1
Wednesday 27 Nov 2019 10:31

محترم عمران خان صاحب وہ ایک پاکستان کہاں ہے؟

محترم عمران خان صاحب وہ ایک پاکستان کہاں ہے؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

محترم عمران خان صاحب اس وقت ملک کے وزیراعظم ہیں اور پی ٹی آئی کی دو صوبوں میں مکمل اور ایک میں آدھی حکومت ہے۔ سندھ میں بھی بہت سے معاملات ڈرا دھمکا کر وفاق نے گورنر کے ذریعے اپنے پاس ہی رکھے ہوئے ہیں۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت کافی طاقتور حکومت ہے، جو آئینی طور پر اختیارات کی مالک ہے۔ پی ٹی آئی کی پوری کمپین کرپشن اور کرپٹ لوگوں کے خلاف تھی اور انہوں نے دو نہیں ایک پاکستان کا دلفریب نعرہ بھی قوم کو دیا تھا۔ سچ پوچھیں تو دو صدیوں سے طبقاتی نظام کا شکار عام آدمی کے لیے یہ کافی دلچسپ نعرہ تھا اور اس نے عام لوگوں کو بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کی طرف متوجہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام اور سسٹم میں تبدیلی کی باتوں نے پٹواری سے لے کر بیوروکریٹ تک کے ستائے لوگوں کو امید کی ایک کرن بھی دکھائی تھی۔ تبدیلی کے اس نعرے نے ہماری نوجوان نسل کو باالخصوص بہت متاثر کیا۔ اب وطن سے دور تعلیم اور روزگار کے لیے مقیم نوجوان عمران خان کو ایک مسیحا اور ایک انقلابی لیڈر کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

پی ٹی آئی کی جدوجہد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک جیتنے والوں امیدواروں کے پیچھے لگنے اور دوسرے اس سے پہلے کی پی ٹی آئی۔ مجھے یاد ہے کہ میرے دو دوست پاکپتن سے پی ٹی آئی کے ٹائیگرز تھے، دونوں نے اس وقت پی ٹی آئی کو جوائن کیا، جب ان کا عین شباب تھا اور دن رات ایک کرکے اسے منظم کیا۔ وہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے ایک اجتماع میں آئے تو مجھے ملنے آئے، تو دونوں پریشان تھے۔ ایک جو بہت بڑا نظریاتی کارکن تھا، وہ زیادہ پریشان تھا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ تو اس نے کہا ہمارے خان صاحب کہتے ہیں کہ اپنے علاقے سے ایسے لوگوں کو تلاش کریں، جو الیکشن جیت سکتے ہیں اور اگلی حکومت ہماری ہے۔ میں نے کہا اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ وہ بولا ایک تو جن لوگوں کے خلاف میں دن رات لوگوں کو قائل کرتا رہا ہوں، اب انہی کو اپنی جماعت میں بڑے عہدے اور ٹکٹ کی یقین دہانی کے ساتھ شامل کراوں؟ میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا اور دوسرا وہ نظریہ جس کی وجہ سے میں نے اپنی جوانی کے کئی سال برباد کر دیئے، وہ کہاں گیا۔؟

مجھے نہیں معلوم میں نے اسے کیا تسلی دی، مگر وہ اس دن کے بعد سیاسی سرگرمیوں سے دور ہوگیا۔ اس کے بعد تحریک انصاف میں نئے آنے والوں کا جمگھٹا لگ گیا۔ سچ پوچھیں تو پہلے پی ٹی آئی کو بڑی سیاسی قوت نہیں سمجھتے تھے اور جب منتخب ہوسکنے والوں کا ریوڑ اس میں داخل ہوا تو تبدیلی یا کسی بہتری کی  کوئی امید نہ تھی۔ اس سب کے باوجود ہمارے دوست مصر تھے کہ اب دو نہیں ایک پاکستان بننے کا وقت آگیا ہے، ہم بھی اس بچے کی طرح ہوگئے، جس نے خالی گلی میں رونق لگانے کے لیے آواز لگائی تھی کہ چیز تقسیم ہو رہی ہے اور جب ساری بچے چیز چیز کہتے ایک سمت دوڑے تو وہ بھی ان سے آگے بھاگ رہا تھا کہ کہیں سچ میں چیز نہ ہو اور یہ زیادہ نہ لے لیں، سوچتا کہ شائد دوست سچے ہوں۔ عمران خان صاحب نے جو ٹیم بنائی، اس میں سوائے دو تین لوگوں کے سب وہی پرانے چہرے ہیں، جنہیں دیکھتے دیکھتے دہائیاں گذر گئی ہیں۔ یہ وہ فصلی بٹیرے ہیں جو فصل تیار ہوتے ہی حصہ وصول کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا نظریہ اور مقصد حیات فقط اور فقط اقتدار میں رہنا ہوتا ہے، اس کے لیے انہیں جو بھی قیمت ادا کرنے پڑے، یہ ادا کرتے ہیں۔

اب عمران خان صاحب کی حکومت کا تقریباً چوتھائی وقت گذر چکا ہے،  اس میں معاشی طور پر تو جو تباہی ہوئی، سو ہوئی، اس نے نظریاتی طور پر بھی پی ٹی آئی کے کارکن کو فرسٹیریشن کا شکار کر دیا ہے۔ عمران خان صاحب پر فدائے ملت کتاب کے مصنف اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا پر بڑا نام ہمدرد حسینی لکھتے ہیں: سچی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں بھرے مجمعے میں کپتان یا تحریک انصاف کا نام لینا خود کو گالیاں پڑوانے کے مترادف ہوچکا ہے۔ ہم کچھ لکھتے ہیں تو فیس بک پر گالیاں پڑتی ہیں، دوستوں کی مجلس میں کسی سے بات کرتے ہیں تو استہزائیہ نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ کارکن جو باہر بیٹھ کر کپتان کے قصیدے لکھتے ہیں۔ جو شوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ٹماٹر مہنگے ہیں تو کیا ہوا، میکڈونلڈ پر برگر کیوں نہیں کھا لیتے۔ کپتان صاحب! جلدی کچھ کیجئے، ہم تو امید پر جی لیں گے، لیکن جینے کی کسی امید کا در تو وا کیجئے حضور۔

پچھلے چند واقعات ہی دیکھ لیں، نواز شریف صاحب بیمار ہوئے، ان کو سپیشل ٹریٹمنٹ دی گئی اور ہماری پنجاب کی وزیر صحت نے کہا کہ ہم نے ان کے لیے کراچی سے سپیشل ڈاکٹر بلایا تھا۔ چوبیس گھنٹے ڈاکٹرز کی ٹیم ان کی نگرانی کرتی رہی اور یہاں تک انہیں باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ ہمیں مریض کو سہولیات دینے پر مسئلہ نہیں ہے، مگر ہم آپ سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ آپ کا نعرہ تو دو نہیں ایک پاکستان کا تھا، اب بتائیں پاکستان میں اس وقت کتنے قیدی ہیں، جو نواز شریف سے زیادہ بیمار ہیں اور انہیں ڈرپ تک نہیں لگائی جاتی اور ان کی لاش گھر والوں کے سپرد کی جاتی ہے۔؟ آپ تو کہتے تھے کہ ہر مجرم کو سزا ملنی چاہیئے اور آپ حضرت عمر اور ریاست مدینہ کے انصاف کی مثالیں دیتے تھے، ایک مجرم جس نے پاکستان کا آئین توڑا، اسے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سزا دینے والی تھی اور آپ نے اپنی حکومت کو اس میں جھونک دیا کہ فیصلہ ہی نہ سنایا جائے، ویسے حیرت ہے کہ آپ ایک آئین توڑنے والے مجرم کو بچانے کے لیے میدان میں آگئے۔

خان صاحب کتنے لوگ ہیں، جو چھوٹے چھوٹے جرائم پر سالوں سے قید میں ہیں،  مہربانی کریں اور انہیں ریلیف دلائیں۔ ویسے یہ عجیب ہے کہ مدعی عدالت سے کہے کہ فیصلہ نہ کیا جائے اور یہ وہ حکومت کرے، جو دو نہیں ایک پاکستان کے نعرے سے برسراقتدار آئی ہو۔ آپ نے آرمی چیف کی توسیع کی، بہت اچھا کیا، اگر کوئی افسر فوج کے لیے ناگزیر ہے تو اسے رکھنا چاہیئے، مگر جب سپریم کورٹ نے اس پر اور اس توسیع پر بہت سے قانونی سوالات کئے تو آپ نے کمال مہارت سے ایک فرد کے لیے کابینہ سے اس کی منظوری لی۔ آپ تو کہا کرتے تھے کہ یہاں ادارے نہیں افراد مضبوط ہوتے ہیں، سب کچھ افراد کے گرد گھومتا ہے، میں اداروں کو مضبوط کروں گا، کیا یہ اس کے خلاف نہیں ہے؟ محترم خان صاحب ہمیں دو نہیں ایک پاکستان کی ضرورت ہے، جس میں آپ احتساب کی بات کرتے مصلحت کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ جس میں آپ نڈر اور بے باک تھے۔ آپ کو ووٹ دینے والے اور ہم جیسے اس بات کے منتظر ہیں کہ آپ اسی پاکستان کی ہمیں زیارت کرائیں، جس کی آپ باتیں کیا کرتے تھے۔
خبر کا کوڈ : 829335
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش