3
0
Wednesday 14 Nov 2018 00:10

تصویریں بولتی ہیں!

تصویریں بولتی ہیں!
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
یہ 2015ء کی بات ہے جب ایک شامی تین سالہ بچے "ایلن کرد" کی تصویر جو ترکی کے ایک ساحل پر پڑی تھی، سامنے آئی اور دنیا میں ایک ہلچل مچ گئی، لال شرٹ میں ملبوس، اوندھے منہ پڑے بچے کی تصویر سوشل میڈیا اور میڈیا پر ایسی وائرل ہوئی کہ لوگوں کی چیخیں نکل گئیں، دراصل انہی دنوں شامی و دیگر ممالک کے پناہ گزینوں کا داخلہ یورپ میں روکنے کی بات زور و شور سے جاری تھی، ایسے میں ایک شامی پناہ گزین خاندان کے تین سالہ بچے کی تصویر سامنے آنے سے یہ ایشو بہت حد تک میڈیا کی زینت بن گیا۔ کالم لکھے گئے، رپورٹس میڈیا پر نشر ہوئیں، اس کے خاندان سے انٹرویوز ہوئے، اسی طرح سوشل میڈیا پر کئی دنوں تک اس تصویر نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ رکھا اور کئی ممالک کے عوام بالخصوص جرمن عوام نے اپنے گھروں کے دروازے پناہ گزینوں کیلئے کھول دیئے تھے، ان کیلئے کھانے، پینے اور کپڑوں کا اہتمام کیا اور جو ہوسکتا ہے انسانی ہمدردی کا ایک لامتناہی سلسلہ دیکھنے میں آیا، ہم نے بھی یہی کہا کہ یہ ہوتا ہے ایک تصویر کا ہزار خبروں پہ بھاری ہونا، مگر یہ ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتا ہر ایک بچہ ایلن کرد نہیں ہوتا، جیسے ہر صحافی جمال خشوگی نہیں ہوتا، اسی طرح ہر بچہ ایلن کرد نہیں ہوتا، جسے علامت کی حیثیت مل جائے، جو ایک مثال بن جائے، جو ایک عرصہ تک آج کے جدید اور تیز دور میں اپنا اثر کئی مہینوں یا ہفتوں تک میڈیا پہ قائم رکھے، آپ آج بھی گوگل پہ ایلن کرد لکھیں، آپ کو ہزاروں لنک مل جائیں گے، بے شمار مواد مل جائے گا، شائد کتابیں بھی لکھیں گئی ہوں، اگر نہیں لکھی گئیں تو یہ ضرور ہوا کہ کئی ایک کتب کا ٹائٹل یہ تصویر بنائی گئی۔۔!
 
اس طرح کے کسی واقعہ کے بعد کسی ایک تصویر کے سامنے آنے پر اتنا کچھ ہو جاتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا بے حد مہذب ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں بہت کارگر اور کام کرر ہی ہیں، مغرب میں واقعی انسانی جان کی قیمت ہے، عالمی ادارے، این جی اوز، اسلامی امہ، دینی و مذہبی تنظیمیں، عالمی لیڈران، سیاسی قائدین، الغرض ہر ایک میں انسانیت جھلکتی بلکہ اچھلتی نظر آنے لگتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے، یہ اکیسویں صدی ہے، اب جنگل کا قانون نہیں چل سکتا، اب کوئی جرم کرکے چھپ نہیں سکتا، اب کوئی جارحیت نہیں کرسکتا، اب کوئی کسی پہ ظلم کرکے بچ نہیں سکتا، قومیں آزاد ہیں، ان کے جمہوری حقوق انہیں حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی قیادت کا انتخاب کرسکیں، کوئی ان پہ مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ سب فریب ہے، دھوکہ ہے۔
 
دنیا آج بھی مظلوموں کیلئے اسی طرح خاموش ہے جیسے جنگل کے زمانے میں کوئی ظلم کرتا تھا تو اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا، کسی دوسرے کو مہینوں خبر بھی نہیں ہوتی تھی، اگر یقین نہیں آتا تو ذرا یمن پر تین سال سے مسلط جاری جنگ کے متاثرین اور اموات کا چارٹ دیکھ لیں اور عالمی اداروں کا کردار دیکھ لیں، شائد آپ کو یقین آجائے، دنیا اب بھی تہذیب اور احساس سے عاری ہے، جیسے انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کو منظور ہونے اور اس کے عمل کا جائزہ لینے کیلئے بنائی گئی عالمی تنظیموں سے قبل ہوا کرتی تھی، اگر یقین نہیں آتا تو اس مہذب دنیا میں اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جن کے چیختے، چلانے، دھاڑنے اور کمزور ملکوں پر حملے کروانے کے اسباب فراہم کرنے جیسے اقدامات سے آپ واقف ہی ہونگے، ان سب کے ہوتے ہوئے چالیس ماہ سے یمن کے بے دست و پا مظلوم عوام پر ہونے والی طاقتوروں کی یلغار اور اس کے اثرات دیکھ لیں، آپ کو شائد یقین ہو جائے کہ ہم کیسی مہذب دنیا کا حصہ ہیں اور آپ کا ضمیر آپ کو اس پہ ملامت کرے۔
 
میڈیا کتنا آزاد ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے یمن کے مظلوم بچوں کی اسکول بسوں کو نشانہ بنایا گیا، سعودیہ پہ کیا اثر ہوا دنیا کے پریشر کا، اگر میڈیا آزاد ہوتا اور اس ظلم کو بار بار دکھاتا، جیسا اب الجزیرہ جمال خشوگی کے معاملے پہ دکھاتا رہا ہے، اسی طرح عالمی میڈیا ہائوسز بھی دن رات ان تصویروں اور ویڈیوز کو نشر کرتے تو سعودیہ کے خلاف مغرب و مشرق کی عوام اٹھ کھڑے ہوتے، اقوام متحدہ و انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی ہوش آجاتا اور سعودیہ پہ پابندیاں لگ جاتیں، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی صدر نے سعودیہ کو جدید ترین اسلحہ دینے کے بھاری بھرکم معاہدے کرکے انسانیت کا منہ چڑھایا اور پابندیاں ایران پہ لگا دیں اور اپنے معاہدے سے بھی فرار کر گیا، یہ ہے مہذب دنیا کا چہرہ جسے امریکی صدر ٹرمپ سامنے لا رہا ہے، برطانیہ کی بھی یہی صورتحال ہے، وہ تو ویسے ہی امریکی دم چھلا بنا رہنے میں عافیت محسوس کرتا ہے، جو کچھ سعودیہ یمنی مظلوم عوام کیساتھ کر رہا ہے، بالفرض یہی کچھ ایران کسی بھی ہمسائے ملک کیساتھ کرتا تو پھر عالمی قوتیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور یہودیوں کی انگلیوں پہ ناچنے والا، چیخنے والا میڈیا یہی کچھ کرتا، جو آج کر رہا ہے، اقوام متحدہ بھی ایسے ہی مجرمانہ کردار ادا کرتی جیسے آج کر رہی ہے، انسانی حقوق اور مہذب کہلانے والی ترقی یافتہ اور جمہوریت پسند اقوام ایسا ہی رویہ رکھتیں یا پھر ایران کو صفحہء ہستی سے مٹا دینے کی دھمکیاں دے کر لاکھوں ٹن وزنی بارود سے حملہ آور ہو جاتے۔؟
 
میرا خیال ہے کہ یمنی مظلوموں کی تصویریں جنہیں دیکھنا مشکل ہے، انسانیت کا منہ چڑھا رہی ہیں، تہذیب کا جنازہ نکلنے کی نشاندہی کر رہی ہیں، بے حس دنیا کی نشاندہی کر رہی ہیں، آپ باقی سب کو چھوڑ دیں، صرف ان بچوں کی تصویریں دیکھیں، جو غذا کی کمی کا شکار ہو کر سوکھ کے ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہوگئے ہیں، ایک زمانے میں افریقی قحط زدہ بچوں کی ایسی ہی تصاویر دیکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے کہ آخر دنیا ان تک خوراک کیوں نہیں پہنچا سکتی، جبکہ امریکہ اس وقت بھی اپنی اضافی گندم ضائع کرکے پھینک دیتا تھا تو سمجھ نہیں آتا تھا، ان دنیا جدید ہوگئی ہے، ہم بھی تھوڑا دنیا کے حالات و واقعات کو سمجھنے لگے ہیں اور دنیا میں پھیلے ہوئے مفادات کے کھیل پہ نگاہ رکھتے ہیں تو سمجھ آئی ہے کہ نہ تو اس وقت ذرائع رسل و رسائل، نقل حمل کے مسائل تھے نا اب ایسا ہے، یہ مفادات کا کھیل ہے، جس میں دنیا کو چاہیں تو ایک بچے کی تصویر کو اتنا وائرل کر دیا جائے کہ سب اسی پہ نگاہ کرنے لگیں اور چاہیں تو اپنا اسلحہ بیچنے کیلئے جنگیں کروا دی جائیں۔

اب جنگیں کروانا بھی ایک انڈسٹری کی حیثیت رکھتا ہے، اسّی کے عشرے سے لیکر آج تک مسلم امہ کے حالات دیکھ لیں، کیسے کیسے رنگ بدل کر دنیا کی جنگی انڈسٹری نے انہیں بے وقوف بنایا ہے اور ان کے وسائل کو ہڑپ کیا ہے، اب بھی انہیں سمجھ نہیں آرہی، ایک اسلامی ملک ہے اتنے زیادہ عربوں میں ایسے جیسے زبان بتیس دانتوں کے درمیان رہتی ہے، ایسے ہی ایران ہے، مگر اس کا نام لیکر ایسا ڈرایا جاتا ہے کہ ان عرب ممالک نے اپنی حفاظت کیلئے استعماری طاقتوں کو ٹھیکے دیئے ہوئے ہیں اور وہ اپنا بے کار سے بے کار اسلحہ بیچ کر پھر یہ کہتے ہیں کہ تمہاری سکیورٹی ہمارے مرہون منت ہے، اگر ہم ایک ہفتہ یہ سکیورٹی نہ کریں تو تمہارا اقتدار نہ رہے، تمہارا وجود ہمارے باعث ہے، کس قدر شرم کا مقام ہے کہ اتنے پیسے خرچ کرکے بھی انہیں وہ عزت و شرف نہیں مل سکا، جس کی یہ خواہش رکھتے ہیں اور یمن کے مظلوم، بے کس، انتہائی غریب اور پس ماندہ جن کا سب کچھ لٹ چکا ہے، جو بے خانماں و برباد ہوچکے ہیں، جن پہ یلغار ہے، جن پہ بارود و آگ کی بارش ہے، جن کی تصویریں شائع کرتے ہوئے ہمارا میڈیا شرم محسوس کرتا ہے، جن کے چیتھڑے بدنوں کی ویڈیوز چلانے سے ہمارے میڈیا ہائوسز کا ایمان ڈولنے لگتا ہے، اس لئے کہ یہ چیتھڑے کرنے والا کوئی اور نہیں حرمین شریفین کا نام نہاد کنجی بردار کر رہا ہے۔

جن کی چیخیں ان کی تصویروں سے باہر آتی سنائی دے رہی ہیں، مگر ہم اپنے کانوں کو بند کرنے میں عافیت سمجھ رہے ہیں، جن کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں، جو دوائی کو ترس رہے ہیں، جو روٹی کے ایک نوالے سے محروم ہونے کی وجہ سے موت کو گلے لگا رہے ہیں، ان کی تصویریں مجھ سے تو نہیں دیکھی جا رہیں، پھر بھی میں دیکھنا چاہتا ہوں اور دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں، تاکہ ظالموں کی تصویریں قلب و ذہن پہ نقش ہوسکیں، تاکہ قاتلوں، ظالموں، غافلوں کی تصویریں بھلائی نہ جا سکیں، میں یمن کے مظلوموں، بے کسوں اور جاں بہ لب بچوں کی تصویریں دیکھنا اور دکھانا چاہتا ہوں، تاکہ تاریخ کے صفحات پہ ان کالے کرتوت والوں کی گواہی نقش ہوسکے اور تاریخ کے صفحات پہ کسی ابو ہریرہ، کسی بنو امیہ، کسی بنو عباسی تاریخ نویس کے زر خرید قلم کی روشنائی سے تاریکی کا کھیل نہ کھیلا جا سکے اور مستقبل کی مہذب دنیا ان سے نفرت کرتے ہوئے شرم محسوس نہ کرے۔
خبر کا کوڈ : 761053
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ارشاد صاحب اس مظلومیت کی داستان پر لکهنے کا شکریه۔
Pakistan
یمن کا مسئلہ بہت نازک دور سے گذر رہا ہے، سب اس جانب متوجہ ہوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کی منافقت کو بے نقاب کریں؛ ارشاد
Greece
بہت خوب اسلام ٹائمز پر تمام موضوعات مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی محنت کے ساتھ چنے گئے ہیں۔
ہماری پیشکش