0
Tuesday 11 Sep 2018 12:48

ایام عزاء اور ہماری ذمہ داری

ایام عزاء اور ہماری ذمہ داری
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

ہم ایک بار پھر ان شہیدوں کا غم منا رہے ہیں جنہوں نے چمن اسلام کی اپنے خون سے آبیاری کر کے قیامت تک کے لئے ہرا بھرا کر دیا۔ نعمت جتنی بڑی ہوتی ہے اس کی حفاظت بھی اتنی ہی سخت ہوتی ہے، نعمت جتنی بڑی ہوتی ہے اس کا شکر بھی اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔

عزاداری ایک نعمت:
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نعمت عزاداری کے سلسلہ میں فرماتے ہیں۔ ’’عزاداری اور مصائب اہلبیت اطہار علیھم السلام ایک ایسی خداداد نعمت ہے کہ جو بارگاہ خداوندی میں شکریہ کے شایان شان ہے‘‘۔ آپکی نظر میں  تحریک عاشورا کا پیغام، اسلامی تحریکوں کا فروغ ہے اور آپ کربلا و عزاداری کی نعمت کی  عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ’’اس نعمت کے حساس ہونے کو ہم اس وقت درک کرتے ہیں جب ہم جان لیں کہ خدا کی نعمتوں کے مقابلے میں بندگان خدا کی ذمہ داری شکر و سپاس اور اس کی بقا کی کوشش کرنا ہے۔ اگر کسی کے پاس نعمت نہ ہو تو اس سے کوئی سوال نہيں کیا جائے گا لیکن جس کے پاس نعمت ہے اس وقت اس سے سوال کیا جائے گا۔ شیعوں کے لئے ایک عظیم نعمت، محرم، عاشورا اور مجالس عزاء ہے۔ یہ عظیم نعمت، دلوں کو اسلام و ایمان کے ابلتے ہوئے چشمے سے متصل کرتی ہے۔ اس نعمت نے وہ کام کیا ہے کہ اسکی بنا پر تاریخ کے دوران ظالم حکمرانوں، کو عاشورا اور قبر امام حسین علیہ السلام سے خوف لاحق رہا ہے۔ اس نعمت سے فائدہ حاصل کرنا چاہیئے۔ خواہ وہ عوام یا علماء، اس نعمت سے ضرور بہرہ مند ہوں۔ عوام اس طرح سے بہرہ مند ہوں کہ ان مجالس سے دل وابستہ کرلیں اور مجالس امام حسین علیہ السلام کا انعقاد کریں۔ لوگ عزاداری کا اہتمام مختلف سطح پر زيادہ سے زيادہ کریں۔ کربلا کا واقعہ تاریخ بشریت کے لئے ایک درس ہے اور اس سے وابستگی بھی مسلمانوں حتٰی حریت پسند غیر مسلموں کے لئے بھی ہر دور میں  باعث سعادت رہی ہے۔‘‘

غم سید الشہداء لازوال متاع حیات:
 رہبر انقلاب اسلامی کی مذکورہ بالا گفتگو
کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ یقینا غم حسین علیہ السلام کی نعمت کوئی معمولی نعمت نہیں ہے، ایک ایسی قیمتی و لازوال متاع حیات ہے جس کے بل پر زندگی میں حرکت و انقلابی آہنگ پیدا ہوتا ہے، جس کے دم پر ایک ایک مردہ قوم میں نئی روح جاگتی ہے، جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ میں ارتقاء کے بغیر حیات کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہ وہ غم ہے جو ظاہر و باطن میں انسان کے وجود میں ایک ایسا انقلاب پربا کر دیتا ہے کہ انسان بغیر قدروں کے ساتھ جینے کو  موت سے عبارت جانتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہر مکتب خیال کے افراد اس کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں۔ اس غم کی عمارت ان انسانی بنیادوں پر قائم ہے کہ جہاں، مذہبی، نسلی اور لسانی تنگ نظری کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا، یہ ہر ایک کے دل کی آواز ہے۔ حسینیت نے اسلام کی وسیع النظری عام کرنے اور انسانی فطرت کو بیدار کرکے تمام انسانوں کو اسلام کا ہمدم و ہمدرد بنانے میں بڑی مدد کی ہے۔ اس انقلاب کے اصولی و منطقی طرزعمل نے اسے ایک مثالی حیثیت بخشی ہے اور اسی لئے دنیا کی اہم انقلابی تحریکوں میں اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے، چنانچہ جس وقت ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا مہاتما گاندھی نے کہا تھا۔ "حسینی اصول پر عمل کرکے انسان نجات حاصل کر سکتا ہے" اور پنڈت نہرو نے اقرار کیا تھا کہ "امام حسین (ع) کی شہادت میں ایک عالمگیر پیغام ہے۔"

"ہیروز ورشپ" کے مصنف کارلائل نے مانا تھا کہ " شہادت حسین (ع) کے واقعہ پر جس قدر غور و فکر کیا جائے گا اسی قدر اس کے اعلٰی مطالب روشنی میں آتے جائیں گے"۔ عزاداری شہادت امام حسین علیہ السلام  کے سلسلہ میں غوروفکر کا ایک موقع ہے، ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والے مظلوم کے ساتھ جذبات کے بندھن کو مضبوط کرنا اور ستمگر و ظالم کے خلاف احتجاج کرنا ہے، اور استاد شہید مرتضی مطہری کے بقول " شیہد پر گریہ اس کے ساتھ میدان کارزار ميں شرکت کے مترادف ہے"۔ اس بناء پر عزاداری کے جلسوں اور جلوسوں
ميں شرکت کرنے والوں میں جو معنوی تبدیلی رونما ہوتی ہے اس سے سماجی تبدیلیوں کے لئےحالات سازگار ہوتے ہیں اور درحقیقت امام حسین علیہ السلام کے اہداف و مقاصد کے تحفظ کے لئے حالات فراہم ہوتے ہیں۔ شہیدوں کا غم اور خاص طور پر سیدالشہداء حضرت امام حسین کا غم، کربلا کے عظیم واقعے کو زندہ جاوید بنانے کا ذریعہ ہے، اس غم سے عزاداروں اور حق کے پیشواؤں کے درمیان باطنی بندھن قائم ہوتا ہے اور ساتھ ہی عوام میں ظلم و ستم سے مقابلے کی روح زندہ ہوتی ہے۔

گریہ و زاری  تحفظ مکتب حسینیت کا سبب:
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) فرماتے ہيں، "اس گریہ و زاری اور نوحہ و ماتم کے ذریعے ہم حسینی مکتب کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ اب تک کرتے آئے ہيں"۔ مکتب اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کا تحفظ، اہل بیت کی ثقافت کو زندہ رکھنے کے ذریعے کیا گیا ہے اور اس لحاظ سے کہ ظالم حکمرانوں نے پیہم اس ثقافت کومحو اور نیست و نابود کرنے کی کوشش کی ہے اس لئے مظلوم کربلا کی عزاداری نے خود بہ ہمہ جہت جہادی رنگ اختیار کر لیا ہے۔ عزاداری اور گریہ کا ایک خاص  پہلو، ظلم و ستم مخالف جذبے کو زندہ رکھنا ہے۔ مکتب (ع) کربلا میں عبادت کو اسلامی معاشرے کے معنوی و اخلاقی فضائل اور دینی تعلیمات میں سرفہرست قرار دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی عزت و سربلندی ان کے ایمان اور معنویت کی مرہون منت ہے۔

عزاداری پاسبان مقصد سید الشہداء:
کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد، اسلامی معاشرے کو درپیش خطروں کو دور کرنا تھا۔ روح کی بالیدگی اور معنویت کی طرف رجحان کربلا کا وہ عظیم سرمایہ ہے جو کسی اور کے پاس نہیں اسی لئے ہماری تہذیب میں اس غم کی بہت قیمت ہے اور ہماری ثقافت ميں مذہبی پیشواؤں اور خاص طور پر امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب و انصار کی مجالس اور عزاداری کا انعقاد، عبادت ہے۔ اس لئے کہ عزاداری، معنویت میں فروغ کا باعث ہوتی ہے اور انسان کو انسانیت
کے اعلٰی ترین مدارج تک پہنچانے میں مدد دیتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام پر گریہ و زاری اور حزن واندوہ، باطنی تغیر وجود ميں آنے اور اس کے ساتھ ہی انسان کے روحانی کمال کا باعث ہوتا ہے ۔اور اس سے انسان میں تقوی اور انسان کو خدا سے نزدیک کرنے کے مقدمات فراہم ہوتے ہيں۔اسی طرح، عوام بھی اس مظلوم کے ساتھ، جو عقیدے کی راہ میں موت کو سعادت اور ستمگر کے کے سامنے تسلیم ہو جانے  کو باعث ننگ و عار قرار دیتا ہے، اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہيں اور ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے اور ظالموں سے کوئی ساز باز نہ کرنے کو اپنا شعار بناتے ہيں۔ اور یہی وفاداریاں ہی ہیں جو قوموں کو، استعمار گروں کے حرص و طمع کے مقابلے میں محفوظ رکھتی  اور سامراج کے اثرورسوخ کی راہوں کو  بند کردیتی ہیں۔

سید الشہداء کی تحریک کی کامیابی اور انقلاب اسلامی:
کیا یہ اس انقلابی تحریک کی کامیابی نہیں کہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کے ذریعہ سے لڑی گئی جنگوں کے بعد آج تاریخ میں نہ ان کے کمانڈروں کا تذکرہ ہے نہ نامور شہسواروں کا لیکن حسین کے ۷۲ جانثار ہر صاحب احساس کے دل کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں۔ کیوں نہ ہو توحید و حق گوئی اس انقلابی تحریک میں عملی میں طور پر نمایاں نظر آتے ہیں اور اسی سبق نے ایران کے اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کو یقینی طور پر کربلا کے درس سے الہام لینے اور اس واقعہ کی روشنی میں  دیکھا جانا چاہیئے کیونکہ اسلامی انقلاب نے کربلا سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اسی کو اپنے لئے نمونہ قرار دیا ایران کے عوام نے اسلامی انقلاب کو آسانی سے کامیاب نہيں بنایا ہے اس نے اپنے ملک ميں جو اسلامی نظام قائم کیا ہے وہ آسانی سے ممکن نہيں ہوا ہے۔ گذشتہ ۳۹برسوں ميں ایران کے عوام نے اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے بےپناہ قربانیاں دی ہيں اور جب تک قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا کوئی طاقت نہیں ہے اس انقلاب کو گزند پہنچا سکے۔ اس لئے کہ کربلا قربانیوں
کے تسلسل کا نام ہے۔

عزم زینبی اور ہماری سنگین ذمہ داری:
حضرت امام حسین علیہ السلام نے جو انقلاب میدان کربلا میں بپا کیا تھا اس کی حفاظت میں امام زین العابدین اور جناب زینب کبری سلام اللہ علیھما نے جو قربانیاں دی ہيں وہ کربلا کے میدان میں قربانی دینے والوں کی قربانیوں سے کہیں زیادہ سخت و دشوار تھیں اور یہی بات ہماری ذمہ داری کو بھی بڑا کر دیتی ہے کہ قربانیوں کے بعد ان کی حفاظت کرنا بہت دل گردے کا کام ہے، یہ کام زیینبی کام ہے۔ اسکو انجام دینے کے لئے عزم زینبی کی ضرورت ہے۔ اگر ایران و عراق اور شام میں استعماری گماشتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کربلا کے جانباز سپاہی اپنی تاریخ خود رقم کر سکتے ہیں اور اپنے بیدار قائد کی رہبری میں کربلا والوں کے درس سے الہام لیتے ہوئے اپنی تقدیر خود لکھ سکتی ہے اور انکا دنیا کی کوئي بھی طاقت کچھ بھی نہيں بگاڑ سکتی تو ہم بھی اپنے سماج و معاشرہ میں ایک انقلابی روح بیدار رتے ہوئے کامیابی و کامرانی سے مکنار کر سکتے ہیں۔ اس لئے کہ جہاں کربلا انقلابی فرہنگ و جذبہ کو بیدار کرنے کا ذریعہ ہے وہیں دشمن کو پہچاننے کا بھی ایک  بہترین موقع ہے۔

یزید شمر، ابن زیاد و عمر سعد صرف وہی نہیں تھے جو سن اکسٹھ ہجری میں کربلا میں امام حسین علیہ السلام  اور ان کے اصحاب پر ظلم کرنے کے لئے موجود تھے بلکہ آج بھی یزید، شمر، حرملہ، ابن زیاد اور عمرسعد پائے جاتے ہيں جو اسلام کو مٹانے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے طاقت کے ہر حربے کا استعمال کر رہے ہيں، آج بھی وقت کے یزید کربلا کے پیغام کو مٹانے کے درپے رہتے ہيں، آج بھی وقت کے ابن زیاد ہر اس تحریک اور انقلاب کو نابود کرنے کی پوری کوشش کرتے ہيں جو عاشورا  سے درس لے کر آگے بڑھ رہی ہو۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت کا بھی یزید و شمر و حرملہ و ابن زیاد پیغام حسینیت کو نہيں روک سکا تھا اور آج کے بھی یزید عاشورا کے آفاقی پیغام کو نہیں روک پا رہے ہيں، اگرچہ پیغام  کربلا پر عمل کرنے والوں کو اس کے لئے بھاری
قیمت چکانی پڑ رہی ہے اور فوجی سیاسی اور اقتصادی طور پر سامراجی طاقتوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن مصباح الہدی و سفینۃ النجات کی نصرت و مدد کے زیرسایہ حسینیت کے پیرو بڑی سے بڑی مشکلات کا بہت ہی ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں  اور تمام مسائل و مصائب کا سامنا خندہ پیشانی کے ساتھ کرتے ہوئے ارتقاء کے مراحل کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔

آج کون نہيں جانتا کہ اگر کل یزید اور اس کے کارندے ابن زیاد و حرملہ و  شمر جیسے فاسق و فاجر و بدشعار عناصر اسلام کے دشمن تھے تو آج امریکہ اور اس کے اتحادی خاص کر آل سعود و  صہیونی حکومت و انکے دین اسلام گماشتے اسلام کے کھلے دشمن ہيں اور اگر آج  دنیا میں توحیدی و اسلامی نظام سے عالمی سامراج کی  کھلی دشمنی ہے تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ جہاں بھی کربلائی فکر کا وجود ہے۔ سامراج کو اندازہ ہے کہ یہ فکر کبھی بھی انکے دنیا بھر میں پھیلے گماشتوں کو تخت حکومت سے نیچے پھینک کر اللہ کی کبریائی کا پرچم لہرا سکتی ہے، لہٰذا عالمی سامراج کی سازشوں کو سمجھنا تمام حسینیوں اور مسلمانوں پر فرض و لازم ہے اور اگر اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی کوتاہی کی گئی تو رسول اسلام امام حسین اور سب سے بڑھ کرخدا کے حضور کو سب کو جواب دینا ہوگا۔ آج محرم اور کربلا جب سب کو ظلم کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دے رہا ہے اور دشمنوں کے چہروں پر پڑی ہوئی نقاب کو اتار پھینکنے کے لئے آگے قدم بڑھانے کا حکم دے رہا ہے تو ایسے میں اگر ہم امام عالی مقام کے عاشق ہونے کا دم بھرتے ہیں تو عملی طور پر اپنے آپ کو بہرحال ثابت کرنا ہوگا۔ آج  کربلا کی قربانیوں  کی روشنی میں  عراق  و شام فلسطین اور افغانستان و پاکستان  سمیت دنیا کے ديگر علاقوں میں وقت کے یزیدیوں کے ظلم کے خلاف سب کو آواز بلند کرنا  ہوگا اسی صورت میں عزاداری اور محرم کا حق ادا ہو سکے گا۔ کیونکہ عزاداری نام ہے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور مظلوم کی مظلومیت کو عام کرنے کا۔
 
خبر کا کوڈ : 749374
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش