0
Sunday 20 Jan 2019 11:05

سانحہ ساہیوال، پولیس کو جہادیوں سے پاک کرنا ہوگا

سانحہ ساہیوال، پولیس کو جہادیوں سے پاک کرنا ہوگا
 تحریر: ابو فجر لاہوری
 
ساہیوال میں ہونیوالا واقعہ سوشل میڈیا کی بدولت منظر عام پر آگیا اور پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ کی پوزیشن پر بھی پہنچ گیا۔ دوپہر 12 بجے ہونیوالا واقعہ شام تک پوری دنیا میں ہاٹ ایشو بن چکا تھا، یہ سب سوشل میڈیا کی بدولت ہی ہوا۔ سوشل میڈیا نہ ہوتا تو ممکن ہے کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہوتی اور سرراہ مرنے والے 4 انسانوں کا خون رائیگاں چلا جاتا، مگر راہگیروں کی جانب سے بنائی جانیوالی فوٹیج نے سی ٹی ڈی کی کارروائی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ معصوم بچوں کے سامنے جس انداز میں والدین کو قتل کیا گیا، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور اگر سی ٹی ڈی کے ان قاتل اہلکاروں کو سرعام پھانسی بھی دیدی جائے تو بھی بچوں کے ذہن پر نقش ہونیوالا واقعہ مٹایا نہیں جا سکتا۔ یہ بچے اس خوف سے باہر نکل بھی پائیں گے یا نفسیاتی مریض بن جائیں گے، یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا اور زخمی عمیر بڑا ہو کر دہشتگرد بنے یا مفید شہری اس حوالے سے بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

ساہیوال میں ہونیوالے اس واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں۔ جے آئی ٹی کے ارکان اس وقت پولیس ٹریننگ سنٹر چوہنگ پہنچ چکے ہیں، جہاں سی ٹی ڈی کے زیرحراست اہلکاروں کے بیانات قلمبند کئے جائیں گے۔ عینی شاہدین کے بیانات بھی قلمبند کر لئے گئے ہیں، جبکہ بہت سے عینی شاہدین مسافر تھے، جو اس وقت وہاں سے گزر رہے تھے۔ واقعہ کی منظر عام پر آنیوالی ویڈیو بھی جو اس وقت میڈیا پر وائرل ہے، بس کے کنڈیکٹر یا کسی مسافر نے بنائی ہے۔ وہ مسافر یا کنڈیکٹر اس وقت کہاں ہے، یا وہ گواہی بھی دے گا یا نہیں؟ اس کا کچھ علم نہیں۔ مگر یہ زمینی حقیقت ہے کہ ساہیوال میں جو ہوا وہ ظلم ہے اور سی ٹی ڈی کے اہلکاروں سے اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تفتیش کی جانا ضروری ہے۔ ملک کے ایک خفیہ ادارے نے بھی سی ٹی ڈی کے موقف کی حمایت کی ہے اور ذرائع کے مطابق ثبوت دیئے ہیں کہ یہ گاڑی جس پر سی ٹی ڈی نے فائرنگ کی ہے، داعش کے دہشتگردوں کے زیراستعمال رہی ہے۔ خفیہ ادارے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی کے پاس مصدقہ ثبوت ہیں، جنہیں وہ میڈیا میں اوپن نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ اگر یہ معلومات میڈیا میں منظر عام پر آتی ہیں تو دہشتگردوں کا جو نیٹ ورک اس وقت سکیورٹی اداروں کا نشانہ ہے، وہ لوگ روپوش ہوسکتے ہیں، جس سے آپریشن کی ناکامی کا خدشہ ہے۔
 
ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ سی ٹی ڈی نے یہ ثبوت جے آئی ٹی کو دینے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم کوشش کی جائے گی کہ جے آئی ٹی ان ثبوتوں کو منظر عام پر نہ لائے۔ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی رات گئے بریف کر دیا گیا تھا۔ خیفہ ادارے بھی سی ٹی ڈی کی حمایت کر رہے ہیں، کیونکہ بعض اطلاعات کے مطابق سی ٹی ڈی نے حساس ادارے کی رپورٹ پر ہی کارروائی کی ہے۔ اس میں دیکھنا یہ ہوگا کہ خفیہ ادارے نے کیا درست اطلاعات فراہم کی ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو خفیہ ادارے میں موجود افراد کو بھی شامل تفتیش کیا جانا چاہیئے۔ کیونکہ یہ 4 اہم ترین زندگیوں کا معاملہ ہے۔ سکیورٹی اداروں کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کریں۔ گاڑی سے برآمد ہونیوالے بیگز میں لواحقین کے بقول کپڑے تھے، جو انہوں نے شادی میں جا کر پہننے تھے جبکہ سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا کہ ان میں اسلحہ تھا، خودکش جیکٹس تھیں وغیرہ وغیرہ۔ حیرت ہے کہ شادی پر جانیوالے اپنے ساتھ خودکش جیکٹس لے کر جا رہے تھے؟ اب تو دلہا رضوان بھی منظر عام پر آچکا ہے، جس کی شادی میں شرکت کیلئے مقتول خلیل اپنے اہلخانہ کو لیکر جا رہا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ سی ٹی ڈی نے کی تھی، گاڑی سے کوئی فائرنگ نہیں کی گئی۔ یہاں اگر فی الوقت مان بھی لیا جائے کہ گاڑی میں سوار فیملی دہشتگرد تھی تو انہیں مارنے کا کیا جواز تھا؟ انہیں زندہ بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا۔  زندہ پکڑے جانے پر ان کے نیٹ ورک تک پہنچنے میں آسانی ہوتی، مگر غیر تربیت یافتہ اہلکاروں نے انہیں گرفتار کرنے کے بجائے موقع پر ہی مار دیا اور ماں نے اپنی جان دیکر اپنے بچوں کو بچا لیا۔ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں سابق دورِ حکومت میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے بہت سے کالعدم جماعتوں کے کارکنوں کو پولیس میں بھرتی کروایا تھا۔ ان میں بہت سے اہلکار سی ٹی ڈی میں بھی منتقل کئے گئے تھے۔ متعلقہ تحقیقاتی اداروں کو اس حوالے سے بھی تفتیش کرنا ہوگی کہ پولیس میں شامل کون کون سے لوگ کالعدم مذہبی جماعتوں کے کارندے تھے اور پولیس میں بھرتی ہوئے، کیوںکہ ماضی میں ووٹوں کے لالچ میں ایک کالعدم جماعت کیساتھ حکومت نے اتحاد کیا تھا اور اس اتحاد کے بدلے میں کارکنوں کو پولیس میں اس لئے نوکریاں دی گئی تھیں، کیونکہ وہ افغانستان سے تربیت یافتہ اور "جہاد" میں حصہ لے چکے تھے۔ انہیں اسی "قابلیت" کی بناء پر پولیس میں شامل کر لیا گیا۔

موجودہ حکومت کو پولیس میں ریفارمز کیساتھ ساتھ ان شدپ پسندوں کی بھی سکروٹنی کرنا ہوگی۔ اگر ایسے لوگ سکیورٹی اداروں میں رہے تو یہ اداروں کیلئے سکیورٹی رسک ہی رہیں گے، کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاون آج بھی پولیس کیلئے کلنک کا ٹیکہ بنا ہوا ہے۔ تاریخ کبھی بھی کسی کو معاف نہیں کرتی، یہ کیس موجود حکومت اور نئے پاکستان کی پولیس کیلئے بھی ٹیسٹ کیس ہے۔ آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی ایک ذمہ دار افسر ہیں۔ وہ یقیناً اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں اور دیکھنا بھی چاہیئے، عوام کی جانب سے احتجاج اور اشتعال پایا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے پاکستان میں پرانی پولیس میں شامل شدت پسندوں کیساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے، اگر حکومت غیر جانبداری سے کیس کو ڈیل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ ایک مثبت تاثر ہوگا اور اگر اس کیس میں بھی روایتی غفلت دکھائی گئی تو یہ 4 خون ماڈل ٹاون کے 14 خونوں پر بھاری پڑ سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 773103
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش