0
Saturday 28 Sep 2019 13:03

مقبوضہ کشمیر میں زندگی پوری طرح مفلوج

مقبوضہ کشمیر میں زندگی پوری طرح مفلوج
رپورٹ: جے اے رضوی

مقبوضہ کشمیر بھر میں سخت ترین بندشوں اور مواصلاتی بریک ڈاؤن کے نتیجے میں یہاں عام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ آج مسلسل 55 ویں روز بھی کاروباری ادارے بند رہے، پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہا جبکہ حکومتی اور نجی اداروں میں ملازمین کی حاضری بھی متاثر رہی۔ مقبوضہ کشمیر کے بیشتر علاقوں میں کٹھ پتلی انتظامیہ نے لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کیا، شہر خاص کے دس پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں کی تمام سڑکوں کو پولیس و بھارتی فورسز نے خاردار تار سے سیل کرکے لوگوں کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ کل آٹھویں جمعہ کو بھی تاریخی جامع مسجد کے ممبر و محراب خاموش رہے اور کسی ایک نمازی کو بھی جامع مسجد جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کشمیر بھر میں اسکولوں اور کالجوں میں درس و تدریس کا کوئی کام نہیں ہوا، موبائل، انٹرنیٹ اور براڈ بینڈ سروس بدستور معطل رہی اور لوگ اپنے گھرں میں محصور کردیئے گئے۔

5 اگست کے بعد سے لگاتار مقبوضہ کشمیر بھر میں عام زندگی متاثر رہی، موبائل، انٹرنیٹ اور براڈ بینڈ سہولیات دستیاب نہیں تھی، جس کے نتیجے میں لوگوں کو مواصلاتی رابطہ قائم کرنے میں دشواریاں پیش آرہی ہے جبکہ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے طلاب، مالیاتی ادارے، اخباری دفتروں، خبر رساں اداروں کو بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی پابندی کی وجہ سے زندگی کا ہر ایک شعبہ بری طرح سے متاثر ہوکر رہ گیا ہے۔ عام لوگوں کو بالعموم جبکہ طلباء، کاروباری افراد اور صحافیوں کو بالخصوص شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ طلباء نے بتایا کہ انٹرنیٹ کی لگاتار معطلی سے ان کی پڑھائی بری طرح سے متاثر ہوئی ہے اور وہ کسی بھی سکالر شپ اسکیم یا کسی بھی ملکی یا غیر ملکی یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے آن لائن فارم جمع کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ نوجوان جو روزگار کی تلاش میں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ نوکریوں کے لئے آن لائن فارم جمع نہیں کر پاتے ہیں۔

گذشتہ دو ماہ سے جاری پابندی کے باعث لوگ سخت ترین مشکلات سے دوچار ہیں۔ کشمیری عوام کے لئے اپنے پیاروں سے جو بیرون ریاست یا بیرون ہندوستان زیر تعلیم اور نجی کمپنیوں میں نوکریاں کر رہے ہیں ان کے ساتھ  بات کرنا انتہائی دشوار بن گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کٹھ پتلی حکومت کی جانب سے اگرچہ روز بروز پریس کانفرنسوں کے ذریعے اس بات کا خلاصہ کیا جا رہا ہے کہ حالات معمول کی طرف پلٹ رہے ہیں اور موبائل و انٹرنیٹ خدمات جلد بحال کی جائے گی، لیکن زمینی سطح پر سب کچھ اس کے برعکس چل رہا ہے۔ ایک نجی نیوز چینل نے کشمیری عوام کے لئے ایک سہولیت کھول رکھی ہے، جس سے وہ ٹی وی چینل پر اپنے گھر والوں کے ساتھ ویڈیو اور آڈیو پیغامات شیئر کرسکتے ہیں، جس سے وادی کے عوام کو کچھ راحت مل رہی ہے۔ موبائل و انٹرنیٹ بریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ کئی علاقوں مین ابھی بھی لینڈ لائن سہولیات بھی بحال نہیں کی گئی ہیں۔

تازہ صورتحال کے بعد ایک قومی خبر رساں ادارے کے مطابق وادی کشمیر میں قائم حکومتی مواصلاتی کمپنی بھارت سنچار نگم لمیٹیڈ نے نئے سم کارڈوں کی فروخت کا عمل شروع کر دیا ہے، جس سے اشارہ مل رہا ہے کہ شاید آنے والے دنوں میں بی ایس این ایل موبائل سروس شروع کی جائے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق کمپنی نے مبینہ طور پر اب تک ہزاروں کی تعداد میں نئے سم کارڈ اجراء کرکے لاکھوں روپے کما لئے ہیں۔ اب یہ سم کارڈ کب چالو ہوں گے، نہ بی ایس این ایل حکام اور نہ گاہکوں کو اس کی کوئی اطلاع ہے۔ یہ کرشمہ ان افواہوں کا ہے، جن کے تحت یہ کہا گیا تھا کہ لینڈ لائن کے بعد بی ایس این ایل سم کارڈ چالو ہونگے۔ قابل ذکر ہے کہ کٹھ پتلی حکومت نے وادی کشمیر کے بیشتر حصوں میں بی ایس این ایل کی لینڈ لائن فون خدمات تو بحال کی ہیں، تاہم موبائل فون اور ہر طرح کی انٹرنیٹ خدمات بدستور منقطع رکھی گئی ہیں۔

لوگ یہ امید کر رہے تھے کہ 27 ستمبر کو یو این جنرل اجلاس کے دوران شاید موبائل سروس بحال کی جائیں گی، لیکن دو ماہ کے انتظار کے بعد انہیں کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اب جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ انٹرنیٹ بریک ڈاؤن سے سب سے زیادہ نقصان صحافتی برادری اور طلباء کو ہوا ہے۔ ادھر مسلسل ہڑتال اور کرفیو نافذ رہنے سے کاروباری سرگرمیاں ٹھیپ ہونے کی وجہ سے وادی کشمیر میں مزدوروں، غریبوں کا زندہ رہنا اب محال ہوگیا ہے۔ ضروریات زندگی خریدنے یا حاصل کرنے کے لئے رقومات کی عدم دستیابی کے باعث سینکڑوں کبنوں کو فاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وادی کشمیر کے اطراف و اکناف میں ایسے کنبے دن بھر مزدوری تلاش کرتے ہیں، لیکن کئی پر مزدوری مل نہیں رہی ہے حالانکہ گاؤں میں اب دھان کا فصل سمیٹنے اور درختوں سے سیب اتارنے کا کام جوبن پر ہے۔

غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے تاجر اور باغ مالکان درختوں سے سیب اتارنے میں بھی پس و پیش کررہے ہیں۔ نامسائد حالات کے باعث حکومتی سطح پر تعمیراتی پروجیکٹوں کو مکمل کرنے میں بھی دشواریاں پیش آرہی ہیں اور دو مہینے سے حکومتی سطح پر وادی کشمیر میں کسی بھی تعمیراتی پروجیکٹ پر کام شروع نہیں کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں مزدور، کاری گر، ہنرمند بیکار بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مزدوری تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ نمائندے کے مطابق اقتصادی بدحالی کی وجہ سے بیماروں کو بھی ایڈیاں رگڑنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ پہلے سے ہی سخت ترین اقتصادی بحران کے شکار ہیں اب گزشتہ دو مہینے سے یہاں جو شورش و تناؤ پیدا کیا گیا ہے اس سے ثابت ہورہا ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت کشمیریوں کی نسل کشی سے ایک دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہتی۔ 
خبر کا کوڈ : 818837
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش