3
0
Friday 29 Jun 2018 15:37

ساری دنیا پاکستان پر شاکی کیوں؟

ساری دنیا پاکستان پر شاکی کیوں؟
تحریر: نادر بلوچ

بلآخر وہی ہوا جس کا اندیشہ موجود تھا، پاکستان کا نام دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے میں ناکام ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا ہے کہ یہ سوال کسی اور سے نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو اپنے آپ سے کرنا چاہیئے۔ کیا وجہ ہے کہ 80 ہزار پاکستانیوں کی قربانیاں دینے کے باوجود بھی ساری دنیا ہمارے اوپر شاکی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ریاستی اداروں نے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا۔ اسی الیکشن 2018ء کو ہی دیکھ لیں، کالعدم جماعت کے سربراہان کے نام شیڈول فور سے نکالے جا رہے ہیں، پابندیاں ہٹائی جا رہی ہیں، انتخابات لڑنے کی اجازت دی جا رہی ہے، تکفیری جماعتوں کی جانب سے دھڑلے سے الیکشن کمپیئن چلائی جا رہی ہے جس میں کوئی روک ٹوک نہیں، تو پھر دوسروں سے کیسا گلہ شکوہ۔؟ نیشنل ایکشن پلان میں طے ہوا تھا کہ کسی کالعدم جماعت کو سیاسی عمل کا حصہ نہیں بننے دیا جائے گا اور کسی کو نام بدل کر کام کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی، اکاونٹس منجمد کئے جائیں گے اور غیر ملکی فنڈنگ کو روکا جائے گا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوسکا۔

آج جتنے بھی دہشتگرد اور تکفیری جماعتوں کے نام ہیں، سب کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ عالمی برادری آپ پر اعتبار کیوں کرے۔؟ کالعدم جماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی جس نے کہا تھا کہ اگر مجھے حکومت پاکستان صرف 24 گھنٹے دے دے تو وہ دو شیعہ بھی نہیں چھوڑیں گے، کوئٹہ سے رمضان مینگل جس نے براہ راست ریاست کو دھماکے کرنے کی دھمکی دی، جس کی ویڈیو بھی موجود ہے اور جس نے ہزارہ برادری کے قتل عام پر خوشی کا اظہار کیا، مولانا اورنگزیب فاروقی جس نے اعلانیہ کہا کہ وہ اہل سنت یعنی اپنے گروہ کو اتنا مضبوط کر دیں گے کہ مخالف فریق سے کوئی ہاتھ تک نہیں ملائے گا، افسوس کا مقام ہے کہ ان سب کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے تو ایوان کا کیا حال ہوگا اور دنیا کو کیا پیغام جائے گا۔؟

سوال یہ بھی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف کاسمیٹک اقدامات سے کیا حقیقت بدل جائے گی؟ دہشتگردی اور دہشتگرد ختم ہو جائیں گے۔؟ داعش کا خطرہ جس کا بار بار اظہار کیا جا رہا ہے، وہ ختم ہوجائے گا۔؟ سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں داعش کے لئے نرم گوشہ کون رکھتا ہے اور کون ہے جو اس عالمی دہشتگرد تنظیم کے لئے سہولتکار بن سکتا ہے؟، اگر انہی کو ہی سیاسی عمل میں شریک کیا جا رہا ہے تو پھر دہشتگردی اور دہشتگردوں سے چھٹکارا کیسے مل سکتا ہے۔؟ عالمی سطح پر پاکستان کا امیج کیسے بہتر ہوسکتا ہے؟ اس پر پاکستان کے تمام اداروں کو سوچنا ہوگا، نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے، اس کا تعین کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔

دہشت گردوں کی مالی معاونت پر نظر رکھنے والی تنظیم ایف اے ٹی ایف کے پیرس میں ہونے والے اجلاس میں دہشتگردی اور منی لانڈرنگ کے خلاف پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی قیادت میں پاکستانی وفد نے اجلاس میں شرکت کی اور دہشت گردی کے خلاف پاکستانی اقدامات پر روشنی ڈالی۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے 27 صفحات پر مبنی انسداد منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت روکنے کے اقدامات پر اپنی رپورٹ پیش کی، جبکہ کالعدم تنظیموں اور دیگر گروہوں کے خلاف آپریشن سے بھی آگاہ کیا گیا، تاہم ایف اے ٹی ایف نے پاکستانی جواب اور اقدامات کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اس کا نام گرے ممالک کی فہرست میں شامل رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب پاکستان کو 15 ماہ کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ کالعدم جماعتوں کے خلاف اقدامات اٹھائے، اگر پاکستان مطمئن نہ کرسکا تو پھر پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کر لیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 734420
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

طاہر یاسین طاہر
Pakistan
نادر بھائی آپ نے جو سوالات اٹھائے ہیں وہ بالکل درست اور نہایت بنیادی ہٰن۔ لیکن افسوس ناک حقیقت یہی ہے کہ دہشتگردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے دھڑلے سے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور عالمی برادری کو یہی شکوہ بھی ہے۔۔
اسد عمران
Pakistan
درست۔
اسد عمران
Pakistan
بالکل ٹھیک فرمایا، لیکن میں حیران اس بات پے ہوتا ہوں کہ جو باتیں ملک کا ایک عام فہم شہری سمجھ سکتا ہے، وہ ملک کے حکمران طبقہ اور پالیسی میکرز کی سمجھ میں کیوں نہیں آتیں۔ اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ یہ لوگ ملک کے ساتھ مخلص نہیں۔ ان لوگوں کو ملکی مفاد سے زیادہ مخصوص طبقے کی خوشی اور اپنا مخصوص ایجنڈا (جو خود سے زیادہ اوروں کا دیا لگتا ہے) زیادہ عزیز ہے۔ بس اب خدا کرے یہ لوگ اسمبلی میں نہ پہنچ پائیں۔
ہماری پیشکش