0
Saturday 23 Jun 2018 20:58

عام انتخابات، 30 سال بعد متحدہ کو کراچی میں بڑا انتخابی چیلنج درپیش

عام انتخابات، 30 سال بعد متحدہ کو کراچی میں بڑا انتخابی چیلنج درپیش
رپورٹ: ایس ایم عابدی

کراچی میں 30 برسوں کے دوران ہونے والے الیکشن میں قومی اور سندھ اسمبلی کی اکثریتی نشستوں کو جیتنے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اپنا مینڈیٹ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگی یا ناکام ۔؟ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت شہریوں میں زبان زدعام ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو اس وقت ان گنت چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز میں اندرونی اختلافات، تنظیمی نیٹ ورک کا غیر فعال ہونا، رہنماؤں و کارکنان کی مختلف جماعتوں میں شمولیت، فنڈز کی قلت، اسیر و لاپتہ کارکنان کے مسائل، شہر میں بلدیاتی مینڈیٹ ہونے کے باوجود مسائل کے حل نہ ہونے پر عوامی تنقید کا سامنا اور دیگر وجوہ شامل ہیں۔ ان چیلنجز اور سابقہ سیاسی حیثیت نہ ہونے کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان رواں عام انتخابات میں کراچی سے قومی اور سندھ اسمبلی کی کنتنی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی، اس کا فیصلہ تو پولنگ کے دن ہی ہوگا۔ ایم کیو ایم پاکستان نے ان چیلنجز سے نمٹنے اور اپنا سابقہ مینڈیٹ حاصل کرنے کیلئے عام انتخابات میں آخری سیاسی آپشن "مہاجر کارڈ" کو دوبارہ استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس ہی مہاجر کارڈ کی مناسبت سے الیکشن میں انتخابی نعرہ "اپنا ووٹ اپنوں کے لئے" متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اس طرز کا نعرہ ایم کیو ایم نے 2015ء کے بلدیاتی انتخابات متعارف کرایا تھا کہ "میئر تو اپنا ہونا چاہیئے۔" ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے اپنی انتخابی مہم میں "سندھ میں نئے صوبے کے قیام" کے مطالبے کا سیاسی کارڈ فی الحال شامل نہیں کیا جائے گا۔

ایم کیو ایم پاکستان کا عام انتخابات میں مہاجر کارڈ کا استعمال اس کی کامیابی میں کتنا اہم کرداد ادا کرے گا۔ اس کا فیصلہ تو ایم کیو ایم کے ووٹرز 25 جولائی کو کریں گے، جبکہ ایم کیو ایم لندن عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اپنے قائد سے لاتعلقی کے اعلان کے بعد کراچی کے انتخابی دنگل میں اتر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد کراچی کی سیاسی پوزیشن اس وقت مکمل طور پر تبدیل ہوگئی ہے۔ رواں انتخابات میں شہر کی سیاسی فضا مکمل طور پر پرامن ہے اور سب کیلئے انتخابی میدان میں متوازن طریقے سے حصہ لینے کی راہ ہموار نظر آرہی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو اس الیکشن میں پاک سرزمین پارٹی، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، نون لیگ، متحدہ مجلس عمل سمیت مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے ایم کیو ایم پاکستان کیلئے رواں الیکشن میں اپنی سابقہ انتخابی پوزیشن کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا۔ متحدہ پاکستان کے دونوں گروپس میں روٹھنے اور منانے و قانونی معاملات کا سلسلہ ساڑھے 4 ماہ تک جاری رہا۔ اس سیاسی اختلاف کا شکار متحدہ کی گاڑی اپنے آخری اسٹاپ پر 15 جون کو پہنچی اور ایم کیو ایم کے دونوں گروپس نے اختلافات ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر خالد مقبول نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اب ہم ایک ہیں اور پتنگ کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیں گے۔

ایم کیو ایم پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ متحدہ کا شہر قائد میں 80 فیصد تنظیمی نیٹ ورک غیر فعال اور دفاتر بند پڑے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان صرف بلدیاتی نمائندوں کی شکل میں شہر میں سیاسی طور پر نظر آرہی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کا تنظیمی نیٹ ورک غیر فعال ہونے کے باوجود انتخابات میں حصہ لینا کسی سیاسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ ایم کیو ایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاق کی جانب متحدہ پاکستان کو سیاسی سرگرمیوں اور الیکشن دفاتر کھولنے کی اجازت غیر اعلانیہ طور پر مل گئی ہے اور آئندہ 10 روز میں کراچی بھر میں انتخابی سرگرمیاں اور عوامی رابطہ مہم شروع کر دی جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت اس وقت قومی اور سندھ اسمبلی کے حلقوں پر اپنے امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دے رہی ہے۔ اس کا اعلان جلد متوقع ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستیں 20 سے بڑھ کر 21 اور سندھ اسمبلی کی نشستیں 42 سے بڑھ کر 44 ہوگئی ہیں۔ ایم کیو ایم ذرائع کے مطابق ضلع ملیر میں قومی اسمبلی کی 3 نشستوں این اے 236، 237 اور 238 پر پیپلز پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہے اور ان حلقوں میں ایم کیو ایم پاکستان کی کامیابی کے امکانات نظر نہیں آتے۔ ضلع غربی قومی اسمبلی کے 2 حلقوں این اے 249 اور 250 میں بھی ایم کیو ایم پاکستان کی پوزیشن مضبوط نہیں ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان ضلع کورنگی کے این اے 239، 240، 241 ضلع شرقی کے این اے 242، 243، 244، 245، ضلع جنوبی کے این اے 247، ضلع غربی کے این اے 250، 251، 252، ضلع وسطی کے این اے 253، 254، 255 اور 256 پر کامیابی حاصل کرنے کیلئے اپنی انتخابی حکمت عملی کو آخری شکل دے رہی ہے، تاہم ان تمام حلقوں میں ایم کیو ایم کو اپنی مخالف جماعتوں سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی الیکشن کے روز پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی کے سبب کسی بھی جماعت کے دھاندلی کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ کراچی کے الیکشن نتائج اس مرتبہ حیران کن ہوں گے اور کوئی جماعت واضح برتری حاصل نہیں کرسکے گی۔ کراچی کا عوامی مینڈیٹ اس الیکشن میں یکطرفہ نہیں بلکہ تقسیم ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کی کئی نشستوں پر کامیابی کا دار و مدار اس بات پر منحصر ہے کہ متحدہ کی اعلیٰ قیادت اپنے اختلافات کو ختم کرکے انتخابی دنگل میں اترے۔ اگر اختلافات کا سلسلہ برقرار رہا تو ایم کیو ایم پاکستان کو انتخابات میں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

نئی حلقہ بندیوں اور سیاسی صورتحال کے سبب کراچی میں سندھ اسمبلی کی نشستوں پر بھی ایم کیو ایم پاکستان کو عام انتخابات میں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کو درپیش چیلنجز کے سبب رواں انتخابات متحدہ کو کراچی سے قومی اور سندھ اسمبلی کی نشستیں ماضی کے مقابلے میں کم ہوسکتی ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان امین الحق نے بتایا ہے کہ متحدہ پاکستان میں اس وقت کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کا مینڈیٹ تقسیم نہیں ہوگا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آئندہ انتخابات میں متحدہ کراچی سے قومی اسمبلی کی 14 سے 15 اور سندھ اسمبلی کی 30 یا اس سے زائد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان یکم جولائی سے کراچی میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرے گی۔ انہوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ ایم کیو ایم پاکستان فی الحال الیکشن مہم کے دوران نئے صوبے کی تحریک چلانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
خبر کا کوڈ : 733125
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش