0
Wednesday 21 Nov 2018 19:30

شان سرور (ص) بزبان حیدر (ع)

حصہ اول
شان سرور (ص) بزبان حیدر (ع)
تحریر: سید اسد عباس
 
گذشتہ دنوں افضلیت ختمی مرتبت سے متعلق ایک تحقیقی مقالہ نظر سے گذرا۔ اس مقالے میں مولف نے انبیاء ماسبق کی قرآن میں درج کردہ صفات کا موازنہ قرآن میں ہی درج کردہ صفات خاتم النبین (ص) سے کیا اور ثابت کیا کہ قرآن کے رو سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے ہر صفت اور خوبی میں افضل الانبیاء ہیں۔ مقالے کے اختتام پر ایک پیرا جو مولف کی رسالت مآب (ص) سے محبت کا عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادبی شاہ پارہ ہے، کو پڑھ کر بہت لطف آیا۔ یہ پیرا آپ کے دلوں کی تسکین و فرحت کے لئے بعینہ پیش خدمت ہے۔ "رحمۃ للعٰلمین، حاکم دین متیں، وجہ قرآن مبین، زینتِ خلدِ بریں، شافع عالم، فخرِ رسولاں، رحمتِ یزداں، بادہ عرفاں، آیت رحمن، معنی رحمت، امن و محبت جس کی شریعت، عظمت آدم، نازش حوّا، حیرت موسیٰ، غیرت عیسیٰ، نور مقدم، شافعِ محشر، سرور عالم، محرم یزداں، جلوہ ایماں، حامل قرآں، زلف معطّر، فخرِ ملائک، رہبرِ دنیا، نورِ مجسّم، روحِ دو عالم، اہل نظر کے کعبہ اعظم، ساقی کوثر، مالکِ زم زم، روح منزہ، نفس مکرم، نازش ملّت، شانِ نبوت، تابشِ فطرت، ظلّ الٰہی، پیکر ایماں، شوکتِ انساں، حسنِ دو عالم، بحر عنایت، قلزم شفقت، منبع عرفاں، مخزنِ حکمت، ہادی صادق، رحمت خالق، مشعل ایمان، گلشنِ رضوان، مہرِ طریقت، شمّع شریعت اور صاحب تاج ختم نبوت قرار پاتے ہیں۔"
 
عشق رسول (ص) سے منور ڈاکٹر طاہر مصطفیٰ کی تحریر کے مطالعے کے بعد دل میں کسک اٹھی کہ مجھے بھی اظہار محبت کی کوئی صورت نکالنی چاہیئے۔ ذہن نے سوچا کہ وہ ہستی جو بذات خود علمی، فکری، نظریاتی اور عملی حوالے سے رسالت مآب کی تربیت و کفالت کا معجزہ ہے اور جسے عالم انسانیت میں سب سے زیادہ رسول اکرم (ص) کے قرب کا شرف حاصل ہے، کے کلام کو سہارا بنایا جائے۔ اتنی وضاحت کے بعد تو نام لینے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، لیکن اس خوف سے کہ کہیں ذہن بھٹکتے نہ رہیں، عرض کرتا چلوں کہ اس شخصیت سے میری مراد امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی ذات والا صفات کے سوا کوئی نہیں۔ تاریخ کہتی ہے کہ امیر المومنین دس سال کی عمر میں رسول اکرم (ص) کے زیر کفالت آئے۔ ایسا نہیں کہ اس سے قبل رسول پاک اور علی مرتضیٰ (ع) ایک دوسرے سے انجان تھے۔ ان دونوں ہستیوں کی آپسی محبت اور قربت ہی کفالت کا باعث بنی، ورنہ تو ابو طالب کے اور بھی کئی ایک بیٹے تھے۔ امیر المومنین (ع) اکثر اپنے خطبات و ارشادات میں اس قربت کی جانب اشارہ کرتے تھے۔

نہج البلاغہ میں یہ جملہ درج ہے:
و قد علمتم موضعی من رسول اللہ (ص) بالقرابۃ القریبۃ و المنزلۃ الخصیصۃ وضعنی فی حجرہ وانا ولد (ولید)یضمنی الی صدرہ ویکنفنی فی فراشہ و یمسنی جسدہ ویشمنی عرفہ وکان یمضغ شئی ثم یلقمنیہ"تم جانتے ہو کہ رسول اللہ (ص) سے قریب کی عزیزداری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا، میں بچہ ہی تھا کہ انہوں نے مجھے گود لے لیا تھا۔ وہ مجھے اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے۔ بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے۔ اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کرتے تھے۔ اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے۔ پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے۔" امیر المومنین (ع) رسالت مآب کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے، ان کے ہدف و مقصد کے بارے میں کیا سوچتے تھے۔ ان کے بارے میں کیسے اظہار خیال کرتے تھے، ایک ایسا سوال ہے، جو ہر ذہن انسانی کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اس فکر میں ہر ذہن کے لیے غذا موجود ہے۔

رسالت مآب (ص)، امیر المومنین کی نظر میں ایک وسیع موضوع ہے۔ جس پر بہرحال کام کیا جانا چاہیئے۔ فارسی زبان میں اس حوالے سے کافی کام منظر عام پر آرہا ہے۔ بعض لوگوں نے نہج البلاغہ میں رسالت مآب کے حوالے سے امیر المومنین(ع) کے ارشادات، کلمات اور اظہارات کو جمع کیا ہے۔ کچھ حضرات نے اس سے بڑھ کر دیگر کتب احادیث کو بھی منبع بنایا ہے، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ امیر المومنین کی زندگی کے آثار کو خاص اس زاویہ سے دیکھتے ہوئے انہیں جمع کیا جائے اور ارشادات امیر المومنین (ع) کی شروح لکھی جائیں، تاکہ رسالت مآب (ص) کی ہستی کو اس طرح سمجھا جا سکے جیسا کہ جناب امیر (ع) سمجھانا چاہتے تھے۔ علامہ سید حسنین رضا گردیزی نے اس حوالے سے ایک مقالہ تحریر کرکے اردو قارئین کے استفادہ کی ایک راہ ایجاد کی ہے، جس پر مزید تفصیل سے کام کی ضرورت ہے۔

 
نہج البلاغہ جو امیر المومنین (ع) کے خطبات، خطوط اور کلمات قصار پر مشتمل ایک مسودہ ہے، جس میں جناب امیر (ع) نے نبوت اور کار رسالت پر گفتگو کا ایک خاص اسلوب اپنایا۔ آپ نے متعدد خطبات میں انبیاء کی بعثت کے مقاصد، ان کی ضرورت اور اس بعثت کے اثرات پر گفتگو کی۔ اسی طرح جناب امیر (ع) نے رسالت مآب (ص) کی خدمات کا تعارف کروانے کے لئے بالعموم عالم انسانیت اور بالخصوص عرب معاشرے کی کیفیت و حالت کا بار بار تذکرہ کیا۔ امیر المومنین (ع) نے اپنے خطبات میں رسالت مآب (ص) کی شخصیت کے حوالے سے بہت سے ایسے شبہات کا جواب بھی دیا، جو بعد کی علمی مباحث میں پیش آ نے والے تھے۔ نہج البلاغہ کا پہلا خطبہ جو اپنے مطالب کے اعتبار سے ایک اہم تحریر ہے، میں جناب امیر (ع) نبوت کی ضرورت و اہمیت کو یوں بیان کرتے ہیں: واصطفی سبحانہ من ولدہ انبیاء اخذ علی الوحی میثاقھم و علی الرسالۃ امانتھم"اللہ نے (آدم) کی اولاد میں سے انبیاء کو منتخب کیا۔ وحی پر ان سے عہد و پیمان لیا، تبلیغ دین کا انہیں امین بنایا۔" کیونکہ
بدل اکثر خلقہ عھد اللہ الیھم،فجھلو حقہ،واتخذالانداد معہ و اجتالتھم الشیاطین عن معرفتہ واقتطعتھم عن عبادتہ"اکثر لوگوں نے اللہ کا عہد بدل دیا تھا، پس وہ اس کے حق سے بے خبر ہوگئے، اوروں کو اس کا شریک بنا ڈالا، شیاطین نے اس کی معرفت سے انہیں روگرداں اور اس کی عبادت سے الگ کر دیا۔"
 
لہذا بعث فیھم رسلہ و واتر الیھم انبیاء ہ لیستادوھم میثاق فطرتہ و یذکروھم منسی نعمتہ و یجتجوا علیھم بالتبلیغ و یثیروا لھم دفائن العقول و یروھم الایات المقدرۃ من سقف فوقھم مرفوع ومھاد تحتھم موضوع و معایش تحییھم اوجال تفنیھم واصاب تھرمھم احداث تتابع علیھم"(اللہ) نے ان میں اپنے رسول مبعوث کئے، مسلسل انبیاء بھیجے، تاکہ ان (مخلوق) سے عہد فطرت کو پورا کروائیں۔ انہیں بھولی ہوئی نعمات یاد دلوائیں، تبلیغ کے ذریعے ان پر حجت تمام کریں۔ ان کے لئے عقل کے دفینوں کو کھود نکالیں اور انہیں سروں پر بلند آسمان، پیروں کے نیچے بچھے فرش زمین، زندہ رکھنے والے سامان معیشت، فنا کرنے والی مصیبتوں، بوڑھا کرنے والی بیماریوں اور پے در پے آنے والے حادثات میں اللہ کی نشانیاں دکھائیں۔" امیر المومین (ع) اسی خطبے میں ان انبیاء کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: رسل لا تقصر بھم قلۃ عددھم ولا کثرۃ المکذبین لھم۔من سابق سمی لہ من بعدہ اور غابر عرفہ من قبلہ"ان انبیاء کو تعداد کی کمی یا جھٹلانے والوں کی کثرت درماندہ و عاجز نہیں کرتی تھی۔ ان میں کوئی سابق ایسا نہ تھا، جس نے بعد میں آنے والے کا نام و نشان نہ بتایا اور بعد میں آنے والا کوئی ایسا نہ تھا، جس کی پہچان پہلے والے نے نہ کروائی ہو۔"
 
الی ان بعث اللہ سبحانہ محمدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ لانجاز عدتہ تمام نبوتہ ماخوذا علی النبیین میثاقہ مشھورۃ سماتہ کریما میلادہ"یہاں تک کہ پاک و منزہ پروردگار نے ایفائے عہد و اتمام نبوت کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ کو مبعوث کیا۔ جن کے متعلق نبیوں سے عہد و پیمان لیا جا چکا تھا۔ جن کی علامات مشہور اور محل ولادت مبارک و مسعود تھا۔" امیر المومنین (ع) رسالت مآب کی آمد سے قبل انسانوں کے حالت اور کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: و اھل الارض (الارضین) یومئذ ملل متفرقہ و اھواء متشتتۃ و طریق (طوائف) متشتتۃ بین مشبہ للہ بخلقہ او ملحہ فی اسمہ او مشیر الی غیرہ"اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشر خواہشات اور الگ الگ راستوں پر گامزن تھے۔ اس طرح سے کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے، کچھ اس کے ناموں کو بگاڑ دیتے، کچھ اْسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کر تے تھے۔" بعثت سے قبل انسانی معاشرے کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:"اس دور فتن میں دین کے بندھن شکستہ، یقین کے ستون متزلزل، اصول مختلف اور حالات پراگندہ تھے۔ ان حالات سے بچ نکلنے کی راہیں مسدود تھیں۔ ہدایت ناپید اور گمراہی ہمہ گیر تھی۔ کھلے بندوں اللہ کے قوانین کی مخالفت ہوتی تھی۔ ایمان بے سہارا تھا۔ اس کے ستون منہدم ہوچکے تھے۔۔۔۔ ہر جانب شیطان کے پھریرے لہراتے تھے۔ دنیا ایک ایسا گھر تھی، جو خود اچھا لیکن اس کے رہنے والے برے تھے۔ عالم کے منہ میں لگام تھی جبکہ جاہل معزز و سرفراز تھا۔"
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔ 
 
خبر کا کوڈ : 762576
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش