4
0
Tuesday 5 Apr 2011 20:22

وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو (پہلی قسط)

وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو (پہلی قسط)
تحریر:عادل بنگش
6 اپریل 2011ء کو ٹھیک چار سال پورے ہو جائیں گے اُس دن کو جب پاراچنار کے مرکزی امام بارگاہ و مسجد میں ہفتہ وحدت کے حوالے سے 17 ربیع الاول کے جلسہ میلاد کے شرکاء پر قریبی واقع مسجد کے مینار سے مٹھی بھر ناصبیوں نے اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ کون جانتا تھا کہ حالات اتنے سنگین ہو جائیں گے اور اُس دن کے بعد جنت نظیر وادی کرم کی طرف بے خطر سفر ایک خواب جیسا ہو جائے گا۔
بہرحال حالات جیسے بھی ہوئے اور جیسے بھی ہیں ایک بات ایمان کی تقویت کا باعث ضرور ہے کہ 12 ربیع الاول بمطابق 2 اپریل 2007ء کو شان اہلبیت ع میں گستاخی کرنے والے سرزمین محبان اہلبیت ع( پاراچنار) سے ہمیشہ کے لئے نابود ہو گئے اور تاحال کرہ ارض پر اُن کے رہنے کے لئے جگہ میسر نہیں آ رہی جبکہ وہ جنہوں نے ھیھات من الذلہ کی صدا بلند کر کے اسلامی شعائر کی حفاظت کے لئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اُن کی یاد آج بھی حق پرستوں کے دلوں میں تازہ ہے اور اگر کسی کو پاراچنار جانے کی توفیق ہو تو وہ دیکھ لیں گے کہ ہر ایک قبرستان میں شہداء کی قبور پر لبیک یاحسین ع کے پرچم، یا ثارت الحسین ع کے سرُخ پرچم لہرا رہے ہونگے، حاضری دینے والوں کا ایک ہجوم نظر آئے گا اور اہم مواقع پر اُن کی تصویری نمائش و خصوصی سلامی کے پروگرامات دلوں کو گرماتے رہتے ہیں۔
ایک عرصے سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ قضیہ پاراچنار سے متعلق چیدہ چیدہ حقائق اور مستقبل کے بارے میں تجزیہ و تحلیل کو زیب قرطاس کیا جائے۔ اس سلسلے میں ماہنامہ العارف کی ٹیم کی دلچسپی اور مسلسل تذکر اس بات کا باعث بنی کہ گزشتہ واقعات، معاہدوں اور حکومتی اقدامات و عوامی ردعمل کا از سر نو مطالعہ و تحقیق کر کے قارئین کے سامنے اس مضمون کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال، حکومتی پالیسی اور مستقبل کے بارے میں تجزیہ سے قبل اُن قارئین کے لئے جو زیادہ تفصیلات سے آگاہ نہیں ہیں، محل وقوع اور ماضی کے مسائل کا ایک سرسری جائزہ بھی پیش کیا جا رہا ہے۔
قدیمی حیثیت و محلِ وقوع:۔
مشہور انسائیکلو پیڈیاز اور "کُرم گینریٹر" کے مطابق وادی کُرم پاکستان کے قدیم ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ پندرہ سو سال قبل از مسیح "کروما"کے نام سے اس تاریخی مقام کا " وید" کی کتابوں میں بھی تذکرہ ملتا ہے۔ قدیم ایام میں درہ خیبر سے بھی قبل اسی وادی کا راستہ تھا جو برصغیر پاک و ہند کو افغانستان، ایران، مشرق وسطیٰ تک ملاتا تھا اور اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ یہ قدیمی راستے آج بھی سیاسی و عسکری مقاصد کے لئے ایک سہل اور مختصر راستہ سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان کے شمال مغرب میں واقع یہ وادی تین اطراف سے افغانستان میں گھری ہوئی ہے۔ اس وادی کے شمال میں صوبہ ننگرھار واقع ہے اور اس کا دارالحکومت "جلال آباد" PCR سے 80 کلومیٹر فاصلے پر ہے جو کہ کابل کے بعد افغانستان کا دوسرا بڑا شہر ہے، شمال مغرب میں صوبہ پکتیکا، مغرب میں صوبہ پکتیا اور اس کا دارالحکومت " گردیز" 120 کلومیٹر پر واقع ہے۔ افغانستان کا دارالحکومت " کابل" یہاں سے فقط 240 کلومیٹر کی مسافت سے بھی کم فاصلے پر واقع ہے جو کہ پاکستان کے کسی بھی سرحدی علاقے سے قریب (کم) ترین فاصلہ ہے۔ اگر پاکستان کے اندر جغرافیائی صورتحال کا جائزہ لیں تو وہ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔ اس وادی کے شمال مشرق میں خیبر ایجنسی (درہ خیبر)، مشرق میں اورکزئی ایجنسی+ایف آر، جنوب مشرق میں کوہاٹ ڈویژن کا ضلع ٹل؛ جنوب میں شمالی وزیرستان ایجنسی واقع ہے۔ جغرافیائی طور پر کوہ سفید کی بلند و بالا چوٹیوں میں گھری ہوئی یہ وادی (کُرم) جو قدرتی طور پر اسی پہاڑی سلسلہ کے ذریعے افغانستان کے دیگر علاقوں سے جدا ہوتی ہے، خود تقریباً 60 کلومیٹر تک افغانستان کے اندر واقع ہے۔
انتظامی طور پر یہ اپر کُرم تحصیل پاراچنار، وسطی کرم اور لوئر کرم تحصیل صدہ و علی زئی میں منقسم ہے، جن میں سے پارہ چنار کو ہیڈکوارٹر کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں اس حقیقت کا جاننا ازحد ضروری ہے کہ محل وقوع و جغرافیائی اعتبار سے افغانستان کے تین بڑے صوبوں اور چار بڑے شہروں کے لئے Gateway کی حیثیت رکھنے اور خیبر، اورکزئی و وزیرستان سے ملحقہ سرحدات کے باعث اسے پاکستان کا حساس ترین علاقہ کہا جاتا ہے جبکہ پاکستان کی عسکری قوتوں کے ساتھ ساتھ افغانستان کی ISAF (International Security Assistance Forces) اور NATO اسے پہلے ہی" Most Importent Geo-Strategic Region " قرار دے چکی ہیں۔ لہٰذا پاکستانی فورسز اپنے عسکری مقاصد کے لئے اور عالمی استعماری افواج NATO سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے ایک عرصہ سے بطور BASE اور بطور BUFFER ZONE استعمال کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں۔
وادی کرم کے بنیادی مسائل:۔
جیسا کہ اوپر کی بحث میں یہ ثابت ہوا کہ یہ علاقہ حساس ہے مگر پاکستان کے اس پورے خطے میں جس کی سرحدیں اُس افغانستان کے ساتھ ملی ہوں جس نے کبھی پاکستان کو دل و جان سے تسلیم ہی نہیں کیا، جہاں انتہا پسند عسکری گروہوں کے تربیتی مراکز قائم ہوں، جو خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہو، وہاں پر ایک چھوٹے سے مگر انتہائی اہم جغرافیائی اہمیت کی حامل وادی میں ایک قوی اسلامی نظریات بالخصوص کربلا کی آئیڈیالوجی سے تعلق رکھنے والوں کا وجود متعصب حکمرانوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہو، اسے مزید حساس بنا دیتا ہے لہٰذا مسائل بھی اس قسم کے پیدا کئے گئے ہیں جو طویل المیعاد منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے وقت وہاں پر صدیوں سے مکین شیعہ آبادی کو بھی ختم کر سکیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کہ اس وادی کے اصل مکینوں نے ہمیشہ استقامت دکھائی ہے۔
مسئلہ ایف آر:۔
ڈی آئی خان، بنوں، کوہاٹ اور پشاور کے بعض قبائلی علاقوں کو فرنٹیر ریجن (ایف آر) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ عموماً وہ علاقے ہیں جہاں بندوبستی علاقوں کی نسبت قانون کی عملداری نہ ہونے کے برابر اور ریونیو ریکارڈ بھی باقاعدہ مرتب نہیں ہے۔ ان کی انتظامیہ و بجٹ تک علیحدہ ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت بھی یہی حال تھا لیکن 1970ء میں مغربی پاکستان کی تحلیل کے بعد جب اورکزئی ایجنسی کا قیام عمل میں آیا تو اس سے ملحقہ علاقوں مسو زئی، پاڑاچمکنی اور علیزئی کو جو واضح طور پر اورکزئی کے علاقے تھے انہیں ایف آر کی شکل دے کر کرم ایجنسی میں شامل کر کے وسطی کرم کے نام سے پکارا جانے لگا۔ ا س علاقے کا الگ بجٹ بنانے کی بجائے اسے کُرم ایجنسی کے سر ٹھونس کر ایجنسی کے اصل مالکان طوری و بنگش اقوام کے بجٹ و محدود وسائل میں حصہ دار بنایا گیا، یہاں تک کہ طوری و بنگش سے ریونیو کے مطابق مالیہ تو لیا جاتا ہے مگر ایف آر کے لوگ ہر قسم کے ٹیکس سے بھی آزاد ہیں۔ عقائد و روایات و جغرافیائی طور پر غیرفطری و جبری مسلط کردہ علاقے میں ایک خیالی مردم شماری کے ذریعے سے اُنہیں اکثریت میں ظاہر کر کے محب وطن طوری بنگش قبائل پر ایک اور ستم کیا گیا کیونکہ تمام تر تقسے، وسائل، ملازمتیں و مراعات تناسبِ آبادی سے طے پاتی ہیں۔ حقیقی اکثریت کا حق چھن جانے کے بعد حق تلفیوں کا طویل سلسلہ جاری ہوا جو تاحال جاری ہے۔
مسئلہ کرم (طوری) ملیشیا:۔
پاراچنار کرم ایجنسی میں برطانوی حکومت کی عملداری قائم ہونے کے بعد 1882ء میں ایک معاہدے کی رو سے مقامی جوانوں پر مشتمل طوری ملیشیا کے نام سے ایک فورس کے قیام عمل میں لایا گیا۔ اس وادی کی تسلی بخش حفاظت کے لئے اس فورس کی کارہائے نمایاں کا اعتراف آج بھی سربراہان افواجِِِ پاکستان سنہری الفاظ میں کرتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم نے اپنے دورے کے موقع پر یہاں کے عمائدین کو یقین دلایا کہ ماضی کے تمام معاہدوں کی پاسداری کی جائے گی مگر بد قسمتی بعض ناعاقبت اندیشوں نے متعصبانہ طور پر قائداعظم محمد علی جناح رہ کے وعدوں کو پس پشت ڈال کر 80ء کی دہائی میں اس فورس کو یہاں سے تبدیل کر کے باہر کی ملیشیا (FC) کو اہل کُرم کے سروں پر مسلط کیا۔ اب طوری و بنگش قبائل افغانستان اور ایف آر دونوں اطراف سے غیر محفوظ ہو گئے۔
متعصب پولیٹیکل انتظامیہ:۔
قیام پاکستان سے لے کر آ ج تک 64 سال ہونے کو ہیں بدقسمتی سے ایک خاص منصوبے کے تحت یہاں مخصوص سوچ کے حامل ایک ہی فرقے سے تعلق رکھنے والے ایف سی و سول انتظامیہ کے افسران کو ہی تعینات کیا جاتا رہا ہے، جنہوں نے ہمیشہ قبائلی و علاقائی مسائل کے دوران طوری و بنگش شیعہ قبائل کے مقابلے میں دیگر قبائل کی سرپرستی کا کردار ادا کیا ہے، جسکی وجہ سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھے ہیں اور طوری و بنگش شیعہ قبائل کی پریشانیوں اور مشکلات و محرومیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ متعصب فوجی و سول انتظامیہ کے متعصبانہ و ظالمانہ اقدامات کی ایک طویل فہرست ہے جو کہ طوالت ِمضمون کو مدنظر رکھتے ہوئے شامل نہیں کی جا رہی۔ صرف ایک مثال بطور دلیل یہ ہے کہ انگریزوں کے دور سے اس ایجنسی کے حساس محل وقوع کی وجہ سے یہاں کے بنگش و طوری قبائل کو حکومت کی طرف سے اسلحہ و ایمیونشن دیا جاتا تھا جو کہ 80ء کی دہائی میں بند کر دیا گیا۔ یہی قبائل جو کبھی کرم ملیشیا اور اس اسلحہ کی وجہ سے بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے تھے آج خود کو ہر طرف سے انتہائی غیر محفوظ و نہتا سمجھتے ہیں۔ ان کو تنہا کرنے میں بھی متعصب انتظامیہ کا ایک جنبش قلم کار فرما نظر آیا۔
پاراچنار کرم ایجنسی کی موجودہ صورتحال کے پس منظر اور وجوہات کو کچھ تجزیہ نگار 70s اور 80s میں افغانستان پر رُوسی یلغار، ضیاءالحق کی پالیسیوں اور نام نہاد جہادی عناصر کے مفادات سے جوڑتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات واقعاً درست ہے لیکن دراصل قیام پاکستان کے بعد افغانستان کا " ڈیورنڈ لائن" کے مسئلے پر اختلاف اور اس خطے میں کرم ایجنسی کی خصوصی اہمیت کی حامل جغرافیائی حساسیت کی وجہ سے اُسی وقت سے لے کر آج تک غیرمعمولی نوعیت کے واقعات پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ تاریخ کے اوراق کی ورک گردانی سے معلوم ہو گا کہ طوری اور شیعہ بنگش کی آبادیوں نے اس قدرتی وسائل سے مالا مال وادی کی حفاظت کے لئے انیسویں صدی کے وسط یعنی 1830ء سے 1880ء کے درمیان افغانستان کے دیگر قبائل کے ساتھ متعدد جنگیں لڑیں، سرحدی علاقوں کی محافظت کے لئے کچھ افغانی قبائل کو مراعات دے کر اپنے ارد گرد بسایا اور ضلع ٹل کے میدانی علاقوں کے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے حملہ آور ہونے والے شمالی وزیرستان کے جنگجوﺅں سے فیصلہ کن جنگ کے بعد اُن کی طاقت کو کچل دیا۔ انگریزوں کے آنے تک یہ افغانستان کا علاقہ تھا اور" کابلی" سکہ رائج تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی وہ تمام عناصر جو اس علاقے کی اہمیت سے آگاہ تھے وہ کسی نہ کسی طریقے سے شیعہ اکثریتی آبادیوں کے خاتمے کے لئے مختلف حربے اور اقدامات کرتے رہے، جس میں پولیٹیکل انتظامیہ بھی ساتھ دیتی رہی لیکن اس خطے کے طوری و بنگش قبائل پر خداوند کریم کا خصوصی لطف وکرم رہا کہ وہ اب تک میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
ایجنسی بھر میں مختلف مقامات پر مختلف ادوار کے شہداء کی قبور اور ضلع ٹل و دوآبہ کے درمیان وزیرستان کے جنگجوﺅں کے ساتھ مقابلے میں شہید ہونے والے (انیسویں صدی) افراد کی قبور آج بھی اس سرزمین میں، اپنی عزت و ناموس اور اسلامی غیرت و حمیت کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کی داستانیں سناتی ہیں۔ ایک بات جس سے کوئی بھی تجزیہ نگار انکار نہیں کرسکتا وہ یہ ہے کہ کرم کے طوری و بنگش شیعہ قبائل کو روز اول سے مکتبِ کربلا سے تعلق رکھنے، پیروکاران آل محمد ع ہونے، اس حساس علاقے میں اکثریتی آبادی رکھنے اور حقیقی حب الوطنی کی سزا دی جا رہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حقیقی طور پر پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے مطلب کو سمجھا ہے اور اس وقت جاری عالمی کشت و خون کے میدان کے کھلاڑیوں سے اظہار برات کر کے اپنی سرزمین کو اُن آلودگیوں سے پاک رکھا جسکا شکار اس وقت وزیرستان اور افغانستان ہے اور یہی انکا سب سے بڑا جرم ہے.
یہاں پر اُن چیدہ چیدہ سانحات و واقعات کی طرف متوجہ کرانا ضروری ہے جو اس سے پہلے والی سطور کی تصدیق اور مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کے لئے ممد ومعاون ثابت ہونگے۔
1961ء:
1961ء میں اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ کے ایماء پر یوم عاشورا صدہ تحصیل کے بازار میں قدیمی جلوس پر حملہ ہوا۔ انتظامیہ کی موجودگی میں 90 افراد شہید ہو گئے۔
1971ء:
پاراچنار میں آباد ہونے والے سنی گھرانوں کو مقامی شیعہ آبادی کیطرف سے ایک مسجد دی گئی تھی۔ 1971ء میں بدنام زمانہ منگل قبیلے کے لوگوں نے اسے ہتھیا کر اسے قلعہ نما شکل میں تعمیر کرنا شروع کیا۔ ایک ایسا مینار تعمیر کیا جس کے وسیع قطر میں کئی درجن افراد کے لئے مورچے موجود ہیں اور بلندی 150 فٹ سے زیادہ ہے۔ جب وہاں کی شیعہ آبادی نے باز پرس کرنا چاہی تو اُن پر فائرنگ کر کے 35 طوری بنگش افراد کو پولیٹیکل و فوجی انتظامیہ کے سامنے شہید کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ مسجد اور مینار حالیہ لڑائیوں میں بھی طوری بنگش آبادی کے لئے بھاری نقصان کا باعث رہی، مگر اُس وقت بھی اور آج بھی سینکڑوں پاک فوج کے جوان اسی مسجد ضرار کی حفاظت کے لئے سالہا سال سے موجود ہیں۔ اس قلعہ نما مسجد کی داستانوں کی بھی طویل فہرست موجود ہے۔
1983-84ء:
صدہ جو کہ وہاں کے چند شیعہ بنگش گھرانوں کی ملکیت تھا، وہاں 1983-84ء میں ایک زیرتعمیر امام بارگاہ کو اورکزئی قبیلے کے افراد نے ڈائنا مائٹ سے اُڑا دیا۔ اس سے قبل کہ مقامی شیعہ آبادی کوئی چارہ جوئی کرتی، اُنہیں چاروں اطراف سے محاصرے میں لے کر جدید اسلحے اور بھاری ہتھیار سے حملہ کیا گیا۔ چند دنوں کے اندر 66 افراد کو شہید کر دیا گیا اور باقی خاندانوں کو بےدخل کر دیا گیا۔ اگرچہ جرگہ نے اُنہیں دوبارہ آباد کرانے کا اُسی سال فیصلہ کر دیا تھا۔ مگر انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی اور تاحال وہ لوگ مہاجر بنے ہوئے ہیں۔ القاعدہ اور اُسامہ کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ 1982ء اور 83ء میں انہوں نے صدہ کے اطراف میں پہلا ٹریننگ کیمپ لگایا، تسلی سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے مقامی انتظامیہ کی مدد سے اس علاقے کے شیعوں کو بے دخل کروایا۔
1987ء:
اگرچہ صدہ کے اطراف میں 3 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین میں سے ہزاروں کی تعداد میں جنگجو نام نہاد جہادِ افغانستان کے لئے رہائش پذیر تھے مگر پھر بھی بےدخل خاندانوں میں سے ایک شخص حسین غلام المعروف دادو حاجی اپنے بال بچوں سمیت واپس جا کر رہنے لگا۔ مقامی فرقہ پرست جنونیوں نے ہزاروں افراد پر مشتمل افغان مہاجرین کے لشکر کے ساتھ اُن پر دھاوا بول کر خاندان کے 14 افراد کو اس قدر اذیت ناک طریقے سے شہید کیا کہ لوگ چنگیز خان کو بھول گئے، کہنے، سننے اور خود مقابلہ کرنے میں فرق ہے۔ آسمان و زمین ان مظالم پر خون کے آنسو روتے ہیں جب دو ماہ کے بچوں کو ہوا میں اُچھال کر گولیوں سے چھلنی کرنے کے بعد مردوں کو باندھ کر اُن کے سامنے اُن کی عورتوں کی چھاتیوں کو کاٹ ڈالا گیا اور بعد میں مردوں کو زمین پر لٹا کر جانوروں کی طرح ذبح کر دیا گیا۔ پھر تمام لاشوں کو جلا دیا گیا۔ یہی لشکر آگے بڑھا اور پولیٹیکل انتظامیہ اور FC کمانڈنٹ کی تائید کے ساتھ شیعہ آبادی کو پوری ایجنسی سے ختم کرنے کے لئے تابڑ توڑ حملے کئے، جو طوری و بنگش شیعہ قبائل کے لئے ایک Surprise تھا۔ آٹھ گاوں اور ساڑھے تین سو گھر جلائے گئے اور 70 افراد کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ بعد میں طوری و بنگش شیعہ قبائل کی مقاومت نے اُن کو پسپا کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس پوری کارروائی کا مقصد اس اہم جغرافیائی خطے پر قبضہ کر کے افغانستان کے 3 صوبوں پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔
1996ء:
1983ء اور 84ء کے بعد کرم ایجنسی میں 35 مہاجرین کیمپس سے مہاجر عام اہلسنت آبادیوں میں گھل مل گئے، رفتہ رفتہ جائیدادیں بنا کر جنگلات، باغات و مارکیٹیں اپنے قبضے میں لینے لگے۔ کئی بار روسی افواج انہی کے بہانے حملہ آور بھی ہوئی۔ علاقے میں بےدریغ اسلحہ، فحاشی و منشیات کو خوب فروغ دینے لگے اور طوری بنگش قبائل کی زمینوں کو بارودی سرنگوں سے بھر دیا، جس سے ہونے والے نقصانات ناقابل بیان ہیں۔ دیگر تفصیلات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے 1996ء میں سپاہ صحابہ کے امریکی و وہابی پروردہ ایجنٹس کے ذریعے مختلف بہانوں سے شروع کی جانے والی جنگ کا ذکر کرتے ہیں۔ مختلف شیعہ آبادیوں پر لشکر کشیاں کی گئیں جس کے نتیجے میں پھر 60سے زائد دفاع کرنے والے شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ کئی دن کی لڑائی کے بعد آرمی نے کرفیو نافذ کر کے شیعہ آبادیوں میں آپریشن کر کے بیشتر آبادیوں کو بالکل نہتا کر دیا۔ کئی مہینے کرفیو کے بعد اصل ماجرا معلوم ہوا۔
دراصل افغانستان کے دو بڑے اہم علاقوں کابل اور جلال آباد پر فیصلہ کن جنگ کے لئے طالبان کو بڑی کمک کی ضرورت تھی جو پاراچنار میں لڑائی اور کرفیو کے دوران منتقل کرنی تھی، بعد میں معلوم ہوا کہ اسی کمک کے نتیجے میں کابل پر قبضہ ہوا اور سقوط جلال آباد کے مشہور واقعات رونما ہو کر طالبان کی حکومت کی تشکیل کی بنیاد بنی۔ کرفیو کے دوران FC اور آرمی کی طرف سے ہونے والے واقعات جیسے مال و متاع لوٹنا، نہتے شہریوں کو قتل کرنا اور خواتین کی بےحرمتی جیسے دل ہلا دینے والے واقعات الگ تفصیل کے طلبگار ہیں۔
2007ء:
1996ء کے بعد مختلف مقامات پر ہونے والی جھڑپوں، جارحیت اور مظالم کا سلسلہ جاری رہا جن میں کبھی 5، کبھی 10، کبھی12 مقامی افراد شہید ہوتے رہے، راستے میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ ایک عرصے تک جاری رہی۔ 2007ء سے قبل تک پیواڑ ،بوشہرہ، مالی خیل کے محاذوں پر کئی بار لڑائیاں ہوئیں۔
12 ربیع الاول کو میلاد کے جلوس (2 اپریل2007ء) میں اہلبیتِ ع رسول کی شان میں گستاخی اور 6اپریل2007ء یعنی 17 ربیع الاول کے روز شیعوں کے جلسے پر فائرنگ کے بعد پرتشدد واقعات سے موجودہ قارئین اُمید ہے کہ باخبر ہونگے۔ 6 اپریل 2007ء سے شروع ہونے والی جھڑپیں 13 اپریل تک جاری رہیں۔ کرفیو لگایا گیا، مگر صرف شیعہ آبادی پر، شہر کے وسط میں موجود قلعہ نما مسجد کی چھت اور مینار سے اطراف کی شیعہ آبادی کو مارٹر گولوں اور توپ خانوں و مشین گنوں سے نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ایک اطلاع کے مطابق 600 سے زائد تربیت یافتہ عسکریت پسند افراد بیک وقت حملہ آور تھے۔ 3 روز تک دفاعی حالات کے دوران شیعہ آبادی پر FC کے کیمپ سے بھی گولے برسائے گئے۔ مسلسل جارحیت سے تنگ آ کر جوابی کارروائی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں حملہ آور مارے گئے۔ یہاں پر بھی حکومت اور حکومتی اداروں کا کردار انتہائی منفی رہا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ 2004ء سے 2007ء کے درمیان پارا چنار سے تعلق رکھنے والے FC کے جوانوں اور پولیس کے اہلکاروں کو وزیرستان، سوات، ہنگو اور دیگر علاقوں میں اغواء کے بعد بے دردی سے شہید کرنے کا سلسلہ بھی عروج پر رہا، جن کی تعداد 20 سے بھی زیادہ ہے جبکہ افسران کے حکم پر کارروائی کے دوران شہید ہونے والوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 63364
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
salam main aap ko salam pesh karta hon k aap aisay halat mn apne bulad hoslay kay sth apne aala ifkar w kirdar aor Hussini tashakhus kay sath rah rahay hn Allah taala b haq-e- Imam zamana a.s salamat aor aabad o shad rakhay aamin wasalam.
Iran, Islamic Republic of
salam alaikum. parachinar ki matalik khaber parh ker bohot khoshee hoi.mai 2 mah sy ap ka web site perhta hoon. ap ko mobarakbad dita hoom.
Iran, Islamic Republic of
salam parachinar ki khabrein shaia karny par shokria. adil bangash ka ky tabsry sy khoshi hoi. tahan mery khial mai kuch tareekhoon mei ghalti maaloom horahi hai. pata nahi composing mai ghalti hoei hai ya kia waja hai ya mera hafizy ko kuch hogia hai.
Iran, Islamic Republic of
سلام علیکم
پاراچنارکے متعلق مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی شائع کرنے پر مباکباد، تاہم میرے خیال میں آپ سے شاید چند غلطیاں ہوئی ہیں یا مس رائٹنگ کی غلطی ہوگئی ہے شاید اس طرف آپکی توجہ نہ ہو لیکن مضمون دوبارہ پڑھ کر دیکھیں کچھ تاریخوں میں غلطی پائی جاتی ہے۔
منتخب
ہماری پیشکش