0
Sunday 12 May 2019 00:48

شیعہ ملک دشمن نہیں ہیں

شیعہ ملک دشمن نہیں ہیں
تحریر؛ قسور عباس
 
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
وطن عزیز پاکستان کی تشکیل میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، تمام مسالک کے مسلمان تحریک پاکستان کا اہم حصہ رہے۔ اہلسنت بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، اثناء عشری، اسماعیلی حتٰی کہ احمدی بھی اس تحریک میں پیش پیش تھے۔ یہ تحریک ایک شیعہ اثناء عشری رہنما کی قیادت میں اپنی منزل سے ہمکنار ہوئی۔ ملک مسلکی امتیازات کے ساتھ نہیں بلکہ اسلامی اخوت کے جذبے کے تحت حاصل کیا گیا۔ اس نئی ریاست کی معیشت کو مضبوط بنانے اور وسائل کی کمی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی برصغیر کے مسلمانوں نے ایثار و قربانی کی وہ مثالیں قائم کیں، جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ راجہ صاحب آف محمود آباد جو شیعہ اثناء عشری مسلک کے ایک فرد تھے، انہوں نے اپنی تمام جائیداد پاکستان کی معیشت پر قربان کر دی اور خود لندن میں ایک دو کمرے کے فلیٹ میں رہنے لگے۔ کراچی کی خوجہ کمیونٹی کا حبیب گروپ جو اس وقت ایک بڑا سرمایہ کار گروہ تھا، اس نے قائداعظم کے کہنے پر پاکستان میں بینکنگ کا نظام قائم کیا۔ اصفہانی برادران نے قائداعظم کے حکم پر پہلی پاکستانی ائیر لائن کمپنی کے لیے وسائل مہیا کیے۔ یہ سب کچھ اس عظیم خواب کے لیے کیا گیا، جو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے مل کر دیکھا تھا۔
 
انگریزوں اور ہندوئوں نے تقسیم پاکستان کے وقت ہمیں جو وسائل دیئے، وہ ایک ریاست کو چلانے کے لیے کسی طور بھی کافی نہ تھے۔ ان کا خیال ہوگا کہ جلد ہی یہ ریاست معاشی مسائل کے سبب ہندوستان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی۔ تاہم قائداعظم کی بے لوث قیادت اور ان کے ساتھیوں کی عظیم قربانیوں کے طفیل پاکستان اس مشکل گھڑی سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ ہمیں فقط ایک ریاست نہیں چلانی تھی بلکہ ہم پر لاکھوں پناہ گزینوں کا بوجھ بھی آن پڑا تھا، جن کی آبادکاری، ان کو وسائل زندگی مہیا کرنا ایک بڑا ریاستی چیلنج تھا۔ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ہم اپنی ترقی کا انتظار کرتے، ہمیں فی الفور اپنے دفاع اور ملکی امور کو جاری و ساری رکھنا تھا۔ یہ سب کچھ انہی وسائل سے ہوا جو قائداعظم کے باوفا ساتھیوں نے مملکت عزیز کے لیے وقف کیے۔ قربانی کی اس لہر میں وطن عزیز کے دوسرے حلقوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، تاہم شیعہ اثناء عشری شخصیات کا حصہ اس میں سب سے زیادہ تھا، جو ایک تاریخی حقیقت ہے۔
 
پاکستان کی تشکیل اور اس ملک کی تعمیر و ترقی میں شیعہ مسلمانوں کا کردار شاید جان بوجھ کر نسل نو سے پنہاں رکھا جاتا ہے اور اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ اس مسلک کے افراد کو ملک دشمن ثابت کرنے کے لئے اداروں میں چھپے بعض عناصر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد اپنے عروج پر پہنچا۔ قائداعظم محمد علی جناح، محترمہ فاطمہ جناح، راجہ صاحب آف محمود آباد، اصفہانی برادران، راجہ غضنفر علی خان کو تو ہم ایران نواز یا ملک دشمن نہ کہ سکے، تاہم ان کے ہم مسلک افراد کے ساتھ جان بوجھ کر وہ رویہ رکھا گیا، جو کسی بھی وطن دشمن کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل یحیٰ خان، فیلڈ مارشل سکندر مرزا اسی مسلک کے فرزند تھے۔ ایس ایس جی کے بانی برگیڈیئر طارق، مسلح افواج کے کئی ایک کلیدی عہدیداران، سول سروس کے افسران، بڑے تجارتی گھرانے جنھوں نے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنی تمام تر صلاحیات کو وقف کیا، سبھی کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا۔
 
وطن کے لیے اپنا تن من دھن لگانے والے اس گروہ کے افراد پر جب وطن دشمنی کا الزام آئے تو میرے خیال میں اس سے بڑی گالی اور توہین ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ شیعہ مسلک کے افراد نے سینکڑوں کی تعداد میں قتل کیے جانے کے باوجود ریاست کے خلاف ایک روز بھی حرف شکایت زبان پر نہیں لایا۔ اپنے احتجاج کو فقط حقوق کی بازیابی تک محدود رکھا، ہمیشہ آئین و قانون کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔ پرامن احتجاج کے علاوہ کسی دوسری راہ کا انتخاب نہ کیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمیں اس ملک میں اپنے معدوم کیے جانے کا خوف لاحق ہے۔ کراچی شہر میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے شیعہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے ایم کیو ایم اور اس جیسی تنظیموں کو وجود بخشا گیا۔
 
نہ جانے وہ کون لوگ ہیں، جو ریاست بنانے والوں، اس کی خاطر جان و مال کی قربانی دینے والوں کو ریاست کا دشمن تصور کرتے ہیں۔ اتنی سی بات انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اگر خدانخواستہ اس مسلک کے افراد میں ریاست کے بارے میں ذرا سی بھی تشویش ہوتی تو اپنا سب کچھ اس پر قربان کرنے کے لیے آمادہ کیونکر ہوتے۔ پاکستان کی تاریخ اور اس مسلک کے پاکستان کی تشکیل کے لیے کردار سے لاعلم گروہ، جو نہ جانے کیسے اس پاک سرزمین کے اہم اداروں تک پہنچ گیا اور اس نے شیعہ کشی کے لیے کمر باندھ لی۔ ہم نے پاکستان بنایا ہے، ہمیں ملک کے کسی بھی ادارے سے اپنی حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ درکار نہیں ہے۔ اگر ہم پاکستان کی تشکیل کے لیے اپنے اہل سنت اور دیگر پاکستانی برادران کے ساتھ اپنا سب کچھ قربان کرسکتے ہیں تو اس کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں۔
 
انقلاب اسلامی ایران کے دوران میں شیعہ مسلک کے افراد کا جھکائو اس انقلاب کی حمایت میں ہونا ایک بدیہی امر تھا۔ اس کا سبب مسلک نہیں بلکہ وہ اساسی دینی تعلیمات ہیں، جو دنیا بھر کے اہل تشیع اور دیگر مسلمانوں کے مابین مشترک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں انقلاب اسلامی ایران کی حمایت میں سب سے پہلی آواز مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے بلند کی اور اس آواز کے بلند کرنے کے جرم میں ان کو سزا بھی ہوئی۔ ایران میں تو ہمیشہ سے تشیع ہے، شاہ ایران بھی شیعہ راہنما تھا، تاہم اس وقت پاکستانی شیعوں نے شاہ ایران کے اقدامات کی حمایت نہ کی، کیونکہ اس کے اقدامات شاہی اقدامات تھے، نہ کہ دینی و مذہبی۔ پس پاکستانی شیعہ کا ایرانی انقلاب کے ساتھ رشتہ مسلکی نہیں بلکہ دینی ہے۔ پاکستان کا شیعہ جتنا انقلاب اسلامی ایران کا حامی ہے، اس سے زیادہ مسئلہ فلسطین میں فلسطینیوں کا حامی ہے۔
 
شیعہ مسلک کے افراد کو ایرانی ریاست کی پراکسی قرار دینا اور انہیں ریاست کا دشمن تصور کرنا ایک ایسا ظلم عظیم ہے، جس کی تکلیف کو صدیوں تک فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ریاستی ادارے جب ظاہری مظاہر کو سامنے رکھتے ہوئے اقدام کرنے لگیں تو یہ اقدامات ان کی اہلیت اور کارکردگی پر سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔ ہمارے نوجوان اگر جذبات میں آکر ایرانی مذہبی راہنمائوں کی تصاویر اٹھا کر سڑکوں پر نکل کھڑے ہوں، یا ایرانی پرچم اٹھائیں یا کسی اور اسلامی تحریک کے جھنڈے اٹھا کر اس تحریک کے ساتھ اپنی ہمدردی یا وابستگی کا مظاہرہ کریں تو اس سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ وہ نعوذباللہ پاکستان کے دشمن ہیں، یا اس ریاست کو اپنی ماں کا درجہ نہیں دیتے۔ ان نوجوانوں کے یہ اقدامات دینی جذبے کے تحت ہیں، انھیں نہیں معلوم کہ ریاستی اداروں میں موجود بعض لوگ ان کے جذباتی اقدامات کو وطن دشمنی یا غداری تصور کر رہے ہیں۔
 
مجھے کہنے دیجیے کہ ان نوجوان کے ان جذباتی اقدامات کو بہانہ بنا کر ہمارے ریاستی اداروں میں بعض حلقوں نے شیعہ مسلک کے افراد کو پاکستان کا دشمن تصور کرنا شروع کر دیا ہے۔ جنرل سکندر مرزا اور جنرل یحیٰ خان کے بعد آپ کو پاکستان کی تاریخ میں کوئی شیعہ شخص چیف آف آرمی سٹاف نہیں ملے گا، کیا یہ محض اتفاقی ہے؟ کیا شیعہ مسلک کی مائوں نے جرنیل پیدا کرنے چھوڑ دیئے۔؟ شیعہ جوان جہاد افغانستان، جہاد کشمیر اور دیگر پرائیویٹ جہادوں میں اس طرح سے جوق در جوق شریک نہ ہوئے، جیسے دیگر مسالک کے لوگ شامل رہے، تاہم جب معاملہ خاندان اہل بیت ؑ کے مزارات پر حملوں کا ہوا تو یہ شیعہ جوانوں کی دینی غیرت کا تقاضا تھا کہ وہ اگر استطاعت رکھتے ہوں تو ان مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو وقف کریں۔ یہ سراسر مذہبی معاملہ ہے، جس کو سیاسی یا پراکسی کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے روضہ اقدس کی حفاظت کے لیے جانا شیعہ مسلمانوں کے نزدیک ایسا ہی ہے، جیسے کوئی شخص مسجد نبوی کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دے۔ بی بی زینب کا حرم، حرم رسول اللہ ؐ ہے۔ ریاستی ادارے جو ان شیعہ نوجوانوں کے وہاں جانے سے پریشان ہوئے ہیں، انہیں دیکھنا یہ چاہیئے کہ اگر کوئی یہ فریضہ انجام دینے کے بعد ملک میں آکر غیر قانونی سرگرمیاں کر رہا ہے تو اسے قانون کے دائرے میں سزا دیں۔ نہ یہ کہ اس فریضہ کی انجام دہی کو ہی جرم تصور کریں اور ان نوجوانوں کو اٹھا کر پورے شیعہ مسلک کے خلاف جنگ کا سامان پیدا کر دیں۔
 
ریاست کو اپنی رعایا کے ساتھ ماں سا سلوک کرنا چاہیئے، وطن عزیز میں جہادی لشکروں کی کمی نہیں ہے۔ اگر ریاست آئین و قانون کی خلاف ورزی نہ کرنے والے ان تربیت یافتہ مجاہدین کو برداشت کر رہی ہے، ان کی سیاسی تنظیموں اور فعالیتوں کے خلاف اقدام نہیں کرتی تو اسے ان مٹھی بھر افراد کو بھی برداشت کرنا چاہیئے، جو ایک دینی فریضہ کی ادائیگی کے لیے چند ماہ ملک سے دور رہے، اگر وہ رہے ۔۔۔۔ اور وہ ملک کے آئین و قانون کو تسلیم کرتے ہیں اور لاقانونیت کا سبب نہیں بن رہے۔ شام جانے والے تو اپنی جگہ ملک میں فلاحی کام کرنے والے افراد کا غائب ہونا نہایت تشویشناک ہے، جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سب کسی بیرونی اشارے پر ہو رہا ہے، تاکہ شیعہ مسلک کو پاکستان میں دیوار کے ساتھ لگایا جاسکے۔ ان کے لیے دہشت و وحشت کی فضاء پیدا کی جائے۔ قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ اور اب یہ جبری گمشدگیاں نیز اس سب پر ملکی میڈیا کی خاموشی ان شبہات کو مزید تقویت دیتا ہے۔ ان سب امور پر ذمہ دار افراد کو نوٹس لینا چاہیئے، تاکہ ملک میں بے چینی کی فضاء کا خاتمہ ہو۔(وما علینا الا البلاغ المبین)
خبر کا کوڈ : 793698
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش