0
Tuesday 3 Dec 2019 12:08

سپرمیسی کی جنگ، جی بی اسمبلی اور عدالت آنے سامنے

سپرمیسی کی جنگ، جی بی اسمبلی اور عدالت آنے سامنے
رپورٹ: لیاقت علی انجم

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے چیف کورٹ جی بی کی جانب سے توہین عدالت کے نوٹس کے باوجود پراسکیوشن بل میں ترامیم منظور کر لیں۔ عدالتی نوٹس کے بائوجود بل کی منظوری کے بعد جی بی میں اسمبلی اور عدالت کے مابین سپرمیسی کی جنگ چھیڑ گئی ہے۔ اسمبلی اجلاس کے دوران ارکین نے عدالت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نوٹس کو بلیک میلنگ اور اسمبلی پر حملہ قرار دیا۔ رکن اسمبلی راجہ جہانزیب نے پراسیکیوشن بل میں ترامیم کیلئے سلیکٹ کمیٹی کی سفارشات ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ 2016ء میں پراپر چینل کے تحت پراسکیوشن سٹاف (پراسکیوٹرز،  ڈپٹی اٹارنیز، ڈسٹرکٹ پبلک پراسکیوٹرز)  کنٹریکٹ پر بھرتی ہوئے تھے، سٹاف نہ ہونے کی وجہ سے عدلیہ کو بھی مشکلات درپیش تھیں، اس وقت 500 وکلاء نے درخواستیں جمع کرائی تھیں، 93 کو شارٹ لسٹ کیا گیا، ان میں سے 19 بھرتی ہوئے۔ چیف سیکرٹری کی سربراہی میں انٹرویو بورڈ میں سیکرٹری قانون اور سیکرٹری فنانس بھی موجود تھے، دیگر صوبوں میں یہ سٹاف مستقل ہوا ہے، صرف گلگت بلتستان میں نہیں ہوا۔ یہ لوگ چار سال سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں، ان کی وجہ سے عوام کو ریلیف مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ مقابلے کے امتحان میں ان میں سے چار پاس بھی ہوئے، لہٰذا سلیکٹ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق انہیں مستقل کیا جائے۔

سپیکر نے وزیر قانون سے مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا وجہ ہے کہ یہ سٹاف مستقل نہیں ہو رہا، وزیر قانون نے سفارشات میں اختلافی نوٹ بھی لکھا ہے، کیا کوئی قانونی خلا ہے؟ جس پر صوبائی وزیر قانون اورنگزیب ایڈووکیٹ نے کہا کہ اختلافی نوٹ لکھنے کی دو وجوہات ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ ایوان سپریم ہے لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ قانون سازی پر توہین عدالت کا نوٹس دیا جا رہا ہے، اگر یہ سپریم ادارہ ہے تو پھر اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کو نوٹس کا مطلب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام لوگ پراپر طریقہ کار کے مطابق بھرتی ہوئے، پہلے شارٹ لسٹنگ کی گئی، پھر 19 لوگوں کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا۔ انہوں نے چار سال خدمات انجام دی ہیں، ان میں سے بھی دو سول جج کے ٹیسٹ میں پاس ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے میرٹ پر تعینات کیا تھا، ہم عجیب واقعے کا سامنا کر رہے ہیں کہ کمیٹی کی سفارشات ابھی ٹیبل نہیں ہوئیں جس پر ابھی بحث ہو رہی ہے تو چیف کورٹ نے کہا کہ سلیکٹ کمیٹی کس قانون کے تحت سفارشات تیار کر رہی ہے، میں تو کہتا ہوں کہ اس ایوان کو قانون سازی ہی چھوڑ دینی چاہیے۔ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں لیکن آرمی چیف کے توسیعی کیس میں حالیہ دنوں سپریم کورٹ نے بھی واضح کیا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، آئین میں ترمیم پارلیمنٹ کا کام ہے، قانون سازی میں سپریم کورٹ نے بھی کوئی مداخلت نہیں کی، حیران ہوں آج یہ صورتحال ہے تو کل سارے ایوان کو نوٹس ملے گا، اس طرح تو منتخب نمائندوں کو گھر چلے جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلی کی سپرمیسی بہت بڑا سوال ہے، سوال یہ ہے کہ قانون سازی کرنی ہے یا نہیں، اگر کرنی ہے تو نوٹس کیلئے سب کو بشمول سپیکر تیار رہنا ہوگا۔ اسی دوران سپیکر نے ریمارکس دیئے کہ مجھے تو ابھی تک کوئی نوٹس نہیں ملا، ہم قانون سازی کرسکتے ہیں، طریقہ کار کے مطابق مسودہ پہلے کمیٹی کے پاس بھیجا جاتا ہے، اگر ہمیں نوٹس ملا تو جواب دینگے، لیکن کسی خوف سے ہم کام چھوڑ دیں تو یہ مناسب نہیں ہوگا، ہائوس کی اکثریت جو بھی فیصلہ کریگی وہ ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے رکن عمران ندیم نے کہا کہ آرمی چیف کیس میں سپریم کورٹ نے بتایا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے، پارلیمنٹ اتھارٹی ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بل ابھی پاس ہی نہیں کیا، یہ ایوان کی توہین ہے، ہمارا کام علاقے کی بہتری کیلئے فیصلہ کرنا ہے، انصاف دینا ہے، ہم نے اپنے ادارے کو مضبوط بنانا ہے تو اس بل کو منظور کرنا پڑے گا، بعد میں جو مرضی ہو دیکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پراسکیوٹرز کی طرح دیگر محکموں میں بھی کنٹریکٹ پر لوگ موجود ہیں، ان کیلئے بھی کوئی قانون سازی کی جائے یا اسی بل کو آگے لاگو کیا جائے۔ رکن اسمبلی کیپٹن (ر) سکندر علی نے کہا کہ قانون سازی ہر اسمبلی کا کام ہے لیکن اس بل کی کاپی ابھی فائنل نہیں ہوئی اس کے باوجود باہر کیسے لیک ہوئی اس پر نوٹس لیا جائے، میں بل کی حمایت کرتا ہوں کیونکہ یہ لوگ پراپر چینل کے تحت آئے ہیں، ہم کسی بھی صورتحال کیلئے تیار ہیں نوٹس نہ بھی ملا تو بھی جائیں گے۔

وزیر سیاحت فدا خان نے کہا کہ توہین عدالت کے نوٹس کے باوجود ہم بل کی حمایت کرتے ہیں، قانون سازی کرنا اسمبلی کا کام ہے، عدالتوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایوان کا احترام کریں۔ ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان نے کہا کہ کوئی عدالت ہمیں قانون سازی سے نہیں روک سکتی، ہم عوامی مینڈیٹ لے کر آئے ہیں، یہ ہمارا استحقاق ہے، جو بل ابھی منظور ہی نہیں ہوا تو ہمیں کس قانون کے تحت نوٹس دیا گیا، اسمبلی کے استحقاق کو مجروح کیا گیا ہے، دنیا کی کسی بھی عدالت نے ایسا نہیں کیا، ہم اپنی ذات کیلئے نہیں عوام کیلئے قانون سازی کرتے ہیں، ہم نے کسی کیخلاف بات نہیں کی، ہمارا کام ہی قانون سازی کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی کو اس بل کو منظور کرنا چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ ہم متفق ہیں اور قانون سازی کر سکتے ہیں۔ صوبائی وزیر فرمان علی نے کہا کہ سلیکٹ کمیٹی نے ایک ضابطے کے تحت سفارشات تیار کی ہیں، میں اس بل کی من و عن حمایت کرتا ہوں۔ وزیر ایکسائز حیدر خان نے کہا کہ یہ انسانی فطرت ہے کہ کسی کی عزت کرو گے تو عزت ملے گی، نوٹس کا جواب یہ ہے کہ بل کو پاس کیا جائے، نہ چاہتے ہوئے بھی حمایت کرنا ضروری ہے۔ وزیر تعلیم ابراہیم ثنائی نے کہا کہ یہ ایوان ریاست کا اہم ستون ہے، اس ستون کو آنکھیں دکھانا افسوس ناک ہے، یہاں سے قانون سازی نہیں ہوگی تو معاملہ حل نہیں ہو سکتا، نوٹس اسمبلی پر دبائو اور بلیک میلنگ ہے، میں اس بل کی بھرپور حمایت کرتا ہوں اور نوٹس کیلئے حاضر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ گو کہ بل میرے پاس ابھی تک آیا ہی نہیں پھر بھی حمایت کرتا ہوں، جو سزا دینا ہے دیدیں، اسمبلی پر حملہ قبول نہیں کرینگے۔

نواز خان ناجی نے کہا کہ میں تو کچھ اورسوچ کے آیا تھا یہاں آکر حقائق تو دو ررہ گئے کیونکہ میرے پاس بہت سارا مواد موجود ہے، یہ ہمارا کلچر رہا ہے کہ پہلے کنٹریکٹ پر کھپائو پھر مستقل کرو، ہم کب تک کنٹریکٹ پر نظام کو چلاتے رہیں گے، میں بذات خود اس بل کے خلاف تھا لیکن ایوان سے یکجہتی کے طو ر پر نہ چاہتے ہوئے بھی بل کی حمایت کرتا ہوں۔ کاچو امتیاز حیدر خان نے کہا کہ اسمبلی کا کام قانون سازی کرنا ہے، اس اسمبلی نے ملک کے دیگر صوبوں کی اسمبلیوں سے بہتر قانون سازی کی ہے۔ انہوں نے بل کی حمایت کرتے ہوئے یہ بھی مطالبہ کیا کہ دیگر محکموں میں موجود کنٹریکٹ ملازمین کو بھی مستقل کیا جائے۔ وزیر تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کہ یہ پوسٹیں سکیل 17 کی ہیں، اس لیے قانون کے مطابق گریڈ سترہ کی اسامیوں پر تقرریاں ایف پی ایس سی کے ذریعے ہوتی ہیں، گریڈ سترہ کی اسامی پر آپ بھرتی نہیں کر سکتے۔ مخالف وکلاء بھی یہی دلائل دیتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہر کام میرٹ پر ہو لیکن یہ نوٹس کا معاملہ آیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی حمایت کرتا ہوں۔ غلام حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ پی پی دور میں کنٹریکٹ ملازمین کو بھی بل کے ذریعے ریگولر کیا گیا، ہم نے سیپ اساتذہ کو بھی بل کے تحت مستقل کیا، میں بھی اس بل کی حمایت کرتا ہوں۔ پیپلزپارٹی کے جاوید حسین نے کہا کہ میں بل کی حمایت کرتا ہوں ساتھ میں یہ بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ دیگر محکموں میں جتنے بھی کنٹریکٹ ملازمین ہیں ان کی مستقلی کیلئے بھی کوئی بل لایا جائے تاکہ یہ کنٹی جنسی نظام کو ختم کیا جاسکے، اس حوالے سے سپیکر کی رولنگ بھی موجود ہے۔

جاوید حسین نے کہا کہ باتوں کی حدتک تو یہ ایوان سپریم ہے لیکن باہر جاکر ایک سیکرٹری بھی بات ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ اسلامی تحریک کی رکن ریحانہ عبادی نے کہا کہ بل کی مخالف نہیں دیگر محکموں کے کنٹریکٹ ملازمین کو بھی مستقل کیا جائے۔ جانباز خان، نسرین بانو اور شیریں اختر نے بھی بل کی حمایت کا اعلان کیا۔ جس کے بعد سپیکر نے بل کی متفقہ منظوری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں موجود کسی بھی رکن نے بھی مخالفت نہیں کی اس لیے اس بل کی متفقہ منظوری کا اعلان کیا جاتا ہے، ساتھ انہوں نے ریمارکس بھی دیئے کہ گورننس آرڈر کے تحت کوئی بھی عدالت مداخلت نہیں کر سکتی، اب چونکہ عدالت نے کوئی سٹے آرڈْر جاری نہیں کیا اس لیے عدالت کی بھی کوئی توہین نہیں ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ کنٹریکٹ پر پراسکیوٹر کی بھرتیوں کیخلاف جی بی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیف کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی، جس کے بعد عدالت نے ایف پی ایس سی کے ذریعے اسامیوں پر بھرتیوں کا حکم دیا تھا۔ عدالتی حکم کے بائوجود اسمبلی میں پراسکیورٹرز کی مستقلی کا بل لانے پر ہائیکورٹ بار نے ایک بار پھر چیف کورٹ میں پیٹیشن دائر کی جس پر عدالت نے سپیکر قانون ساز اسمبلی، وزیر قانون، وزیر بلدیات، چیف سیکرٹری سمیت سلیکٹ کمیٹی کے ممبران کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔ دوسری جانب ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے پراسکیوشن بل کی منظوری کیخلاف ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 830476
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش