0
Wednesday 15 Jan 2020 18:07

امریکی دعووں کی قلعی کھل چکی!

امریکی دعووں کی قلعی کھل چکی!
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات، جامعہ کراچی


نائن الیون کے بعد امریکہ نے پوری دنیا کو سبق یاد کروایا تھا کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے اور اس جنگ میں نہ جانے امریکہ نے کئی ایک ممالک میں دسیوں ہزار بے گناہوں کو بھی بھینٹ چڑھانے میں کسی قسم کی عار محسوس نہ کی۔ ان ممالک میں سر فہرست افغانستان، عراق، لیبیا، پاکستان میں ڈرون حملوں سے شہید ہونے والے افراد اور اسی طرح دیگر ممالک میں امریکی افواج کے ہاتھوں قتل ہونے والے ہیں۔ بعد ازاں ان تمام ممالک میں امریکی افواج کو شکست اور امریکہ کی سیاست اور منصوبوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ امریکہ پہلے ہی غرب ایشیائی ممالک میں ماضی میں یعنی 2000ء تک بدترین شکست کھا چکا تھا، لیکن نائن الیون کے بعد امریکی منصوبوں کو ایک مرتبہ پھر دھچکا لگا اور بات یہاں تک آن پہنچی کہ امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر غرب ایشیائی ممالک کے لئے ایک ایسا ناپاک منصوبہ تشکیل دیا کہ جس کا ہدف ایک طرف مسلمانوں کے سب سے اہم مسئلہ یعنی فلسطین کا مسئلہ ختم کرنا تھا اور ساتھ ساتھ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا تحفظ کرتے ہوئے گریٹر اسرائیل اور نیو مڈل ایسٹ کے فارمولہ کو عملی جامہ پہنانا تھا۔

امریکہ 2001ء سے 2006ء تک عراق، افغانستان اور خاص طور سے لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین ہونے والی 33 روزہ جنگ اور اسی طرغ غزہ میں 2008ء میں اسرائیل اور حماس کے مابین ہونے والی بائیس روزہ جنگ میں شکست کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ خطے میں دہشت گرد گروہوں کی مدد سے خطے کی تمام ریاستوں کو کمزور کیا جائے اور پھر ان ممالک کو کئی ایک چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے، تاکہ اسرائیل جو کہ گریٹر اسرائیل کے لئے مذکورہ بالا جنگوں میں شکست کے بعد ناکام ہوچکا ہے تو بالواسطہ طور پر ٹوٹنے والی ریاستوں کے مختلف ٹکڑوں پر صہیونیوں کی حکمرانی قائم کرکے خطے میں راج کیا جائے۔ اس عنوان سے امریکہ نے باضابطہ داعش نامی دہشت گرد تنظیم کو وجود بخشا، جس کا آغاز شام سے کیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اعلیٰ ترین اور جدید ترین اسلحوں اور امریکی فضائیہ کی کھلم کھلا مدد کے بعد شام سے نکل کر داعش عراق میں بھی جا پہنچی۔

امریکہ کی جانب سے داعش کے لئے بنائے گئے منصوبوں میں شام اور عراق کے بعد ایران کو غیر مستحکم کرنا اور اسی طرح داعش کو افغانستان میں لا کر پھر پاکستان کے خلاف سرگرم کرنا بھی شامل تھا۔ گذشتہ برس افواج پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ داعش کے وجود کے نشانات شمالی وزیرستان اور افغانستان و پاکستان سرحد پر پائے گئے ہیں۔ من جملہ یہ کہ امریکہ نے اپنی حاکمیت کو قائم کرنے کے لئے داعش کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف غرب ایشیائی ممالک کو نشانہ بنایا بلکہ ساتھ ساتھ جنوبی ایشیائی ممالک میں داخل ہو کر ایک طرف جہاں چین کی ترقی کو روکنا تھا، وہاں ساتھ ساتھ خطے میں امریکی و اسرائیلی پولیس مین ہندوستان کو بھی مزید شہہ دینا تھی، تاکہ خطے میں امریکہ کی مکمل بالا دستی ہو۔ اب اس کام کے لئے امریکہ کے ساتھ جہاں کئی ایک یورپی ممالک اپنے اقتصادی مفادات کی خاطر ساتھ ہو لئے تھے، وہاں ساتھ ساتھ اپنی بادشاہتوں کو بچانے کے لئے عرب دنیا کے کئی ایک خلیجی ممالک بھی اس شیطانی منصوبہ کا حصہ بن چکے تھے۔

حالیہ دنوں بغداد میں عراقی اور ایرانی فورسز کے کمانڈروں بالترین ابو مہدی مہندس اور قاسم سلیمانی کی امریکی افواج کے دہشت گردانہ حملوں میں شہادت کے بعد عرب دنیا اور بالخصوص مغربی ذرائع ابلاغ میں کئی ایک ایسی خبریں اور تجزیات شائع ہوچکے ہیں کہ جن میں باقاعدہ طور پر اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ قاسم سلیمانی صرف ایران کے ایک جنرل نہیں تھے بلکہ ایک ایسی عالمگیر مزاحمتی شخصیت تھے کہ جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل کے ان تمام منصوبوں کو خاک میں ملایا ہے کہ جس کے نتیجہ میں امریکہ اور اسرائیل غرب ایشیائی ممالک اور جنوبی ایشیائی ممالک کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور اپنا براہ راست یا بالواسطہ راج قائم کرنے کے خواہشمند تھے۔ ایسی چند تحریریں نظروں سے گزری ہیں کہ جس میں فلسطین میں بھی اس مجاہد اسلام قاسم سلیمانی کے چرچے ہیں کہ کس طرح انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کے منصوبوں کو فلسطینیوں کے خلاف کامیاب نہیں ہونے دیا اور اپنی خدمات انجام دیں۔

اسی طرح لبنان کے عوام بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ لبنان کی آزادی اور لبنان سے امریکی افواج کے انخلاء کا معاملہ ہو یا پھر صہیونی افواج کے انخلاء کا معاملہ ہو، شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ وہ لبنان کے لئے نجات دہندہ رہے۔ شام کی بات کر لیں تو یہاں ایسے افراد کے تجزیات سامنے آئے ہیں کہ جنہوں نے لکھا ہے کہ نہ صرف شام کے مسلمان بلکہ مسیحی بھی قاسم سلیمانی کو شام کے لئے ایک مسیحا مانتے ہیں کہ جنہوں نے شام کا دفاع کرنے میں فرنٹ لائن پر رہ کر مسلمانوں اور مسیحیوں کی ناموس و عزت کی حفاظت کی اور امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیم داعش کے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملایا۔ ایسا ہی رحجان عراق کے اخبارات میں بھی موجود ہے کہ قاسم سلیمانی اور ابو مہدی عراق میں اسلامی مزاحمت کے دو ایسے درخشاں کردار ہیں کہ جن کی بدولت آج عراق کے شہروں اور دیہاتوں میں داعش جیسی خبیث اور دہشت گرد تنظیم کا وجود ختم ہوا ہے اور عراق میں بلا تفریق مسلمان، مسیحی اور دیگر مسالک و مذاہب کے لوگوں کی ناموس اگر محفوظ رہی ہے تو اس کا سہرا قاسم سلیمانی اور ابو مہدی جیسے عظیم فرزندان اسلام کو جاتا ہے۔

امریکی اخباروں اور تجزیہ نگاروں کی اگر بات کی جائے تو یہاں بھی قاسم سلیمانی کے لئے ایسے ہی جذبات اور احساسات موجود ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کو قتل کرنے کے احکامات صادر کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ نہ تو پہلے کبھی دہشت گردوں کے خلاف تھا اور نہ آج کسی قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے، بلکہ یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ امریکہ نے داعش جیسی خطرناک تنظم کو خود بنایا، مالی و مسلح معاونت کے ساتھ ساتھ عسکری تربیت فراہم کی اور پھر اس دہشت گرد گروہ کے مقابلہ میں لڑنے والے فوجی کمانڈروں کو بغداد میں ایک بزدلانہ اور دہشت گردانہ کاروائی میں قتل کر دیا ہے۔ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے تمام تر دعوے جھوٹے اور فریب پر مبنی ہیں کہ جس میں امریکہ دنیا کے ممالک کو کہتا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ چاہتا ہے بلکہ بغداد میں امریکی افواج کی دہشت گردانہ کارروائی نے امریکی دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور دنیا کا بچہ بچہ اس بات کو جان چکا ہے کہ دنیا بھر میں تمام تر بدی کا محور امریکی نظام اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل ہے۔
خبر کا کوڈ : 838683
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش