1
Wednesday 13 Nov 2019 20:13

بولیویا میں بغاوت کا امریکی نسخہ

بولیویا میں بغاوت کا امریکی نسخہ
تحریر: سید رحیم نعمتی

لاطینی امریکہ کے ملک بولیویا میں 20 اکتوبر کے انتخابات کے بعد عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ بحران تین ہفتے تک جاری رہا جس کے دوران شدت پسندانہ اقدامات کے ساتھ ساتھ ملک کی سڑکیں اور گلی کوچے پولیس اور مظاہرین کے درمیان میدان جنگ بنے رہے۔ آخرکار بولیویا کے صدر ایوو مورالس نے اپنے عہدے سے استعفی دینے کا اعلان کر دیا۔ 20 اکتوبر کے صدارتی انتخابات میں ایوو مورالس نے اپنے حریف کارلوس میسا کو 10 فیصد زیادہ ووٹ حاصل کر کے شکست دی تھی۔ کارلوس میسا دائیں بازو کی اعتدال پسند جماعت کے رہنما ہیں۔ انتخابات میں شکست کا شکار ہونے والے رہنما کارلوس میسا نے نتائج قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو سڑکوں پر نکل آنے کی دعوت دے دی تھی۔ اگرچہ گذشتہ چند ہفتوں میں بولیویا کے صدر ایوو مورالس نے صورتحال پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی اور مخالفین کے اصرار پر الیکشن کی نگرانی کرنے والی ہائی کورٹ کے تمام اراکین کو تبدیل کر کے دوبارہ الیکشن منعقد کروانے کا وعدہ بھی دے دیا لیکن مخالفین راضی نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔
 
آخرکار بولیویا کی فوج کے سربراہ ویلیئمز کیلیمان نے صدر آیوو مورالس سے استعفی دینے کی درخواست کر دی جسے انہوں نے اتوار کی شام قبول کر لیا۔ اگرچہ مورالس اپنے عہدے سے استعفی دے چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنی تقریر میں واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ان کے خلاف بغاوت انجام پائی ہے۔ انہوں نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ وہ "مساوات اور امن" کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ شاید یہ کہنا بجا ہو گا کہ بولیویا میں انجام پانے والی بغاوت اس نسخے کے تحت انجام پائی ہے جو امریکہ نے اس سال کے شروع میں وینزویلا کے بارے میں لکھا تھا۔ اس نسخے کے مطابق صدارتی الیکشن کے نتائج کے خلاف عوامی احتجاج سے آغاز کئے جانا تھا اور اس کے بعد سڑکوں پر انارکی کا مرحلہ اور پھر مسلح افواج کو اپنے ساتھ ملا کر آرمی اور پولیس کے کمانڈرز کی مدد سے صدر کو استعفی دینے پر مجبور کرنا تھا۔ وینزویلا میں امریکہ نواز لیڈر خوان گوایڈو نے 10 جنوری کو اس نسخے کے مطابق عمل کرنا شروع کر دیا اور لویس بان درس کی سرکردگی میں وینزویلا کی نیشنل گارڈز کے چند فوجیوں نے حکومت مخالف مظاہرین کے حق میں ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر جاری کر دی۔
 
خوان گوایڈو وزیر دفاع ولادیمیر پیڈرینو لوپیز، مسلح افواج کے سربراہ اور دیگر اعلی سطحی فوجی کمانڈرز کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکام رہا جس کے نتیجے میں بغاوت ناکام ہو گئی۔ درحقیقت بولیویا میں امریکی نسخہ کامیاب ہونے کی بڑی وجہ مسلح افواج کے سربراہ کی جانب سے صدر پر استعفی کیلئے دباو ڈالنا ہے۔ یوں بولیویا میں آیوو مورالس کی جانب سے استعفی لاطینی امریکہ کے خطے میں امریکہ کی ایک قدم آگے پیشرفت محسوب ہوتی ہے۔ خاص طور پر یہ کہ امریکہ ایسے شخص کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوا ہے جو گذشتہ پندرہ برس سے خطے میں ایک بڑا امریکہ مخالف سیاسی لیڈر جانا جاتا تھا۔ اب یہ سوال جنم لے چکا ہے کہ امریکہ کا اگلا قدم کس نوعیت کا ہو گا؟ اور اس کے بعد اس کے نسخے کی قسمت کیا رخ اختیار کرے گی؟ خطے کی امریکہ مخالف حکومتوں جیسے کیوبا، وینزویلا، ارجنٹائن اور میکسیکو کی جانب سے بولیویا میں امریکی مداخلت کی بھرپور مخالفت اور وہاں انجام پانے والے واقعات کو بغاوت قرار دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بولیویا میں جاری امریکی سازشوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور امریکہ کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔
 
دوسری طرف آیوو مورالس کی جانب سے استعفی دیتے وقت تقریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک میں امن و امان اور استحکام کی خاطر اپنے عہدے سے علیحدہ ہوئے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ملک کی خاطر اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ لہذا آیوو مورالس کی جانب سے اقتدار سے علیحدگی کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ بولیویا میں انجام پانے والی امریکی بغاوت حتمی کامیابی سے ہمکنار ہو گئی ہے بلکہ ہمیں خطے خاص طور پر بولیویا میں نئے امریکی مخالف محاذ کے جنم لینے کا انتظار کرنا چاہئے۔ گذشتہ چند سالوں میں چلی، ارجنٹائن اور برازیل جیسے ممالک میں پیش آنے والے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ امریکہ اندرونی غداروں کے تعاون سے برسراقتدار قانونی حکومتوں کو گرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اس کی یہ کامیابی مختصر مدت کیلئے ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت اور محبوبیت کی حامل جماعتیں اور لیڈر دوبارہ طاقت اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بولیویا میں بغاوت برازیل میں سابق صدر ڈی سلوا کی آزادی کے ساتھ انجام پائی ہے۔ ان کی جیل سے آزادی کا مطلب برازیل میں امریکہ مخالف تحریک کا دوبارہ آغاز ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 827212
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش