1
0
Tuesday 8 Oct 2019 11:46

وحدتِ امت اہم ترین ضرورت

وحدتِ امت اہم ترین ضرورت
تحریر: جاوید عباس رضوی

دین اسلام کا آئین ایک ہے، اسلام کے اصولوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسلام کی فطرت میں انتشار اور تفرقہ موجود نہیں ہے۔ اسلام دین وحدت و اخوت ہے۔ ظاہری طور پر اسلام کے مبلغ و ہادی وقتاً فوقتاً بدلتے رہے لیکن اسلام کے اصول و ضوابط اور حقیقت میں کوئی فرق نہ آیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ملت اسلامیہ کے افراد میں اگر کوئی اختلاف رونما ہوا تو وہ اختلاف اسلام کی حقیقت و بنیاد کے بارے میں نہیں ہوا بلکہ اس کی وضع قطع کے بارے میں ہوا، جو لوگ اسلام کی روح میں اختلاف کرگئے وہ دراصل طابل و طاغوت کے جھانسے میں آگئے۔ باطل کے اسی لشکر کو راہ راست پر لانے کے لئے انبیاء کرام اور رُسل مبعوث کئے گئے۔  آخری نبی یعنی حضرت محمد مصطفٰی (ص) کی تشریف آوری سے اسلام کی روح اور حقیقت مکمل طور پر واضح و روشن ہوگئی اور قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ کے ذریعہ اسلام کی ہیئت اور وضع قطع تمام انسانوں کے سامنے روزِ روشن کی طرح پیش کی گئی اور یوں اسلام مکمل ضابطہ حیات کے طور پر سامنے آگیا۔
 
اب اگر افراد ملت اسلامیہ قرآن و سنت ہی کے تابع رہ کر فقہی مسائل میں جزوی اختلاف کو برداشت کرتے ہوئے باہم ’’تعاون علی البر‘‘ اور پوری دنیا میں پرچم اسلام کی سربلندی کے لئے متحد ہوجائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دین مبین کے خلاف رچی جانے والی سازشوں میں دشمنِ اسلام نامراد ہوجائے۔ مگر بدقسمتی سے چند صدیاں ایسی گزریں کہ مسلم رہنما اسلام اصول اور اسلامی روح کو سمجھتے ہوئے بھی اس اہم کام کو انجام نہ دے پائے۔ علماء دین اپنے اپنے فقہی مسلک اور اجتہادی رائے ہی کو واحد صحیح راستہ ثابت کرنے میں اپنی پوری صلاحیت و توانائی صرف کررہے ہیں۔ نہ انہیں اسلام کی سربلندی کی فکر نہ مسلمانوں کی بقاء کا خیال۔ اب جو حقیقی علماء کرام اسلام کا آفاقی پیغام اور صحیح چہرہ پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور مسلمانوں میں فہم دین کی حقیقی نہج پیدا کرنے کی کاوش میں لگ ہوئے ہیں اب پر بھی گمراہی و کفر کے فتوے لگائے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری ملت اسلامیہ کو مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ آپسی منافرت و تفریق سے ایسے حالات پیدا کئے گئے ہیں کہ حق و باطل کی تمیز ہی گم ہوگئی ہے۔
 
ایمانی زندگی کی بہتر نشر و نما کے مقصد سے تمام متفرق شعبہ جات میں شرعی رہنمائی کے لئے الگ الگ اسلامی ناموں سے قائم تنظیموں اور اداروں کے ذمہ داران کلمہ توحید کی بنیاد پر شیر شکر ہوکر متحد و منظم ہوجائیں تو یقین مانیئے کہ آج کے پُرفتن دور میں بھی امت مسلمہ کا کھویا ہوا وقار اور مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی ممکن ہے اور اس کام میں دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی کسی مکڑی کے جال کے برار بھی نہیں قرار پائے گی۔ اندرونی رقابت، اپنے آپ کو کامل اور دوسروں کو داغدار اور حق پسند و باطل پرست کی من پسند تشریح نے امت مسلمہ میں اس قدر دوریاں اور اختلافات پیدا کئے ہیں کہ مغربی دنیا مل کر امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کے لئے ہمارے سامنے دین اسلام کی ایک ایسی من گھڑت تشریحات و تاویلات پیش کرتے جارہے ہیں جو قرآن و سنت کی متداول و متوارث تشریحات و مطالب سے ہم آہنگی نہیں ہوتی ہیں۔ یہ عناصر عقائد و اعمال اور حرام و حلال کی قبیل سے جو اشیاء مغربی مفکرین کے نزدیک ناقابل قبول ہوں یا جن احکام کو مغربی معاشرہ ’’خلاف عقل و گمان‘‘ قرار دیتا ہو ان کو فی زماننا ناقابل عمل قرار دیکر ان سے مسلمانوں کو دامن بچانے کی نامراد پٹی پڑھاتے ہیں۔ علامہ اقبال (رہ) نے اس نوع کے فتنوں سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
یہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد (ص) اس کے بدن سے نکال دو

 
یقین جانیئے اسلام کے خلاف ایسی مغربی ریشہ دوانیاں اور گمراہ کن تشریحات کو عام کرنے میں مغرب زدہ حکمران اور میڈیا بنیادی کردار ادا کررہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ امت مسلمہ متحد ہے نہ منظم و متفق۔ شریعت اسلامی نے وحدتِ عقیدہ اور وحدتِ شریعت کی روشنی میں وحدتِ امت پر زور دیا ہے۔ اس سے وحدت کے دائرے میں تہذیبی اور سماجی تنوعات کی نفی نہیں ہوتی ہے ہاں مگر شریعت کی بالادستی قائم ہوتی ہے۔ شریعت اسلامی متعدد فقہی مسالک کی مخالف نہیں ہے۔ نہ ہی شریعت اسلامی کی عمومی روشنی میں مختلف پروگراموں کی حامل متنوع سیاسی و دعوتی جماعتوں کا ہونا خلاف دین ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ تمام کلمہ گو من حیثیت امت اپنے فکری، فقہی، فروعی اور سیاسی رنگارنگی اور ہلکے پھلکے نظریاتی اختلافات کو گلستانِ اسلام کو منور کرکے برداشت کے مادہ بڑھاتے ہوئے کامل اتحاد کے ساتھ ا ٓگے بڑھیں اور مستقبل کو محفوظ اور خوبصورت بنانے کی فکر میں جٹ جائیں۔ فقہی و مسلکی اختلاف کے باوجود ہمیں اسلامی مرکزی نکتہ کو تلاش کرکے اسی پر اتحاد و اتفاق کی لکیر کھینچنی ہوگی اور وہ بنیادی و مرکزی نکتہ توحید و رسالت ہے۔ اگر علماء کرام اپنے مشترکات پر متحد ہوکر دین مبین کی خاطر میدان عمل میں آجائیں تو وہ دن دور نہین ہوگا کہ جب ساری دنیا پر اسلام کی افادیت و آفاقیت آشکار ہوگی اور رب العزت روز محشر ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرمائیں گے۔
اخوت کا بیان ہوجا، محبت کی زبان ہوجا
 
خبر کا کوڈ : 820744
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ظفرالحق ڈیروی
Pakistan
اس بات پر اتفاق ہے کہ امت کو منتشر کرنے میں ہمارا اپنا ہاتھ ہے۔ ہم روح دین، اصول دین اور منشائے دین کو نہ سمجھ سکے۔ اپنی رائے کو قرآن کہہ بیٹھے۔ اپنی فکر کو حدیث نبویﷺ سمجھ بیٹھے۔ اپنی بالادستی اور اپنی ذاتی فکر کو اسلامی فکر سمجھ بیٹھے۔ ہمیں پرچم اسلام کی سربلندی کی کوئی فکر نہیں، بس ہمارا مسلک اونچا رہنے کی فکر ہے۔
ہماری پیشکش