ہمسائے اور دور کے رشتے دار و دشمن سب کے سب شامی عوام کے حقوق کے نام پر اس جنگ کا ایندھن مہیا کرنے لگے۔ نوبت بہ اینجا رسید کہ شام کے تمام شہر کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہیں۔ شامی عوام سیاسی حقوق کی تلاش میں زندگی کے حق سے محروم ہوچکے ہیں۔ گھر بار، مال اسباب، تجارت و کاروبار چھوڑ کر شامی شہریوں کو پناہ گزینوں کی حیثیت سے دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں۔ وہ ملک جو ایک وقت میں اسرائیل کے خلاف برسر پیکار فلسطینیوں اور لبنانیوں کو مدد مہیا کر رہا تھا، اب اس کے اپنے شہری اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی جانب مدد کے لئے دیکھ رہے ہیں۔ دنیا بھر سے لائے گئے مسلح خدائی خدمت گار شام میں باہم دست و گریبان ہوئے۔ سیاسی بساط کے مہرے کسی ایک مرکز پر جمع نہ ہو پائے۔ ایک جانب جبھة النصرہ اور احرار الشام ہیں تو دوسری جانب داعش اور جیش الفتح۔ قتل و غارت کا ایک بازار تھا، جو شام کی سرزمین پر سجا ہوا تھا اور یہ سب تماشا شامی عوام کے حقوق کے نام پر، جمہوریت کے خوبصورت نقاب میں، معاشی خوشحالی کے رنگین خوابوں کے سائے میں رچایا گیا، جس میں اپنوں اور غیروں نے بھرپور رول پلے کیا۔

شامی عوام کے عالمی ہمدردوں کی فہرست پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں اس میں ترکی، سعودیہ، قطر، اردن، امریکہ، برطانیہ، جرمنی کے ساتھ ساتھ اسرائیل بھی نظر آتا ہے۔ جبھة النصرہ، احرار الشام کے زخمیوں کی عیادت کرتے اسرائیلی وزیراعظم اور اسرائیلی مسلح افواج کے افسران اس حقیقت پر سے نقاب الٹنے کے لئے کافی ہیں کہ یہ جنگ شام کے عوام کے حقوق کی جنگ نہیں بلکہ دنیا میں مقتدر قوتوں کے مفادات کی جنگ تھی، یہ اسرائیل کے دفاع کی جنگ تھی، یہ حزب اللہ، حماس، جہاد اسلامی اور تحریک آزادی فلسطین کو کمزور کرنے کی جنگ تھی، جس میں مغرب سمیت اس کے تمام تر حواریوں کو ناکامیوں سے دوچار ہونا پڑا۔ عالمی بساط پر مہرے چلنے والوں کی ناکامیاں تو ایک جانب، اگر اس سارے قضیے کو نفع و نقصان کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے عالمی شطرنج کے چیمپیئن نفع میں رہے کہ عالم اسلام کے ایک اور اہم ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور وہ بھی معروف مقولے کے عین مطابق ”ہینگ لگے نہ پھٹکڑی“ اور سب سے زیادہ نقصان اس عوام کا ہوا، جو اپنے شہری و سیاسی حقوق کے لئے میدان میں لائے گئے تھے اور آخرکار سر پر موجود چھت، روزگار، زندگی سے بھی محروم ہوگئے۔
خبر کا کوڈ : 713290
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش