0
Thursday 14 Feb 2019 16:43

شام سے امریکہ کا ذلت آمیز انخلا

شام سے امریکہ کا ذلت آمیز انخلا
تحریر: ہادی محمدی

شام میں دریائے فرات کے مشرقی حصے میں امریکہ کی ترکی اور آخرکار تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے دردناک سودے بازی کے بعد اس ملک سے امریکہ کا بتدریج فوجی انخلا شروع ہو چکا ہے۔ امریکہ کا فوجی کانوائے حسکہ کے جنوب میں واقع شدادی فوجی اڈے سے عراقی سرحد کی جانب روانہ ہوا اور اس کا مقصد عراق میں موجود چند امریکی فوجی اڈوں تک پہنچنا تھا۔ ان فوجیوں کی کچھ تعداد صوبہ الانبار کے جنوب مغربی علاقے میں بغداد سے امان جانے والی سڑک کے راستے میں تعیینات کئے جائیں گے۔ دوسری طرف امریکہ اور داعش کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے کے تحت دریائے فرات کے مشرقی حصے میں واقع قصبے "باغوزہ" میں باقی بچ جانے والے امریکی فوجی بھی عراق کے اسی علاقے میں منتقل کئے جائیں گے۔ ان امریکی فوجیوں کو سعودی عرب اور اردن کی سرحد کے ذریعے عراق منتقل کیا جائے گا۔ وہ اس علاقے میں لاجسٹک سپورٹ کے محتاج ہوں گے تاکہ تیز رفتاری سے عراق کے مرکزی اور جنوبی حصوں میں منتقل ہو سکیں۔
 
امریکی حکام بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں بہت جلد عراق میں اپنی فوجی موجودگی کے خلاف اعتراضات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہذا انہوں نے ایران کے خلاف عائد کی گئی اقتصادی پابندیوں سے عراق سمیت کئی ممالک کو ایران سے تجارت کیلئے استثنا فراہم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ اس طرح عراق سے کم از کم مختصر مدت کیلئے شام سے عراق آنے والے فوجیوں کے قیام کی اجازت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف امریکی حکام اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ عراق پر حکمفرما پیچیدہ سیاسی اور سماجی فضا، عراق کی سیاسی جماعتوں کی صورتحال اور عراق کے اراکین پارلیمنٹ کے نقطہ نظرات کے تناظر میں وہ زیادہ عرصہ عراق میں فوجی موجودگی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ لہذا انہیں شام کے قصبے باغوزہ میں بھی ایک ایسے ہی سناریو کی ضرورت ہے جو انہوں نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف ایجاد کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ ابوبکر البغدادی کو گرفتار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور اس طرح کچھ حد تک اپنی شرمندگی کم کرنا چاہتے ہیں۔
 
اسی منصوبے کے تحت شام میں امریکی فوجیوں نے کرد فورسز کے پاس موجود داعش کے قیدیوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ امریکی فوجی ان قیدیوں میں سے بعض کو عراق کے صوبہ الانبار کے مغربی حصے جبکہ بعض دیگر کو عراق اور ایران کی سرحد پر واقع حمرین پہاڑی سلسلے میں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ داعش کے ان دہشت گردوں کو عراق اور عراق ایران سرحد منتقل کرنے کا ایک مقصد ان علاقوں میں بدامنی پھیلا کر اپنی فوجی موجودگی کا جواز فراہم کرنا ہے۔ امریکہ کے ان تمام شیطانی منصوبوں اور شیطنت آمیز اقدامات کے باوجود عراقی حکام سنجیدگی سے اپنے ملک سے امریکی فوجی انخلا کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ بہت جلد عراق سے بھی اپنے فوجیوں کا بڑا حصہ نکال کر کویت اور سعودی عرب میں موجود اپنے فوجی اڈوں میں منتقل کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ امریکہ کے اعلی سطحی فوجی کمانڈرز نے امریکی سمندری بحری بیڑوں کو درپیش خطرات سے خبردار کیا ہے جن کا بڑا حصہ بحرین میں تعیینات ہے۔ یہ وارننگ بھی اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ عنقریب خلیج فارس میں بھی اپنی فوجی موجودگی میں کمی کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔
 
دوسری طرف امریکہ کو اندرونی مشکلات کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑی مشکل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے۔ امریکہ اپنی خام تیل کی دررآمدات کا بڑا حصہ سعودی عرب سے حاصل کرتا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب گذشتہ چند برس سے بجٹ کے شدید خسارے کا شکار ہے جس کے تناظر میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت کو اندرونی سطح پر درپیش سیاسی اور اقتصادی مشکلات کے ساتھ ساتھ اس سال 80 سے 85 ڈالر فی بیرل کی خام تیل کی قیمت بھی برداشت کرنی پڑے گی۔ اسی طرح عرب ممالک سے بھتہ حاصل کرنے کے باوجود امریکہ کو اتنی وسیع سطح پر ملک سے باہر فوجی کی تعییناتی کے اخراجات پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں بھی طالبان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ اس تناظر میں خطے سے امریکہ کا فوجی انخلا اور نتیجتاً خطے میں اس کے اثرورسوخ میں شدید کمی ایک حتمی امر ہے۔ امریکہ کا شام سے فرار کے بعد اگلا مرحلہ عراق سے فرار ہے جس کے نتیجے میں عراق میں بھی امریکہ کی شیطنت آمیز موجودگی اختتام پذیر ہو جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 777985
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش