0
Sunday 15 Dec 2019 22:05

پاکستان اب بھی امریکہ کے زیر تسلط؟

پاکستان اب بھی امریکہ کے زیر تسلط؟
رپورٹ: ایس اے زیدی

جنگل کا نظام ہے کہ چھوٹے جانور خونخوار درندوں اور اپنے سے زور آور جانوروں سے بچنے کیلئے جہاں اپنی جانیں بچاتے پھرتے ہیں، وہیں ان کی دوستی اور دشمنی سے اجتناب کرتے ہیں۔ دوستی سے اس وجہ سے کہ وہ جانتے ہیں کہ خونخوار درندے پر ہرگز بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، جبکہ دشمنی کی صورت میں ان کا خاتمہ یقینی ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب انسانوں کی دنیا میں چھوٹے ممالک طاقتور ملکوں کیساتھ خود کو قریب رکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں، یعنی وہ جانوروں کی دوسری ذکر کردہ روش پر چلتے ہوئے اپنے سے طاقتور ملک سے دشمنی مول لینے کے متحمل نہیں ہوسکتے، کیونکہ وہ اسی میں اپنی بقاء سمجھتے ہیں، تاریخ بشریت کی یہی روایت عام رہی ہے۔ امریکہ عرصہ دراز سے دنیا کی سپر پاور کہلاتا آرہا ہے، غالب اکثریت ممالک نے واشنگٹن کو سپر پاور تسلیم بھی کیا۔ پاکستان کی بات کی جائے تو قیام سے اب تک اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات لگ بھگ ایک جیسے ہی رہے ہیں، ان تعلقات میں تھوڑا بہت اتار چڑھاو تو آیا لیکن مجموعی طور پر کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔

پاکستان میں جمہوری دور ہو یا فوجی آمریت، امریکہ کا پاکستان کے نظام میں دخول رہا ہے، حتیٰ کہ حکومتوں کی توڑ پھوڑ اور تبدیلیاں بھی واشنگٹن کے اشاروں پر ہوتی رہی ہیں۔ افغان جنگ نے پاک، امریکہ تعلقات کو ایک نیا موڑ دیا، واشنگٹن نے سوویت یونین کیخلاف پاکستان کو اپنا اتحادی بنایا اور طالبان کو پروموٹ کیا۔ اس موقع پر پاکستانی حکمرانوں نے مستقبل کے حالات کو نظر میں رکھے بغیر خود کو مکمل طور پر امریکی گود میں ڈال دیا۔ اس جنگ کا نتیجہ سوویت یونین کیخلاف نکلا، تاہم پاکستان جس کو اپنے اتحادی اور اپنی فتح سمجھ رہا تھا، درحقیقت یہ وہ گڑھا تھا، جس پر پاکستان گھاس بچھا کر چھپا رہا تھا اور ایک وقت میں آکر خود اسی گڑھے میں گر گیا۔ اس جنگ اور اس کے نتیجے میں تشکیل دی جانے والی پاکستانی پالیسیوں کے نتییجے میں یہاں کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا، فرقہ واریت کا ناسور پیدا ہوا اور پاکستان دیگر دنیا سے ہٹ کر مکمل طور پر امریکی غلامی میں چلا گیا۔ پاکستان کا دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بننے کے بعد بھی واشنگٹن، اسلام آباد تعلقات میں کچھ عرصہ کیلئے اونچ نیچ پیدا ہوئی، تاہم کچھ عرصہ بعد ان تعلقات کو اپنی پوزیشن پر واپس لے آیا گیا۔

بعدازاں نائین الیون سانحہ اور پھر امریکہ کی افغانستان پر چڑھائی نے جہاں دنیا کے حالات کو ایک مرتبہ پھر نیا رخ دیا، وہیں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نے بھی نئی جہت اختیار کی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں پاکستان نے افغانستان پر امریکی حملہ کو بظاہر مکمل طور پر سپورٹ کیا، افغانستان پر طالبان اور القاعدہ کیخلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا نان نیٹو اتحادی قرار دیا گیا، تاہم دوسری جانب وقت گزرنے کیساتھ ساتھ جہاں پاکستان کے امریکہ کیساتھ تعاون کو تسلیم کیا جا رہا تھا، وہیں اسلام آباد پر ‘‘ڈبل گیم’’ کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ بعض امریکی حکام کا دعویٰ تھا کہ مشرف جہاں بظاہر امریکہ اور نیٹو کو سپورٹ کر رہے ہیں، وہیں طالبان اور دیگر جنگجو گروپوں کو بھی معاونت فراہم کر رہے ہیں، خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کو لیکر پاکستان کو دنیا بھر میں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس جنگ میں اسلام آباد نے ڈبل گیم کھیلی یا سنگل، تاہم اس کے اثرات نے پاکستان کو بے پناہ نقصان پہنچایا، پاکستان دہشتگردوں کا عالمی گڑھ بن گیا۔

افغانستان میں ہونے والی امریکی و نیٹو فورسز کی طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں کیخلاف کارروائیوں اور اسلام آباد کے اتحادی ہونے کی وجہ سے ردعمل کارروائیاں قرار دیکر پاکستان میں دہشتگردی کا بازار گرم کیا گیا، یہاں مسلح جتھے تیار ہوئے یا کئے گئے، جنہوں نے تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، جند اللہ اور دیگر ناموں سے خودکش حملوں اور دھماکوں کے نتیجے میں 80 ہزار سے زائد بیگناہ شہریوں، پاک فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز کے افسران و اہلکاروں، مذہبی شخصیات کو شہید کیا۔ افغانستان میں امریکہ نے جب اپنا رول محدود کرنے کا سوچا، تو اس وقت بھی اسلام آباد کی جانب دیکھا۔ افغانستان میں امریکی گرفت کمزور پڑنے، شام و عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کی ناکامی اور دوسری جانب چین، ایران اور روس کے مضبوط ہونے کے بعد عالمی حالات نے ایک نئی کروٹ لی۔ عالمی سطح پر ایران کے انقلاب اسلامی کے بعد طاقت کا توازن ایک مرتبہ پھر تبدیل ہونے لگا اور سوپر پاور کی پاور تقسیم ہونے لگی۔

ان بدلتے عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام آباد نے بھی آہستہ آہستہ امریکی دباو اور تسلط سے خود کو نکالنے کی پالیسی تشکیل دی، پاکستان کے اپنے فطری اتحادی چین نے سی پیک کی صورت میں اسلام آباد کو امریکی سائے سے کسی حد تک نکلنے کیلئے حوصلہ دیا، پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ایران کی امریکہ کیخلاف مقاوومت اور روس کے بڑھتے اثر و رسوخ نے پاکستان کو امریکہ پر ہی انحصار کرنے کی پالیسی ترک کرنے کا موقع فراہم کیا۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت عالمی سطح پر طاقت کا توازن کسی ایک ملک کے بجائے مختلف ممالک پر منقسم نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان آج امریکہ کیساتھ پندرہ سال قبل والی پوزیشن پر نہیں نظر آتا، بلکہ یہ تعلقات کسی حد تک آقا و غلام سے نکل کر مفادات کی جانب آئے ہیں۔ اسلام آباد اور واشنگٹن کے دوطرفہ تعلقات کو خراب تو نہیں کہا جاسکتا اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان اس وقت امریکہ کے سامنے کھڑا ہے، تاہم اسلام آباد امریکی تسلط سے کسی حد تک نکل چکا ہے اور مزید بھی نکلنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔
خبر کا کوڈ : 832952
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش