0
Saturday 5 Jan 2019 13:44

شام سے امریکی افواج کا انخلاء کہیں ایران کو گھیرنے کی سازش تو نہیں؟(1)

شام سے امریکی افواج کا انخلاء کہیں ایران کو گھیرنے کی سازش تو نہیں؟(1)
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

شام سے امریکی فوجوں کے انخلاء کا مسئلہ اس وقت کے سیاسی منظر نامے پر توجہات کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ہر ایک اپنے اپنےحساب سے اسکا تجزیہ کر رہا ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ امریکہ نے شام  کے شمالی علاقوں کو ترکی کو ہدیہ کر دیا کہ وہ جمال خاشقجی کے مسئلہ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دے، تو کسی کا تجزیہ یہ ہے کہ امریکہ نے شام میں مسلسل فوجی مداخلت کے بعد اپنی ہار مان لی ہے، کچھ کا کہنا ہے اس فیصلہ کے پیچھے ٹرمپ اور اردغان کی ڈیل ہے تو کچھ کا کہنا ہے کہ بن سلمان کی جانب سے ۴ ارب ڈالر دیئے جانے کے بعد ہی ٹرمپ نے ایسا فیصلہ کیا ہے۔(1)  شاید یہ بات غلط بھی نہ ہو کیونکہ تاجر ذہن صرف یہ دیکھتا ہے اسکا زیادہ فائدہ کہاں ہو رہا ہے، ۴ ارب ڈالر کے بدلے 2000 فوجیوں کے انخلاء (2) کو دکھانے کے لئے ہٹا بھی لیا جائے تو سودا کیا برا ہے، جبکہ اسکے ذریعہ اور بڑا مقصد بھی حاصل ہو رہا ہو جس پر ہم آگے بات کریں گے کہ وہ ممکنہ بڑا مقصد کیا ہے جس کے پیش نظر اتنا بڑا فیصلہ لیا گیا کہ جسکے لئے وزیر دفاع جیمیس میٹس کی بھینٹ ضروری تھی۔  اگرچہ فوجیوں کے انخلاء کا فیصلہ بھی آسانی سے نہیں ہو سکا اور امریکی انتظامیہ میں کافی اختلاف رہا چنانچہ المانیٹر کی رپورٹ صحیح ہو تو  وزیر دفاع جیمز میٹس، وزیر خارجہ  مائیک پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے جب ایک مشترکہ ملاقات کی تو ہی فیصلہ کا اعلان ممکن ہوا، جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ ٹرمپ نے اس ملاقات کے بعد رات کو اپنے دماغ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی (3) جو ہر ایک تاجر کی طرح سامنے بڑا فائدہ دیکھتے ہوئے ذہن تک ہی رہی، یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ ذہنوں کو پڑھنے کا ہنر بھی جانتے ہیں اور انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ ایک تاجر صدر جمہوریہ کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔

بہرحال نتیجہ یہ ہوا کہ فیصلہ کا اعلان ٹویٹ کے ذریعہ ہو گیا، کچھ لوگوں نے اسکی زبردست مخالفت کی اور کچھ نے حمایت کی (4) اور اس کشمکش کے نتیجہ میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ مخالف اتحاد کے خصوصی ایلچی بریٹ مک گرک مستعفی ہوگئے۔ جہاں اس فیصلہ کو لیکر الگ الگ انداز میں تجزیوں اور تبصروں کا بازار گرم ہے، وہیں ٹرمپ  کے عجیب و غریب رویہ کے پیش نظر کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یوں تو سب کچھ سوچی سمجھی پالیسی کے تحت لگ رہا ہے لیکن کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا کہ کب بات بدل جائے بقولے "کوئی بھی یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا  کہ وہ کسی بھی لمحے میں، 3 بجے ٹویٹر کے ذریعہ اپنے فیصلہ سے واپسی کا اعلان نہیں کریں گے ".(5) لیسلی فونگ (LESLIE FONG) جیسے مبصرین امریکہ کے تاریخی سابقے کو دلیل بناتے ہوئے کہہ رہے ہیں کچھ بھی یقین سے کہنا مشکل ہے، کیونکہ بقول انکے امریکہ کا خطے میں وعدہ خلافی کا ایک طویل سابقہ رہا ہے۔ چنانچہ بہت سے ماہرین نے اس فیصلہ کو  دنیا میں امریکہ کے ناقابل اعتماد ملک کے طور پر ابھرنے والی تصویر کی صورت میں دیکھا ہے۔ جیسا کہ  مشرق وسطٰی انسٹیٹیوٹ کے ایک تجزیہ کار چارلس لیسسٹر نے کہا: "اس فیصلے سے دھوکہ دہی کو محسوس کرنا چاہیئے."(6) اس فیصلہ کے پیچھے کیا ذہنیت کار فرما تھی یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہاں پر چند چیزیں قابل غور ہیں:

1۔ اگر وہی کام جو امریکہ چاہتا ہے ترکی اسکی جگہ کرنے لگے اور اس بات کی یقین دہانی کرا دے کہ امریکی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا تو امریکہ کے لئے یہ ایک بہترین موقع ہوگا، کہ بغیر اپنے فوجیوں کے اور بغیر کسی جوکھم میں پڑے ہوئے کسی کو اجیر کر لے تاکہ خطے میں اسکے مفادات کی دیکھ بھال ہو سکے اور اتفاق سے ایسا بظاہر ہو ہی گیا، چنانچہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترک صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اردوغان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا ہے کہ "ترکی اس فیصلے کے مطابق اپنے نیٹو اتحادی ملک کو انخلاء کے لئے ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کے لئے تیار ہے اور اسی کے ساتھ صدر رجب طیب اردوگان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد طاقت کے توازن میں پیدا ہونے والے خلا کو روکنے پر اتفاق کیا ہے۔ اسکا سیدھا سا مطلب ہے کہ سب کچھ یوں ہی نہیں ہو گیا  جو کچھ ہوا ہے ایک سمجھوتے کی صورت میں ہوا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ سمجھوتے میں امریکہ نے اپنے شرائط نہ رکھی ہوں، اور بلا کسی سبب ترکی کو اختیار دے دیا ہو کہ شام کا یہ شمالی حصہ  تمہارا ہے جبکہ سب کو معلوم ہے کہ ترکی کی کردوں سے دشمنی کتنی پرانی ہے اور کس حد تک ہے۔ چنانچہ خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق کردوں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار متیولیو سیروگلو کا کہنا ہے کہ "امریکی انخلا سے ترکی کو راستہ مل جائے گا کہ وہ کردوں کے خلاف آپریشن شروع کرے اور اس طرح خونی جنگ کا آغاز ہوگا۔ ان تمام خدشات کے باجود شام سے نکلنا یوں ہی تو نہیں کہ اب تم دیکھ لو ہم یہاں سے نکل رہے ہیں، یہ تو ظاہری بات ہے جو میڈیا کے سامنے آئی ہے کہ داعش سے اب ترکی  حکومت نبٹ لے گی ہمارا کام ہو گیا۔ اب پردہ کے پیچھے کیا ہے یہ تو  دھیرے دھیرے  ہی سامنے آئے گا اگرچہ کچھ چیزیں پردہ کے باجود نظر آ رہی ہیں۔

2۔ جو بھی فیصلہ لیا گیا ہے اس میں اسرائیل کے مفادات کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے، چنانچہ اسرائیل نے کہا ہے کہ اسے بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے پاس خطے پر اثرانداز ہونے کے دیگر ذرائع ہیں لیکن وہ اس بات کا جائزہ لیتا رہے گا کہ یہ کیسے سب کیسے ہوگا  اور اس کے اسرائیل پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔(7) با این ہمہ اس فیصلہ کو لیکر اسرائیل میں زبردست خدشات موجود ہیں اور بات یہاں تک ہو رہی ہے کہ اگر منصوبہ بندی نہیں کی گئی تو مشرق وسطٰی کا نقشہ انکی منشاء کے خلاف تبدیل ہو سکتا ہے۔(8) یہی وجہ ہے کہ جب صہیونی حکومت کو اس فیصلہ کے سلسلہ سے تشویش لاحق ہوئی تو امریکہ کے بعض  عہدے داروں کے ساتھ  سب نے مل بیٹھ کر ایک بار پھر گفتگو کی اور جو بات سامنے آئی وہ یہ تھی  کہ "امریکہ ابھی بھی شام پر اثر انداز رہے گا یہ اور بات ہے کہ اسکا راستہ تبدیل ہو گیا ہے''۔ اسی کے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ شام میں ایران کی طرف سے انکے بقول جو پراکسی وار چھیڑی گئی ہے اسے یوں ہی نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔(9) دوسری طرف جان بولٹن کا وہ بیان کیونکر بھلایا جا سکتا ہے جس میں تین مہینے سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہا گیا تھا کہ جب تک خطے میں ایران موجود ہے، یہاں ہم بھی موجود رہیں گے۔ (10)

3۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ اس نے پہلے کتنی فنڈنگ کی ہے اور داعش کو پیروں پر کھڑا کرنے میں اسرائیل نے کیا کردار ادا کیا ہے، اب جو بات ظاہری دکھاوے کی ہے اور نظریاتی طور پر جو لڑائی خطے میں ہو رہی ہے اسکے پیش نظر خود اسکی خطے میں موجودگی اور اس موجودگی کا دم خم اب دنیا کو نظر آ رہا ہے، داعش کے پاس اسلحہ ہو یا انکے پاس جدید ٹیکنالوجی، ہر جگہ امریکہ کا ہاتھ نظر آ رہا ہے البتہ ممکن ہے امریکہ میں موجود بعض (11) یہودی لابیوں نے داعش کو اس طرح مدد فراہم کی ہو کہ حکومت کے ریکارڈ میں کچھ نہ ہو اور شام میں تعینات فوجی افسران بھی اس سے بےخبر ہوں، اسرائیل کے تحفظ اور حالیہ صوتحال کے پیش نظر اس وقت یہ امکان بھی ہے کہ  درپیش  ممکنہ گوریلا جنگ کی تیاری کی بھنک امریکہ کو لگی ہو اور وہ اس سے فرار کرنا چاہتا ہو جیسا کہ مبصرین نے بیان کیا ہے: "ایک حالیہ امریکی رپورٹ کے مطابق شام میں اس وقت دولتِ اسلامیہ کے تقریباً 14 ہزار شدت پسند ہیں جبکہ ہمسایہ ملک عراق میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے اور یہ خدشہ ہے کہ وہ اپنا نیٹ ورک دوبارہ بنانے کے لئے گوریلا جنگ کا سہارا لے سکتے ہیں(12)۔ اب ممکن ہے شام میں مسلسل ناکامیوں کے پیش نظر میدان جنگ کو تبدیل کرنے کی اسٹرٹیجی تیار کی گئی ہو اور یہ سب کچھ اسی کا حصہ ہو جیسا کہ سال کے آغاز میں عراق کا سفر کرنا اسی اسٹریٹیجی کی طرف ایک اشارہ ہے، یاد رہے کہ عراق میں تقریباً 5000 امریکی فوجی تعینات ہیں جو بظاہر عراقی حکومت کو شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں مدد فراہم کر رہے ہیں اور وہاں سے ابھی امریکہ کے نکلنے کا ارادہ بھی نہیں ہے(13)۔ دوسری طرف خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ نے خود ہی بہت کچھ اس جملے میں کہہ دیا کہ "ہم شام میں کچھ کرنا چاہتے ہیں" تو امریکہ عراق کو اگلے محاذ کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ (14)
(جاری ہے …)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
2۔ https://www.theguardian.com/commentisfree/2018/dec/21/trump-syria-withdrawal-us-troops
https://www.politico.com/story/2018/12/19/trump-threat-iran-syria-1070274
We have defeated ISIS in Syria, my only reason for being there during the Trump Presidency,”
6۔ https://www.politico.com/story/2018/12/19/trump-threat-iran-syria-1070274، https://www.al-monitor.com/pulse/originals/2018/12/us-state-department-syria-trump-withdraw-isis-iran.html
7 ۔ https://www.bbc.com/urdu/world-46607468
9۔ https://www.politico.com/story/2018/12/19/trump-threat-iran-syria-107027
12۔ https://www.bbc.com/urdu/world-46607468
13۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ کا عراق سے فوجیں واپس بلانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/world-46689982
خبر کا کوڈ : 770390
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش