1
0
Sunday 3 Mar 2019 15:56

پاکستان کا موم بتی مافیا کہاں ہے۔۔۔۔!

پاکستان کا موم بتی مافیا کہاں ہے۔۔۔۔!
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان میں تین طرح کے طبقات ہیں، ایک طبقہ ایسا ہے جو غیر جانبدار ہے۔ وہ دایاں بازو  ہے نہ بایاں، بلکہ وہ اپنی زندگی جی رہا ہے۔ یہ طبقہ باقی دو طبقوں کے درمیان ہونیوالی "جنگ" سے بھی لاتعلق رہتا ہے۔ اس کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ دائیں بازو والے اقتدار میں آگئے ہیں یا بائیں والے۔ یہ بس صبح اٹھتا ہے، کام کاج کرتا ہے اور شام کو اپنے بستروں میں گھس جاتا ہے۔ صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے، عمر یونہی تمام ہوتی ہے، کے مصداق یہ طبقہ بس صبح شام کرنے کیلئے ہی مصروف ہے۔ اس کی غیر جانبداری اس طبقے کے اپنے معاملات کی وجہ سے ہے۔ یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ جیسے تیسے حالات بھی ہوں، زندگی کی گاڑی کو دھکا تو ہم نے خود ہی لگانا ہے، اس لئے خاموشی سے اپنے کام سے کام رکھو اور زندگی گزار دو، جو پارٹی اقتدار میں آجائے، یہ طبقہ اسی کی ہاں میں ہاں ملا لیتا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے، جو محبِ وطن ہے، جو روزِ اول سے دو قومی نظریئے پر کاربند ہے اور پاکستان کے تمام مسائل کا حل قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات کی روشنی میں ڈھونڈتا ہے۔

یہ طبقہ "دائیں بازو والے" یا "رائیٹسٹ" کہلاتا ہے، یہ طبقہ پاکستان کے قیام کے مقاصد کو لے کر ہی اسے ترقی کے زینے طے کرتا دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ طبقہ ایسا ہے، جو انڈیا کیساتھ بہتر تعلقات کا سوچتا بھی نہیں، اس طبقے کا خیال ہے کہ انڈیا ہمارا فطری دشمن ہے، جو کبھی بھی ہمارا دوست نہیں بن سکتا۔ یہ طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر ہندو ہمارا دوست ہوتا اور ہمارے ساتھ بہتر انداز میں زندگی گزار سکتا ہوتا، تو ہمیں کسی طور بھی پاکستان بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی، ہم نے پاکستان صرف اس لئے بنایا تھا کہ ہمارا ہندووں کیساتھ گزارا ناممکن تھا۔ ہندو ہمیں شودر سے بھی کم تر سمجھتے، ہندووں میں ذات پات کا یہ سسٹم مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رہا تھا۔ یہ طبقہ کہتا ہے کہ ہم گائے کا گوشت کھاتے ہیں، جبکہ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں۔ انڈیا میں آج بھی گاو رکھشہ کے نام پر مسلمانوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔ اس طبقے کا خیال ہے کہ ہمارا دین، ہماری ثقافت، ہمارا کلچر سب کچھ ہندووں سے جدا ہے اور یہی امتیاز ہمیں ان سے الگ تھلگ کرتا ہے اور اسی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا تھا اور اب اگر پاکستان کا دفاع کرنا ہے تو دو قومی نظریہ اور قائداعظم کے افکار کی روشنی میں ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، جس میں انڈیا کیساتھ بہتر تعلقات کی کوئی گنجائش نہیں، البتہ "جیو اور جینے دو" کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنے اپنے وطن میں اپنی اپنی زندگی بہتر انداز میں جی سکتے ہیں۔

پاکستان میں دوسرا طبقہ سیکولر طبقہ ہے۔ اسے لفٹسٹ بھی کہتے ہیں۔ یہ طبقہ دو قومی نظریہ کی چھپ چھپا کر مخالفت کرتا ہے۔ اس نظریئے کا خیال ہے کہ چلیں ٹھیک ہے، اس زمانے کی ضرورت کی تحت پاکستان بن گیا، سو بن گیا، مگر اب ہم انڈیا کیساتھ دوستانہ انداز میں رہ سکتے ہیں۔ اس طبقے کا خیال ہے کہ ہم میں اور انڈیا میں بہت سی چیزیں مشترک بھی ہیں، ہم فنون لطیفہ کے شعبہ میں ایک دوسرے کیساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔ ہم فلمیں بنا سکتے ہیں، ہمارے گلوکار ایک دوسرے کے ملک آجا سکتے ہیں۔ یہ طبقہ فوج کا بھی مخالف ہے، کہتا ہے کہ خطے میں پاک فوج ہی امن نہیں چاہتی، خطے میں خوشحالی اسی صورت میں آسکتی ہے کہ دونوں ملک دوست بنیں۔ ادبی سرگرمیاں ہوں۔ یہ طبقہ پاکستان میں شدت پسندی کی بنیادی وجہ نصابِ تعلیم اور ہماری درسی کتب کو قرار دیتا ہے اور گذشتہ عرصہ میں "مطالعہ پاکستان" کی اصطلاح بطور طنز استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ اسلامی سوچ بھی پاک بھارت تعلقات میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس طبقے کے خیال میں پاکستان میں کیونکہ جمہوری تسلسل بھی نہیں رہا، اس وجہ سے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات دگر گوں رہے ہیں۔ اگر بار بار اقتدار پر فوجی ڈکٹیٹر قبضہ نہ کرتے تو ملک ترقی بھی کرچکا ہوتا اور بھارت کیساتھ ہمارے تعلقات بھی "مثالی" ہوتے۔

اس طبقے کو موم بتی مافیا بھی کہتے ہیں۔ یہ طبقہ ہر موقع پر فوج پر تنقید کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اس طبقے نے ہمیشہ بھارت کو اعتدال پسند اور جمہوری ملک قرار دیا ہے۔ یہ طبقہ کہتا تھا کہ بھارت میں تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی ہے، مسلمان بھی خوشحال ہیں اور سکھوں، عیسائیوں کو بھی ان کے حقوق حاصل ہیں۔ یہاں تک کہ یہ طبقہ اپنی نجی محافل میں یہاں تک کہہ جاتا ہے کہ پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہی غلط تھا۔ اس طبقے میں اکثریت نے کالم اور بلاگز لکھ لکھ کر اور اپنی الگ سے ویب سائٹس بنا کر اپنے نظریات کا خوب پرچار کیا۔ اپنے کالموں اور بلاگز میں یہی سوچ پروان چڑھائی اور پاکستان کے اندر رہ کر بھارت کی خوب سفارتکاری کے فرائض سرانجام دیئے۔ مگر اب، جب پلوامہ کا واقعہ رونما ہوا اور بھارت نے ردعمل میں سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا، بھارتی میڈیا ایک دم تلوار ہاتھ میں سونت کر پاکستان کے پیچھے ہی پڑ گیا، گھس جاو، مار دو، جلا دو، جیسی آوازیں بھارتی میڈیا سے اٹھنے لگیں اور ہندو بنیئے کی اصل ذہنیت کھل کر سامنے آئی تو یہ ہمارا یہ موم بتی مافیا بھی اچانک غائب ہوگیا۔

اب یہ نام نہاد دانشور کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ بھارت کی جانب سے دراندازی ہوئی، بھارت نے 300 دہشتگرد مارنے کا دعویٰ کیا، مگر یہاں ضرورت تھی کہ یہ موم بتی مافیا اُٹھتا، بالا کوٹ کے علاقے جابہ میں جاتا اور دیکھتا کہ کہاں جیش محمد کا ٹھکانہ تباہ ہوا ہے۔ مگر کسی میں اتنی جرات نہ ہوئی، البتہ اس طبقے کی ایک خاتون رپورٹر جو برطانوی نشریاتی ادارے سے وابستہ ہے، وہ وہاں پہنچی، ہزار کوشش کے باوجود وہ کوئی ثبوت نہ ڈھونڈ سکی۔ اس خاتون رپورٹر نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مقامی لوگوں کے منہ سے زبردستی اپنے "مقصد" کی باتیں اگلوانے کی سر توڑ کوشش کی، مگر اسے ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملا، ملتا بھی تو کیسے، جب زمینی حقائق بتا رہے تھے کہ وہاں صرف درخت متاثر ہوئے ہیں اور ایک کوا مرا ہے، ناکامی سے موصوفہ دچار ہوئی تو اپنا سا منہ لیکر واپس اسلام آباد آگئی۔ اب یہ موم بتی مافیا سکرین سے غائب ہے۔ اس مافیا کے پاس بھارت کی جارحیت، ہندو شدت پسند ذہنیت، بھارتی میڈیا کے جنگی جنون کی کوئی "جسٹی فکیشن" نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ موم بتی مافیا منظر سے ایسے غائب ہے، جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
خبر کا کوڈ : 781138
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
زبردست
ہماری پیشکش