2
0
Sunday 11 Nov 2018 14:07

خادم رضوی صاحب کی تحریک اور اسکے اثرات

خادم رضوی صاحب کی تحریک اور اسکے اثرات
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پچھلے کچھ عرصے سے مولانا خادم رضوی صاحب بار بار ختم نبوت کے  مسئلہ پر حکومت سے ٹکرا رہے ہیں۔ اختلاف کی وجہ سے حکومت کے خلاف احتجاج کرنا اور اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے دھرنے دینا تمام جمہوی ممالک میں ہوتا ہے اور اسے اس نظام کا حسن گردانا جاتا ہے، لیکن اس بار تحریک لبیک کی قیادت حکومت کی بجائے ریاست کے خلاف کھڑی نظر آئی، جو بہت ہی خطرناک طرز عمل تھا۔ آسیہ مسیح ایک عام دیہاتی خاتون جس کی ساتھی خواتین سے تو تکرار ہوئی، جو اس حد تک آگے بڑھی کہ مسئلہ مسلم مسیحی بن گیا اور ایک فریق نے توہین رسالت کا الزام لگا دیا، جب یہ خبر گاوں کے مولوی کو ملی تو  بجائے سلجھنے کے مسئلہ الجھتا ہی گیا۔ مقامی کورٹ سے ہائی کورٹ اور ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ تک معاملہ سنسنی خیز رہا ہے۔ اس کیس نے پاکستانی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

ختم نبوت پر ہر مسلمان کا ایمان ہے، لیکن پاکستانی سیاستدانوں کے بنائے ہوئے قانون سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، اس میں تبدیلی لا کر اسے مزید بہتر بنایا جا سکتا  ہے۔ یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون ہے، اس سے اختلاف کرنے سے انسان نہ تو دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے اور نہ ہی کسی گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے اس قانون کے پروسِس سے اختلاف کیا تھا کہ اس میں انصاف نہیں ہوتا ہے۔ اس بیان اور ان کی آسیہ مسیح سے ملاقات کو اس قدر اچھالا گیا کہ  انہیں ہی گستاخ رسولﷺ ثابت کرکے ان کے قتل کا فتویٰ دے دیا گیا۔ سلمان تاثیر صاحب اپنے ہی گارڈ کے ہاتھوں قتل ہوگئے اور اس کے بعد  ممتاز قادری کا مقدمہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے دھرنوں اور دھرنوں میں استعمال ہونے والی زبان نے پاکستانی معاشرے پر بہت  گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔

مذہب کو امن و سلامتی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اسی لئے القاعدہ اور طالبان سے عامۃ المسلمین متاثر نہیں ہوئے اور لوگ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہم بم بارود والے نہیں بلکہ دم درود والے ہیں۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ کوئی بھی پورا مسلک بم بارود والا نہیں ہوتا بلکہ چند بھٹکے ہوئے لوگ یہ انتہائی قدم اٹھاتے ہیں۔ محترم خادم رضوی صاحب نے اسلامی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا، بات یہاں تک پہنچی کہ ایک دوست کہہ رہے تھے کہ ہم مولانا خادم رضوی کی تقریر گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں سن سکتے، کوئی پتہ نہیں اگلے ہی لمحے یہ کیا کہہ دیں گے؟ اگر کوئی میری بات مولانا تک پہنچا سکے تو یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ آپ کا تعارف اس حد تک گِر چکا ہے۔ مجھے حیرت اس وقت ہوئی، جب مولانا کی توجہ اس مسئلہ کی طرف دلوائی گئی کہ آپ گالیاں نکالتے ہیں تو انہوں بڑی شان بے نیازی سے فرمایا کہ کیا ہوا جو میں گالیاں نکالتا ہوں، گالیاں تو فلاں فلاں مقدس سمجھی جانی والی شخصیات بھی نکالتی تھیں، اسے کہتے ہیں عذر بدتر از گناہ۔ اسلام کے اخلاق حسنہ کی بجائے اس کے رہنماوں کا تعارف گالیاں بن جائیں، اگر کوئی اہل درد سمجھنے والے ہوں تو یہ ایک المیہ ہے۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد دھرنوں کی اذیت میں مبتلا رہی، مختلف شہروں کی مین شاہراہیں بند کر دی گئیں تھیں، جس سے بعض مقامات پر ایمبولینس کو جانے میں بھی مشکلات رہیں، مریض بروقت ہسپتال نہ پہنچ سکے اور کئی اموات ہوئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک غیر مسلم خاتون جس پر الزام تھا کہ اس نے توہین رسالت کی ہے، مسلمان ملک کی سب سے بڑی عدالت نے فیصلہ کیا کہ اس کے خلاف گواہیاں مکمل نہیں ہیں، اس لئے آزاد کر دیا جائے۔ اس کے خلاف اس قدر شدید احتجاج کرنا کہ کئی بے گناہ مسلمان جان سے جائیں، ان مظلوم مسلمانوں کی جان کے ذمہ دار کون ہوں گے؟ ان تین دنوں میں کاروباری اور تعلیمی ادارے بند رہے ہیں، جس سے مسلمانوں کو ایک اندازے کے مطابق ایک سو پچاس ارب روپے کا نقصان ہوا، اس نقصان کا شرعی طور پر ذمہ دار کون ہے۔؟

ایک اہم بات یہ ہے کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ راستے بند کرنے سے پرہیز کرو۔ بخاری شریف کی حدیث ہے: حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں، رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’راستوں پر بیٹھنے سے پر ہیز کرو۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ’’ہماری مجبوری ہے کہ ہم محفل جماتے ہیں اور آپس میں گپ شپ کرتے ہیں۔‘‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو راستے کا حق ادا کرو۔‘‘ صحابہؓ نے پوچھا: ’’راستے کا حق کیا ہے۔؟‘‘ فرمایا:’’نظروں کو جھکا کر رکھو، تکلیف دہ چیز کو دُور کرو، سلام کا جواب دو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو۔‘‘(بخاری، ۲۴۶۵) اس حدیث میں واضح طور پر راستے پر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے اور اگر بیٹھنا پڑے تو اس کے آداب بتائے گئے ہیں۔ یہاں تو صورتحال یہ تھی کہ نہ صرف راستے بند کر دیئے گئے تھے بلکہ جو بس، ٹرک، کار اور موٹر سائیکل سامنے سے گزرے، کو آگ لگا دی جاتی تھی یا شیشے توڑ دیئے جاتے تھے۔

سڑک پر احتجاج کرنے اور جلوس نکالنے کی اجازت ہے، مگر اس دنگا اور فساد کے ساتھ تو یقیناً کسی طور پر درست نہیں ہے۔ عامۃ المسلمین کے محترم مال کو آگ لگائی گئی ہے، اگر یہاں اسلامی حکومت قائم ہو تو حاکم شرعی کی ذمہ داری ہوتی کہ وہ اس نقصان کے ذمہ داروں کو گرفتار کرکے ان سے نقصان پورا کرائے ۔ دین کی کتنی غلط تفہیم ہے کہ  لبیک یارسولﷺ کے نعروں کے ساتھ مسلمانوں کے مال کو ا ٓگ لگائی جا رہی ہے بلکہ لوٹا جا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ ایک ہجوم ایک ریڑھی سے کیلے لوٹ رہا ہے اور سہما ہوا بچہ بڑی مشکل سے کیلے بچانے کی جدوجہد میں گدھا گاڑی کو بھگا رہا ہے۔ کوئی رجل رشید وہاں نہیں ہے، جو ان کو کہے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر بار بار اقبال کے شعر کا یہ مصرعہ ذہن میں آرہا تھا کہ:
مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ہر سیاسی جماعت نے ختم نبوت کے نعرے کے ساتھ قوم کا مذہبی استحصال کیا ہے، اب سب کو مل جل کر بیٹھنا چاہیئے، تاکہ اس مسئلہ کا مستقل حل نکالیں، یہ بڑی عجیب صورتحال ہے کہ ہمارے وزیراعظم، وزراء حتٰی آرمی چیف کو اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا؟ ریاست کے ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا کہ  یہ مسئلہ بہت حساس ہے، عوام اس پر بہت تحفظات رکھتے ہیں، اس لئے اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے، لوگ خوش تھے کہ یہ مسئلہ نواز شریف کے خلاف استعمال ہوا ہے، مگر اب نئی حکومت کے بھی گلے پڑ چکا ہے، اس لئے علمائے کرام کو میدان آکر ان انتہاء پسند  گروہوں کی نفی کرنی ہوگی۔ نبی اکرمﷺ کی ذات ہماری عقیدتوں کا مرکز ہے۔ مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں کہ ختم نبوت کا مسئلہ تمام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے اور تمام ملک میں مسلمان ہی رہتے ہیں، مگر جب بھی مظاہرے اور دھرنے ہوتے ہیں تو اس کا مرکز ہمیشہ پنجاب ہی ہوتا ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر ملک کے دیگر حصوں میں اس طرح کا کوئی ردعمل آئے۔ اس کی وجہ شائد  قادیانیت کا پنجاب سے آغاز ہے یا کچھ اور ہے، میں اسے مکمل سمجھنے سے قاصر رہا ہوں۔

 خادم رضوی صاحب نے مذہبی جماعتوں کا بھرم توڑ دیا ہے، اس مسئلے   کو بار بار غیر ضروری انداز میں اٹھانا ور پرتشدد کارروائی کرنا، جس سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے، یہ مستقبل میں خطرناک اثرات کا حامل ہوسکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تمام علمائے دین ملکر مشترکہ لائحہ عمل بنائیں، سادہ لوح عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانا اور جلاو گھراو کی ترغیب دینا وطن عزیز کے لئے ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہے۔ الیکشن کے رزلٹس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فکر بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے، جہاں بھی لوگ قانون کو ہاتھ میں لیں، ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا اور ان کی فکری کجی کی رہنمائی علمائے کرام کو کرنا ہوگی، نہیں تو سب مذہبی قوتیں معاشرے میں بے اثر ہو جائیں گی۔ افتخار عارف کا یہ شعر ہمارے دل کی کیفیت کا عکاس ہے:
رحمت سید لولاک پہ کامل ایمان
امت سید لولاک سے خوف آتا ہے
خبر کا کوڈ : 760536
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Canada
اگر مولانا سمیع الحق اور مولانا خادم حسین کے غم سے فارغ ہو جائیں تو چند سطریں ان بے گناہ قیدیوں کے لئے بھی لکھ دیں، جن کا کوئی اتا پتہ نہیں۔
سلام ندیم صاحب
بهت اچهے نکات کی طرف اشاره کیا لیکن هر تحریک یا پارٹی کی خامیوں اور خوبیوں کا باهم جائزه لینا بهتر هوتا ہے، میرے خیال میں جہاں اس تحریک کی خامیوں کا جائزه لیا، وهاں دوسرے کئی پہلو کو بهی مدنظر رکهنا هوگا، جیسے سپاسی پارٹیوں کے احتجاجی مظاهرے، دهرنے اور ان میں ہونے والے نقصانات مثلاً اسی حکمران جماعت کے چار انتخابی حلقے نہ کھولنے پر تین چار ماه سے زیاده دهرنا اور مختلف مقامات پر جلسے جلوس نکالنا اور عوام اور قومی املاک کو نقصان پہچانا اور ان کا مخالفین کی توهین کرنا اور ان کو گدها تک کہنا اور اب اسی گروه کے ہاتھ میں اسلامی مملکت کی باگ ڈور دینا بهی غور طلب ہے!! تحریک ختم نبوت میں بهی مسئله صرف آسیه بی بی اور مولوی خادم صاحب کا نہیں بلکه بنیادی مسئله مغربی پالیسی سیکولاریزم اور اسلامی شناخت کا ہے، لهذا آپ نے دیکها که اس مسئله پر ملک کی تمام دینی جماعتیں ایک هوگئی ہیں اور ان کے مقابل سیکولر سیاسی جماعتیں مثلاً تحریک انصاف اور مسلم لیگ یا پی پی جو اقتدار کے لیے ایک دوسرے کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نهیں ہیں، لیکن اس ایشو پر متحد نظر آئی ہیں، لهذا ناچیز کی نظر یه مسئله اس قدر آسان نہیں ہے بلکه تمام جوانب سے پرکهنے کی ضرورت ہے۔
ہماری پیشکش