0
Friday 20 Dec 2019 08:04

امریکہ کا زوال اور اس کے عوامل(1)

امریکہ کا زوال اور اس کے عوامل(1)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جس تیزی سے ترقی کی تھی اور پوری دنیا پر غلبہ پانے کا خواب دیکھا تھا، وہ خواب امریکی قیادت کی گذشتہ دو عشروں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے تیزی سے بکھر رہا ہے۔ آج امریکہ جس تیزی سے زوال کا شکار ہے، اس کے کئی محرکات ہیں۔ اکثر تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ امریکہ کی عالمی ساکھ اور اس کی غلبہ کی طاقت زوال پذیر ہے اور یہ زوال اور گراوٹ صرف نرم نہین بلکہ سخت پاور میں بھی نمایاں ہے۔ بہت سے ماہرین کا تو کہنا ہے کہ امریکہ کی سوفٹ پاور تو زوال کی آخری حدود کو چھو رہی ہے۔ اس وقت دنیا کے اکثر ممالک امریکہ سے بے زار و مایوس نظر آرہے ہیں۔ امریکہ کے بارے میں عالمی برادری کی نگاہ گذشتہ چند عشروں میں بالکل تبدیل ہوچکی ہے۔ کسی زمانے میں امریکہ دنیا کے عوام میں اگر کسی حد تک مقبول تھا تو آج دنیا کے عوام کے سامنے منفور ترین ملک امریکہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ امریکہ کے زوال کے عوامل فوری نہیں بلکہ عرصے سے زوال کا سلسلہ جاری ہے۔ طویل تاریخ کے اقدامات اس زوال کا باعث بنے ہیں، اس لیے اس کا آسانی سے معالجہ ممکن نہیں۔ یہ سنت الہیٰ ہے، یہ قابل مذمت اور ان کو زوال کا شکار ہونا چاہیئے اور انہیں عالمی سیاست سے حذف ہو جانا چاہیئے۔ امریکہ کے داخلی اور خارجی حالات امریکہ کے زوال کی نمائندگی کرتے نظر آرہے ہیں۔ امریکی جریدہ بوسٹن کلیپ کے مطابق بیسویں صدی میں ہماری طاقت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا، ہمیں دنیا کی رہنمائی کی عادت پڑ گئی تھی، لیکن مستقبل میں دنیا کی ہدایت و رہنمائی ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوگی۔ امریکہ جن شعبوں میں زوال کا شکار ہے، ان میں اہم ترین سیاسی شعبہ ہے، اس پر کئی زاویوں سے بحث کی جاسکتی ہے۔ اس کی ایک دلیل امریکہ کے اعلیٰ سطح کی لیڈر شپ میں مختلف موضوعات پر شدید اختلافات پایا جانا ہے اور ڈونالڈ ٹرامپ کے آنے کے بعد تو اس خلیج میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

موجودہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ نے امریکی کانگریس، سینیٹ اور اپوزیشن کو جس طرح سے نظرانداز کیا ہے، اس سے ان اختلافات کی شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی جمہوریت بھی باہمی تضادات میں روز بروز الجھ رہی ہے اور اس وقت امریکہ کے اندر طاقت اور اختیار کے استعمال میں دو قطی نظام مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ملک کے اندر دو بڑی سیاسی جماعتوں میں نظریاتی کشمکش بھی اپنے عروج کو چھو رہی ہے۔ امریکہ کے دائیں بازو کی جماعت کنزرویٹو پارٹی میں اور بائیں بازو کی جماعت مکمل طور پر سوشلسٹ ڈیموکریٹ پارٹی میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ امریکہ کا حکمران طبقہ مختلف موضوعات من جملہ ٹیکس سسٹم، انشورنش، امیگریشن اور بیرونی سیاست کے حوالے سے واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ دونوں طرف اپنے اپنے نظریات پر ڈٹے ہوئے انتہا پسند افراد نظر آتے ہیں، جو کسی قیمت پر بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ ان موضوعات پر جدید قانون سازی کا عمل رک گیا ہے۔

بعض مواقع پر وفاقی حکومت کی طرف سے مالیاتی شعبے میں مکمل جمود اسی اختلاف کا منطقی نتیجہ ہے۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس کے بقول اس وقت ہمارے داخلی اور سیاسی اختلافات قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑے خطرے میں تبدیل ہوچکے ہیں، اس کی ایک وجہ ملکی سیاست میں بڑے سرمائے کا عمل دخل اور افراد و گروہوں کے درمیان سیاست بازی کا عمل دخل ہے۔ کانگریس بھی انہی عوام کی وجہ سے تقسیم ہے اور ہمارے حریفوں نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ ہمارے داخلی اختلاف کو ہمارے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کریں۔ امریکہ میں سیاسی جماعتوں کے درمیان داخلی اختلافات اور مختلف مسائل میں امریکی ایلیٹ کا بند گلی میں پہنچنا اس بات کا باعث بن رہا ہے کہ امریکہ کی ملک سے باہر طاقت روز بروز کمزور پڑ رہی ہے۔ امریکہ میں گذشتہ ایک صدی میں مختلف گروہوں اور جماعتوں نے اپنا اثرورسوخ اتنا بڑھا دیا ہے کہ وہ اب بڑے آرام سے اپنے انفرادی مفادات کو امریکہ کے اجتماعی مفادات پر کھلم کھلا ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات تو یہ گروہ ملکی مفاد کے خلاف قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

مثال کے طور پر کچھ عرصہ پہلے "حصص کی جنگ میں شریک امریکی سرمایہ داروں نے امریکی اقتصاد کی ایسا جھٹکا دیا، جس میں ملک بری طرح خسارے کے بجٹ جیسے چیلنج میں مبتلا ہوگیا۔ اس کی ایک اور مثال جب وفاقی حکومت کے مالیاتی نظام میں مکمل شٹر ٹائون نے امریکی اقتصاد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس اقتصادی جھٹکے نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ کی محبوبیت کو دسمبر 2018ء میں 44 فیصد کی سطح پر نیچے گرا دیا تھا۔ امریکہ میں صہیونی لابی یعنی ایپک کا اثرورسوخ بھی ناقابل انکار ہے۔ ہاروڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیفن والٹ جو عالمی سیاسی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، کے مطابق اس وقت امریکہ میں اسرائیل کے نفوذ کا سب سے بڑا عامل صہیونی تنظیم ایپک ہے۔ جو امریکہ کی خارجہ پالیسی کو اسرائیل کے فائدہ میں تشکیل دینے میں مشغول ہے۔ امریکہ میں سیاسی جماعتوں کے نظریاتی اختلافات اور ملکی امور میں عدم فعالیت نیز سیاسی امور میں خرچ ہونے والی خطیر رقوم جیسے عوامل امریکی حکمرانوں کی مقبولیت میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔

حکمران طبقے پر عوام کا اعتماد روز بروز کم ہو رہا ہے، جس سے سیاسی ڈھانچہ شدید متاثر ہو رہا ہے۔ موجودہ حالات میں امریکی صدر کے ساتھ ساتھ امریکی ایوان نمائندگان پر بھی امریکی عوام کا اعتماد کم ہوچکا ہے۔ امریکی عوام کی اکثریت ملک کی حالیہ صورتحال اور سست رفتار ترقی پر نالاں ہیں، اس کا حتمی نتیجہ ملکی نظام کے زوال کی صورت میں ظاہر ہوگا اور امریکی قیادت سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔ اس وقت صدر ٹرامپ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ کے خلاف مالی، اخلاقی اور اختیارات کے ناجائز استفادہ کے مقدمات امریکی عوام کو اپنے حکام سے مزید متنفر کرنے کا باعث بنیں گے۔ ماضی میں امریکی حکام کے بارے میں معمولی اعتراضات کے نتیجے میں امریکی حکام یا اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جاتے یا عوام کے سامنے اپنی مکمل صفائی پیش کرتے۔ آج ٹرامپ جس طرح اپنی غلطیوں پر ڈٹ گیا ہے، اس کے منفی اثرات پورے امریکی سسٹم پر پڑیں گے اور لوگ اس نظام سے مایوس اور بد دل ہو جائیں گے۔ اس طرح کے اقدامات ملک کو اندر سے کھوکھلا کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں بیرونی کمزوری بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

امریکہ میں انجام پانے والے اکثر سروے میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ کو داخلی اور خارجہ پالیسیون کے حوالے سے ناکام صدر قرار دیا جا رہا ہے۔ گلپ انسٹی ٹیوٹ کی سائٹ کے سروے نتائج کے مطابق اس وقت 39 فیصد امریکی عوام ان کی داخلی اور خارجہ پالیسی پر کسی حد تک مطمن ہیں جبکہ 2018ء میں یہ سطح 45 فیصد تھی۔ امریکی عوام کا اس وقت کانگریس سے بھی اعتماد کم ہوا ہے اور کمی کی اس شرح کا ماضی سے موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہاروڈ اور ہیرس انسٹی ٹیوٹ کے مشترکہ سروے کے مطابق امریکہ میں 2018ء میں وفاقی حکومت کے شٹر ڈائون کی وجہ سے ڈونالڈ ٹرامپ کی مقبولیت کی شرح 44 فیصد بھی نیچے چلی گئی ہے۔ امریکی نظام کے زوال کی ایک اور وجہ حکومت کی ناقص کارکردگی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے چار عشروں بعد یعنی اسی کے عشرے میں امریکہ کی کارکردگی اور ایفیشنسی میں نمایاں کمی ہوئی اور نظام کی کئی خامیاں کھل کر سامنے آگئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 833797
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش