1
0
Thursday 6 Dec 2018 02:54

گلی محلے کی لڑائیاں

گلی محلے کی لڑائیاں
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

کمزور اپنے اوپر ہی غصہ نکالتا ہے، اگر کوئی علمی و فکری طور پر کمزور ہو تو وہ اپنے گلی محلے والوں کی غیبت میں ہی سارا دن صرف کر دیتا ہے، جیسے جیسے انسان کی سوچ کا افق وسیع ہوتا جاتا ہے، اسکے دوستوں اور دشمنوں کی سطح بھی مختلف ہو جاتی ہے، ہم عموماً اپنے ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال میں پھنسے رہتے ہیں یا پھر دوسرے ممالک کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کے بیانات تک محدود رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے دشمن کی دشمنی ہماری حکومتوں یا سرحدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ دشمن تمام اسلامی ممالک، اسلامی ثقافت اور اسلامی تہذیب و تمدن سے بر سر پیکار  ہے۔ بدقسمتی سے ہم انتہائی محدود سوچ اور کمزور اطلاعات کی بنیاد پر تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں جبکہ ہمارے مخالفین تاریخی تناظر کے ساتھ تجزیہ اور پلاننگ کرتے ہیں۔ 11 ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد دنیا ابھی حالات کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہی تھی تو 16 ستمبر 2001ء کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے وائٹ ہاوس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس صلیبی جنگ (crusade)، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجنے جا رہا ہے اور امریکی عوام کو صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ میں بھی صبر کا مظاہرہ کروں گا، لیکن میں امریکی عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ثابت قدم ہوں اور پیٹھ نہیں دکھاؤں گا۔

اس دور میں ہم جب وقتی حالات کے تحت قومی فیصلے کر رہے تھے تو اس وقت مغربی و امریکی اقوام، تاریخی پسِ منظر کے ساتھ، ہمیں مسلمان سمجھ کر بحیثیت مسلمان ہمارا تعاقب کر رہی تھیں۔ مذہبی و دینی بنیادوں پر ہمارا تعاقب اس بات کی دلیل ہے کہ دشمن صلیبی جنگوں کو تسلسل کے ساتھ لڑ رہا تھا، یہ لڑائی کسی اسلامی حکومت تک محدود نہیں تھی بلکہ اس لڑائی میں ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کیا گیا، قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کیا گیا، نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنایا گیا، تعلیمی اداروں کو تباہ کیا گیا، سول شہریوں کو یرغمال بنایا گیا۔ اب تک صرف افغانستان میں سول شہریوں پر ٹنوں کے حساب سے بارودی مواد گرایا گیا۔ شام و عراق میں انفرااسٹریکچر کو تباہ کرنے کے بعد آثار قدیمہ تک کو منہدم کر دیا گیا، صلیبی جنگوں میں اس سے پہلے دشمن نے ہم پر ہر طرح کا حربہ آزمایا تھا، حتی کہ ایک صلیبی جنگ صرف بچوں کے ساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف لڑی گئی تھی۔ تاریخی اسناد کے مطابق 1212ء میں مسلمانوں خلاف  "بچوں کی صلیبی جنگ" لڑی گئی۔ مسیحی راہبوں کا کہنا تھا کہ بڑی عمر کے افراد گنہگار ہوتے ہیں، اس لئے ہمیں مسلمانوں پر فتح نصیب نہیں ہو رہی، جبکہ بچے معصوم ہوتے ہیں، انہوں نے معصوم بچوں پر مشتمل 37 ہزار کا ایک لشکر بنایا، جو فرانس سے روانہ ہوا۔ یہ لشکر بیت المقدس پہنچنے سے پہلے ہی نیست و نابود ہوگیا۔

اس طرح کے تجربے کرنے کے بعد اب دشمن ہمارے خلاف اپنے بچوں کے لشکر ترتیب نہیں دیتا بلکہ اب تو ہمارے ہی بچوں کو دہشت گردی کی ٹریننگ دے کر ہمارے اوپر خودکش حملے کرواتا ہے اور اب مسلمانوں کے خلاف جو لشکر ترتیب دیئے جاتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں صلیب نہیں بلکہ ایسا پرچم ہوتا ہے، جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہوتا ہے۔ دشمن قدیمی صلیبی جنگوں کے ذریعے تو ہم سے بیت المقدس کو نہیں لے سکا تھا، لیکن بعد ازاں نئی حکمت عملی کے ساتھ بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین چکا ہے۔ اس وقت اسرائیل کا وجود صلیبی ممالک کی حمایت کا ہی مرہون منت ہے۔ مسلمان ایک طرف طالبان، القاعدہ، داعش اور لشکر جھنگوی سے نبرد آزما ہیں اور دوسری طرف اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک سے پنجہ آزمائی کر رہے ہیں جبکہ صلیبی طاقتیں دونوں محازوں پر مسلمانوں کے خلاف کھل کر اسلام دشمن ممالک اور تنظیموں کا ساتھ دے رہی ہیں۔ حتی کہ اگر یمن میں ایک گھنٹے میں ایک بچہ بھوک سے مر جاتا ہے تو یہ سب بھی صلیبی طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

اس وقت مشرقی ممالک کا اقتصاد، کرنسی، سیاست، معدنی ذخائر، فوجی نقل و حرکت اور آبی وسائل ان سب پر امریکہ و مغرب کا کنٹرول ہے اور یہ مکمل کنٹرول انہوں نے صلیبی جنگوں کے تجربات کے بعد حاصل کیا ہے۔ لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی آج مکمل طور پر اسلامی دنیا پر حاکم ہے اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلمان دانشمند اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ امریکہ و مغرب کا انداز تفکر یہ ہے کہ وہ ساری دنیا کے مالک ہیں اور ساری دنیا انکی غلام ہے، لہذا غلاموں کے لئے وہ کسی احترام یا اخلاق کے قائل نہیں ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کے پھینکے گئے بم اس کی واضح دلیل ہیں اور اس کے علاوہ انہوں نے کس بے دردی سے فلسطینیوں کو بے گھر کیا ہے، شام کو کھنڈرات میں تبدیل کیا ہے، عراق کو تہس نہس کیا ہے اور افغانستان کو برباد کیا ہے، یہ سب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ امریکہ و مغرب کا کینہ حکومتوں تک محدود نہیں بلکہ ملتوں تک پھیلا ہوا ہے، یہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تو صرف اس کی حکومت کو ختم نہیں کرتے بلکہ اس کی ملت کو بھی تباہ کرتے ہیں اور ملتوں کی تباہی کے لئے فرقہ واریت، باہمی نفرت، علاقائی تعصب، فحش فلموں، اخلاقی فساد، جنسی بے راہروی، کلاشنکوف کلچر، اغوا برائے تاوان، اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ نیز منشیات تک کے حربے استعمال کرتے ہیں۔

امریکہ و مغرب کے حالیہ کنٹرول سے نجات کے لئے مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ گلی کوچے کی دوستی و دشمنی سے باہر آئیں اور عالمی اسلامی برادری کے تصور کے مطابق اپنے نفع و نقصان کا تعین کریں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم مسجد سے مسجد کے خلاف فتوے، مسلک سے مسلک کے خلاف کتابیں لکھنے اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگانے کے بجائے باہمی فاصلوں کو  مٹانے، مشترکہ دشمنوں کو پہچاننے،  اور آپس میں اخوت و رواداری کے فروغ کا خلوص دل سے قصد کریں۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہم بین الاقوامی آمریت کے دور میں جی رہے ہیں، ایسی آمریت جس میں  واضح طور پر یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ہماری اطاعت کرو، ہمارا ساتھ دو، نہیں تو ہم  تمہیں کھنڈرات میں تبدیل کر دیں گے۔ اس زمانے کا آمر جدید تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور وہ کمزور اقوام کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت کرنے پر آمادہ نہیں، ایسے میں اگر ہمارے دانشمند صرف اپنے اوپر ہی غصہ نکالتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو کوستے رہیں گے تو دشمن مزید طاقتور ہوتا جائے گا۔ ہمیں دشمن کی علمی و فکری طاقت کو سامنے رکھتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق مقابلے کی تیاری کرنی چاہیئے۔

ہماری تمام مسلمانوں خصوصاً علمائے اسلام سے اپیل ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ کو پہچانیئے، مسلمانوں کے تاریخی دشمنوں پر ایک نگاہ ڈالئے، دشمنوں کی سازشوں پر لبیک کہنے کے بجائے تجزیہ و تحلیل کے ذریعے سازشوں کو بے نقاب کیجئے، عالم اسلام کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کیجئے اور مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو ابھارنے کے بجائے وحدتِ اسلامی کے سورج کو طلوع ہونے دیجئے، اسی میں پورے عالم بشریت کی بھلائی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کمزور اپنے اوپر ہی غصہ نکالتا ہے، اگر کوئی علمی و فکری طور پر کمزور ہو تو وہ اپنے گلی محلے والوں کی غیبت میں ہی سارا دن صرف کر دیتا ہے، ہمیں اب گلی محلے کی سطح سے اوپر آنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 765172
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Atiqa Mohsin
Pakistan
بات تو سچ ہے لیکن بہت زیادہ علمی، تاریخی، تمدنی و فکری کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری پیشکش