0
Monday 15 Oct 2018 20:02

ضمنی الیکشن، لاہور میں تحریک انصاف کی شکست کی وجوہات

ضمنی الیکشن، لاہور میں تحریک انصاف کی شکست کی وجوہات
تحریر: تصور حسین شہزاد

لاہور میں ہونیوالے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اپنی ہی جیتی ہوئی نشستوں پر فتح ملنے پر بغلیں بجا رہی ہے اور اِسے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی شکست سے تعبیر کر رہی ہے۔ البتہ مسلم لیگ (ن) عمران خان کی چھوڑی ہوئی این اے 131 کی نشست سے کامیاب ہوگئی ہے، جسے عام انتخابات میں دھاندلی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ این اے 131 سے جیتنے والے امیدوار خواجہ سعد رفیق خوشی سے پُھولے نہیں سما رہے۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں بھی وہ ہی جیتے تھے، مگر اُن کے مینڈیٹ کو چوری کر لیا گیا۔ اب بھی ان کا کہنا ہے کہ میں نے شور مچایا ہے تو مینڈیٹ چوری ہونے سے بچ گیا، ورنہ حکومت نے مکمل انتظامات کر رکھے تھے کہ اس بار بھی مینڈیٹ چوری کر لیا جائے، مگر ہم نے حکومت عزائم ناکام بنا دیئے۔

لاہور میں این اے 131 سے عام انتخابات میں عمران خان جیتے تھے، جبکہ این اے 124 اور پی پی 164 اور پی پی 165 میں ضمنی الیکشن ہوا ہے۔ این اے 131 میں مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق اور پاکستان تحریک انصاف کے ہمایوں اختر خان کے درمیان مقابلہ تھا، جبکہ این اے 124 میں مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اور تحریک انصاف کے غلام محی الدین دیوان مدمقابل تھے۔ اس موقع پر دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی، جب سابق وزیراعظم نواز شریف ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے گورنمنٹ ٹیکنالوجی کالج میں قائم پولنگ سٹیشن پر پہنچے تو پتہ چلا وہ اپنا شناختی کارڈ ہی گھر بھول آئے ہیں۔ وقت کم ہونے کے باعث میاں نواز شریف ووٹ نہ کاسٹ کرسکے۔ این اے 124 لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی 75012 ووٹ لے کر کامیاب رہے۔ این اے 131 لاہور سے مسلم لیگ نون کے خواجہ سعد رفیق نے واضح برتری سے اپنے مدمقابل تحریک انصاف کے ہمایوں اختر خان کو شکست سے دوچار کیا اور 60476 حاصل کئے، جبکہ ہمایوں اختر خان نے 50 ہزار 245 ووٹ حاصل کئے۔

تحریک انصاف چاہتی تو این اے 131 اور این اے 124 سمیت صوبے کی دونوں سیٹوں پر بھی کامیابی حاصل کرسکتی تھی، مگر پی ٹی آئی کی جانب سے اس انداز میں انتخابی مہم نہیں چلائی گئی، جس طرح چلائے جانے کی ضرورت تھی۔ پی آئی آئی کی جانب سے سرد مہری نے (ن) لیگ کو کھل کر کھلینے کا موقع دیا۔ اوپر سے مہنگائی کی شرح میں ہونیوالے اضافے کے مانا، ذمہ دار سابق حکمران ہیں، مگر سابق حکمرانوں نے انتہائی چالاکی کیساتھ اس مہنگائی کا سارا ملبہ عمران حکومت پر ڈال دیا۔ لاہور کی انتخابی مہم میں مسلم لیگ (ن) نے بھرپور انداز میں انتخابی مہم چلائی۔ اس مہم میں مسلم لیگ (ن) عوام کی یہ باور کروانے میں کامیاب رہی، اگر پی ٹی آئی کو دوبارہ ووٹ دیئے تو مسائل میں اضافہ ہوگا، جبکہ ان حلقوں میں سارا ووٹ بینک بھی مسلم لیگ (ن) کا  ہے۔ نون لیگ اپنے ہی ووٹ بینک سے پاکستان تحریک انصاف کی ساکھ کو متاثر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہاں تحریک انصاف کی شکست کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے انتخابی مہم میں وہ دم خم نہیں تھا جو ہونا چاہیئے۔ دوسرا مہنگائی نے بھی تحریک انصاف کو متاثر کیا۔ حالانکہ اگر اس انتخابی مہم کے دوران عوام کو یہ باور کروایا جاتا کہ حکومت معاشی بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو مہنگائی کی شرح میں کمی ہو جائے گی، مگر ایسا کچھ نہیں بتایا گیا۔

سابق حکومتوں کی معاشی پالیسیوں کے باعث پاکستان کے عوام آئی ایم ایف سے نفرت کرتے ہیں۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی، بے روز گاری اور معاشی بحران کا ذمہ دار آئی ایم ایف ہی ہے۔ جب بھی کوئی حکومت آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا اعلان کرتی ہے یا بات کرتی  ہے، عوام میں حکومت کیخلاف نفرت کے جذبات پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ اعلان کیا کہ ’’خودکشی کر لیں گے لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے‘‘ مگر اقتدار میں آکر سسٹم کے بُھول بُھلیوں میں وزیراعظم صاحب ایسے چکرائے کہ انہیں آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہونا پڑ گیا۔ عمران خان کو اندازہ نہیں تھا کہ سسٹم اس قدر خراب ہے، انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے دعوے تو بڑے کئے، مگر اقتدار کے ایوان میں پہچنے تو انہیں احساس ہوا کہ سسٹم میں تو آوے کا آوہ بگڑا پڑا ہے۔ اب آئی ایم ایف کے معاملے میں عمران خان کا یوٹرن بھی ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔

اس حوالے سے عمران خان حکومت اگر آئی ایم ایف کی بجائے کسی دوست ملک سے قرض لے لیتی تو اس سے سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی بچ جاتی۔ پاکستانی قوم کی نفسیات یہ ہے کہ یہ آئی ایم ایف سے نفرت کرتی ہے۔ آئی ایم ایف بلا سود بھی قرضہ دے دے تو بھی پاکستانی قوم سجھتی ہے کہ اس میں بھی نقصان ہے۔ حکومت کیلئے اب بھی موقع ہے کہ آئی ایم ایف کی بجائے سعودی عرب یا کسی اور ملک سے قرض لے لے، اس طرح آئی ایم ایف کے قرض سے ہونیوالی بدنامی سے بھی بچ جائیں گے اور کام بھی نکل آئے گا۔ کیونکہ آئی ایم ایف نے ابھی بھی جو شرائط رکھی ہیں، ان کا نزلہ عام عوام پر ہی گرے گا۔ اس حوالے سے حکومت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے، کیونکہ مخالفین متحد ہو کر حکومت کی ساکھ متاثر کرنے کیلئے مصروف عمل ہیں، جبکہ حکومت میں صرف عمران خان فرد واحد ملک کی بہتری کیلئے سرگرم ہیں۔

عمران خان اپنے وژن کو اپنی کابینہ اور صوبائی حکومتوں کو بھی منتقل کریں، تاکہ وہ اس حوالے سے کلیئر رہیں۔ اس حوالے سے حکومت کے اپنے اندر رابطے کا فقدان دکھائی دے رہا ہے۔ جسے قابو کرنے کی ضرورت ہے۔ موثر رابطے سے ہی مسائل کو بہتر انداز میں حل کیا جا سکتا ہے۔ اقتدار کی کرسی کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہوتی، جبکہ عمران خان کیلئے تو ہر بندہ کانٹے اٹھائے کھڑا ہے۔ حکومت کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ اسی میں حکومت کی بقا ہے، بصورت دیگر سسٹم اتنا بگڑا ہوا ہے کہ اسے سلجھانے کیلئے 5 نہیں 50 سال کی ضرورت ہے، کیونکہ یہاں عام عوام کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، ہم بحیثیت قوم کرپشن کو جرم ہی نہیں سمجھتے، کرپشن ہمارے سسٹم میں اتنی رچ بس چکی ہے کہ ہم اسے نظام کا لازمی جزو سمجتھے ہیں، جبکہ یہ سوچ ہی غلط ہے، مگر ہمارے معاشرے میں رائج ہے۔ اس لئے اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 756014
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش