0
Tuesday 18 Dec 2018 00:34

تبدیلی مگر شعور کیساتھ

تبدیلی مگر شعور کیساتھ
تحریر: ناصر رینگچن

Change.org ایک ایسی ویب سائٹ ہے جو 2007ء میں بنی تھی، ان کا ہیڈ آفس سان فرانسسکو کیلیفورنیا امریکہ میں ہے، اس کو تیز ترین سوشل ایکشن پلیٹ فارم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی سائٹ ہے جہاں پر مختلف این جی اوز، انسانی حقوق کی تنظیمیں مختلف حوالوں سے درخواستیں دائر کرتی ہے۔ یہ ویب سائٹ ان درخواستوں کو عوامی حلقوں تک پہنچاتی ہے اور ان درخواستوں پر عوامی رائے لی جاتی ہے۔ اس طریقے سے یہ درخواستیں سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جاتی ہیں اور اس کے جواب میں ایک زبردست ردعمل وجود میں آتا ہے، اس سائٹ سے اب تک مختلف تحریکوں نے جنم لیا ہے۔ اسی طرح کی ایک تحریک آج کل فرانس میں چل رہی ہے جس کو پیلی جیکٹ (Yellow Jacket) کا نام دیا گیا ہے۔ اگر ہم تاریخ دیکھیں تو یہ کوئی پہلی تحریک نہیں ہے، جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے جنم لیا ہو، اس سے پہلے بھی دنیا میں اسی طرح کی مختلف تحریکیں جنم لے چکی ہیں، جن میں سے بعض کامیاب ہوئی ہیں تو کچھ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے، مگر اس فضاء کو قائم کرنے والے اور اس ماحول کو بنانے والے دونوں صورتوں میں فائدے میں ہوتے ہیں۔

یہ رنگوں کی تحریکیں کافی پُرانی نہیں ہیں، لیکن ان کے پیچھے چھپے محرکات خطرناک ہیں، یہ تحریکیں سانپ کی طرح ہیں، جن کا ظاہر تو بہت خوبصورت اور ملائم ہوتا ہے مگر اس کا درون یا اس کے پیچھے موجود عزائم بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ اکثر ایسے واقعات کے پیچھے جنگ نرم کا کھیل ہوتا ہے اور عالمی طاقتیں اس کے ذریعے اپنے مفادات تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے لشکر معاشرے کے متوسط، حکومتی مظالم و معاشرتی ناانصافیوں میں پسے ہوئے طبقے ہوتے ہیں اور ان کا ہتھیار نہتے عوام کی خواہشیں اور ارمان ہوتے ہیں، جن کے وسیلے سے یہ لوگ اپنے اہداف تک پہنچتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اسی طرح کی کچھ اہم تحریکوں یا انقلابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ پیلا انقلاب، کوکونٹ انقلاب، ولویٹ انقلاب، بلڈوزر انقلاب، روز انقلاب، اورینج انقلاب، پرپل انقلاب، ٹولپ انقلاب، بلیو انقلاب، سبز انقلاب، جاسمن انقلاب، کافی انقلاب و۔۔۔ اس طرح کی تحریکوں اور انقلابوں میں شرکت کرنے والے عام اور پُرامن عوام خصوصاً کالج یونیورسٹی کے اسٹوڈنس ہوتے ہیں، ان کا کوئی ایک لیڈر نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات یہ ایک مسلسل تحریک یا پھر ایک تنظیم کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں، یہ لوگ مظاہرے ہڑتال وغیرہ کے ذریعے اپنے مطالبات کو حکمران حلقوں اور دنیا تک پہنچاتے ہیں، بعض اوقات یہ پرتشدد واقعات میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔

یہاں پر ایک اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کے اکثر مسائل میں مختلف عوامل و محرکات شامل ہوتے ہیں، اکثر اوقات اس طرح کے مسائل کو پیدا کرنے میں بیرونی ہاتھ شامل ہوتے ہیں، جو مختلف ذرائع سے اپنے کام انجام دیتے ہیں۔ مثلاً مختلف نظریات کے ذریعے، امداد کے ذریعے، انسانیت، حقوق بشریت، آزادی وغیرہ کے خوبصورت نعروں کے ذریعے یہ لوگ عام عوام میں یا جس جگہ کو ہدف بنایا ہے، وہاں اپنا نفوذ پیدا کرتے ہیں۔ آپ شام میں وائٹ ہیلمٹ کی تازہ مثال دیکھ لیں، جب شام میں جنگ شروع ہوئی تو یہ ادارہ ترکی میں بنا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک برطانوی ریٹائرڈ آفیسر ایک پبلک پلیس پر شام کے مسئلے کو توڑ موڑ کر بیان کرتا ہے، جب سادہ لوح عوام سوال کرتے ہیں کہ ہم کیسے اپنے شامی بھائیوں کی مدد کریں تو وہ اپنا آئیڈیا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو تم لوگ چندہ جمع کرو اور ایک فلاحی تنظیم کی شکل میں اس امداد کو شام تک پہنچا دو، اس کے لئے نام بھی تجویز کر دیتا ہے، لوگوں کو یہ بات پسند آجاتی ہے اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت کام شروع کر دیتے ہیں، یوں اس میں غیر ملکی امداد مختلف شکلوں میں شامل ہو جاتی ہے اور یہ غیر ملکی عناصر اپنے اصل ہدف پر کام شروع کر دیتے ہیں، جو سب عوامی نظروں سے دور مخفیانہ طریقوں سے انجام پاتے ہیں، وائٹ ہیلمٹ کے ذریعے کس طرح امریکہ و برطانیہ نے پروپگینڈا کیا اور کیسے دہشت گردوں کی مدد کی، یہ سب کے سامنے واضح ہے۔ یاد رہے اکثر ممالک میں غیر ملکی این جی اوز بھی اس طرح کے کاموں میں ملوث ہوتی ہیں۔

یلو جیکٹ کا معاملہ بھی کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک فرانسوی خاتون نے مئی 2018ء کو Change.org کی سائٹ پر ایک درخواست دائر کی، جس پر اکتوبر تک تین لاکھ دستخط مکمل ہوگئے تھے، اسی درخواست کو سامنے رکھ کر دو آدمی (جو اسی خاتون کے ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں) فیس بک پر 17 نومبر کو ایک مظاہرے کا انتظام کرتے ہیں، جس میں ان کا کہنا ہے کہ 17 نومبر کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور حکومتی معاشی پالیسیوں کے خلاف تمام سڑکوں کو بند کیا جائے گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ سوشل میڈیا پر اس قدر شور و غل مچاتے ہیں کہ ایک ایسا ملک جو اپنے آپ کو مہذب اور ترقی یافتہ صفوں میں شمار کرتا ہے، اُس ملک کی سڑکوں پر عوام کا سیلاب آمڈ آتا ہے۔ فرانس کی سڑکوں پر بچے، جوان، بوڑھے، مرد خواتین سب انصاف کی حصول کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس عوامی مظاہرے پر پولیس کی طرف سے شدید لاٹھی چارج، شیلنگ اور ربڑ کی گولیوں کا بے تحاشہ استعمال کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ویڈیوز بھی وائرل ہو رہی ہیں، جن میں پولیس کے ساتھ چھڑپیں، حکومتی مظالم اور مظاہرین کی جانب سے جلاو گھراو دیکھایا گیا۔ یہ مظاہرین پہلے سوشل میڈیا پر مظاہرہ کا دن اور وقت مقرر کرتے ہیں، پھر مختلف نعروں اور ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹر اور فیس بک پر ٹرینڈ چلاتے ہیں، پھر ہر ہفتے اور اتوار سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ مگر ابھی تک ان کا کوئی لیڈر یا منظم کرنے والا سامنے نہیں آیا ہے، لیکن مختلف تنظیموں نے ان کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے۔ یلو جیکٹ کہاں جا کر رکتا ہے؟ ان کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ ان کا اصل ہدف کیا ہے؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مجھے تو شام میں وائٹ ہیلمٹ کو بنانے والوں اور یلو جیکٹ کو شروع کروانے والوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
 
میرا یہاں پر ہمارے میڈیا پرسنز و سوشل ایکٹویسٹ حضرات سے یہ سوال ہے کہ جب کبھی کسی اسلامی ملک میں مثلاً شام، لیبیا، عراق، ایران یا وطن عزیز میں کوئی ایسا عوامی یا پرتشدد واقعہ رونما ہوتا ہے تو تمام عالمی طاقتیں اور شخصیات آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں کہ بھائی وہ دیکھو مسلمانوں کو، وہ دیکھو ان کے حکمرانوں کو، مسلمان شدت پسند ہیں، یہ لوگ جاہل ہیں، یہ لوگ مہذب نہیں ہیں، یا کہتے ہیں دیکھو مسلمان حکمرانوں کو یہ بڑے ظالم ہیں، عوام کو ان کے جائز حقوق نہیں دیتے، ان کو ایسا ہونا چاہیئے، ویسا ہونا چاہیئے، ان کے خلاف یہ ہونا چاہیئے، وہ ہونا چاہیئے۔ ساری دنیا کی چیخیں نکل رہی ہوتی ہیں، عالمی حقوق کی تنظیمں اور انسانیت کے نام نہاد علمبردار حکومتیں فوراً میدان میں کود پڑتی ہیں۔ مگر بات فرانس کی یا کسی یورپین ممالک کی آتی ہے تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے آخر کیوں؟ جب امریکہ کا دل کرتا ہے کسی بھی ملک کو اٹھا کر کسی بھی لسٹ میں ڈال دیتا ہے، ابھی کچھ دن پہلے پاکستان کو امریکہ نے مذہبی  آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کے لسٹ میں ڈال دیا تھا۔ اس کا جب دل چاہتا ہے، کسی بھی اسلامی ملک پر دہشت گردی کا الزام لگا دیتا ہے، کسی بھی ملک پر پابندیاں لگا دیتا ہے اور جب چاہے حملہ کر دیتا ہے، لیکن جب ان کے اپنے شہریوں کی حقوق کی بات آتی ہے تو ان کے منہ سے بات تک نہیں نکلتی۔ ان کی تو بات چھوڑیں، ہمارے وہ حضرات جو ہر وقت اپنی ہی برائیاں کرنے میں لگے ہوتے ہیں، آج وہ سارے لوگ بھی چپ کا روزہ رکھے نظر آتے ہیں۔

ہمارے اکثر لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس زمانے میں میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے، جس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، یہ گھروں سے لیکر ہماری جیبوں تک میں موجود ہے۔ ہم اپنا پیشتر قیمتی وقت اسی میڈیا پر ہی صرف کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا میدان جنگ ہے، جہاں اگر دشمن کی چالاکیوں کو نہیں بھانپ سکے تو شکست کھا جاتے ہیں۔ میری اس تحریر کا مقصد فرانس کے مظاہرین کی حمایت کرنا یا فرانسوی حکومت کی برائی کرنا یا ہمارے معاشرے میں رونما ہونے والے ہر واقعات کی حق میں بولنا نہیں ہے، بلکہ میڈیا اور دوسری چیزوں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو گمراہ کیا جاتا ہے، اس کی طرف توجہ دلانا ہے، عالمی طاقتیں مختلف حیلوں بہانوں سے ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ ہم اپنوں کے ہی خلاف ہو جاتے ہیں، ایسے دلائل اور وجوہات پیش کئے جاتے ہیں کہ ہم پس پردہ حقائق سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں۔ لہذا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنے آپ کو ہر طریقے سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ دشمنوں کی سازشوں کو سمجھ سکیں۔

ہمیں ہر وسائل سے استفادہ کرنا چاہیئے، لیکن آگاہی اور شعور کے ساتھ کیونکہ دشمن مختلف ذرایع سے ہماری صفوں میں داخل ہوتے ہیں اور ہمیں اپنے مقصد سے دور کر دیتے ہیں۔
آج کی اس تیز ترین دنیا میں انٹرنٹ کے بغیر زندگی ناممکن ہے اور سوشل میڈیا عوامی روابط و مسائل کے حل کیلئے ایک بہترین پیلٹ فارم ہے، مگر ان کے استعمال، ان کے فوائد، نقصانات اور اہداف سے سب کو باخبر ہونا چاہیئے، ہمیں فری میں وائی فائی ملنے پر پاگل نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ہر قدم کو سوچ سمجھ اور پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے، یہ ساری فری سائٹس اور فری ایپلیکیشنز ایسے ہی مفت میں نہیں دیتے ہیں، ان سب کے پیچھے ایک خاص مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔ ہمیں کسی کے خلاف بولنے اور کسی کی حمایت کرنے کے لئے صرف انٹرنٹ اور میڈیا پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئے بلکہ حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے، ہمارا معیار دلائل اور سچائی ہونا چاہیئے، نہ کہ کسی کی دی ہوئی ڈیکٹیشن یا بنائے ہوئے نعروں پر۔
خبر کا کوڈ : 767270
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش