1
Saturday 21 Mar 2020 16:17

پاراچنار، مقامی انتظامیہ اور اداروں کے انتقامی نشانے پر (2)

پاراچنار، مقامی انتظامیہ اور اداروں کے انتقامی نشانے پر (2)
تحریر: روح اللہ طوری

گزشتہ سے پیوستہ
4: علی زئی و غنڈی خیل اور غوزگڑھی کا مسئلہ: علی زئی اور غنڈی خیل قبائل دریائے کرم کے کنارے آر پار دو موضعات (کنج علی زئی اور نستی کوٹ) میں آباد ہیں۔ انکے موضعات افغان بارڈر خوشخرام اور منداتے کنڈاؤ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ تقریبا تین سو سال قبل یہاں پر آباد ہونے کے بعد لگ بھگ ایک صدی قبل انہوں نے افغان بارڈر پر موجود اپنی اراضی خصوصا جنگلات کو بعض جارح افغان قبائل سے بچانے کی غرض سے ایک افغان قبیلے مقبل کو یہاں بلا کر آباد کرایا۔ اور انکے لئے ابتداء میں مکانات بھی تعمیر کرائے۔ تاہم انکے ساتھ کچھ شرائط طے کئے، جو کہ سرکاری ریکارڈ میں موجود ہیں۔ وہ یہ کہ مقبل جنگل کی رکھوالی کریں گے، طوری قبائل کے سامان، کلہاڑی، گدھوں اور مویشیوں وغیرہ کی حفاظت کریں گے۔ جنگل کی لکڑی کاٹ کر فروخت نہیں کریں گے۔ صرف اپنی ضرورت کے لئے کاٹیں گے۔ اسی طرح دوسری شرائط رکھ کر انہیں پابند کیا گیا۔ تاہم طاقت پکڑنے کے بعد وہ اس علاقے کے دعویدار بن گئے۔ اور اپنے ہی مالکان کے لئے درد سر بن گئے۔ اس دوران کئی مرتبہ مقبلان کو علاقے سے بیدخل بھی کیا گیا، تاہم حکومت اور بعض بااثر شخصیات کی سفارش پر انہیں نئے شرائط کے ساتھ دوبارہ بحال کیا گیا۔ 1957ء میں ایک معاہدے کے تحت انکی نئی آبادی کو مسمار کردیا گیا۔ تاہم 1970ء میں حالات نے اس وقت سنگین صورت اختیار کرلی، جب پاراچنار شہر میں بننے والے مینار پر شیعہ سنی فسادات پھوٹ پڑے۔ تو اس دوران مقبلان نے افغانستان سے اپنے ہم نظر قبائل کے تعاون سے کنج علی زئی اور نستی کوٹ پر بھرپور حملہ کیا۔ اسی اثنا میں نستی کوٹ کے علاقے کنڈہ پر حملہ کرکے پختون روایات کو روندتے ہوئے یہاں سے تین خواتین کو بھی ساتھ لے گئے۔ اور یوں ایک نئی دشمنی کا آغاز کرگئے۔ اسکے بعد یعنی 1970 سے لیکر 1982 تک وقتا فوقتا لڑائیاں ہوتی رہیں۔ 1982 میں پی اے کرم کے توسط سے فریقین کے مابین ایک معاہدہ طے پاگیا۔ جسکی تفصیل امثلہ جات میں موجود ہے۔ 
اس وقت علی زئی اور غنڈی خیل قوم اپنے علاقے میں گھر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جبکہ مقبل، جو کہ یہاں بنیادی حقوق نہیں رکھتے۔ بلکہ وہ علی زئی اور غنڈی خیل کے کاشتکار اور مزارعین کی حیثیت رکھتے ہیں، درخواست کرکے اصل مالکان کو آباد کاری سے روک رہے ہیں۔ جبکہ اس میں انہیں انتظامیہ کا بھی  بھرپور تعاون حاصل ہے، جسے طوری اقوام نے تمام ریکارڈ اور امثلہ جات دکھاکر حقیقت سے آگاہ کیا، تاہم انتظامیہ پس و پیش سے کام لیتے ہوئے نہ صرف حق پر مبنی فیصلہ سنانے سے پہلو تہی کررہی ہے، بلکہ مقبلان کا باقاعدہ ساتھ بھی دے رہی ہے۔ 

تعلیمی امور میں ناانصافی:
پاکستان بلکہ دنیا بھر میں کسی بھی محکمے میں بھرتیوں کے حوالے سے ایک خاص طریقہ کار وضع ہے۔ جسے میرٹ سسٹم کہتے ہیں۔ جس کے تحت قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر امیدواروں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ اور مجوزہ اسامیوں پر انتہائی قابل اور اہل افراد ہی کو متعین کیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان کے دیگر علاقوں سے قطع نظر کرم میں 1992 میں ٹو ٹو ون (2۔2۔1) کے نام سے اپنی نوعیت کا ایک انوکھا قانون رائج ہوا۔ جس کے تحت محکمہ تعلیم میں بھرتی کے دوران پاکستان کے شمال مغربی سرحدی قبائلی علاقے کرم میں ہر پانچ میں سے دو افراد تحصیل اپر کرم سے، دو افراد تحصیل ایف آر (سنٹرل کرم) سے جبکہ ایک امیدوار تحصیل لوئر کرم سے منتخب کیا جاتا تھا۔ جسے بنیاد بنا کر ضلع کی سطح پر میرٹ کو پس پشت ڈال کر ایک مخصوص علاقے کو نوازتے ہوئے اپر اور لوئر کرم کے 50 سے لیکر 75 ایگری گیٹ مارکس تک کے حامل امیدوار کو نظر انداز کرکے ایف آر (جسے 2002 کے بعد سنٹرل کرم کا نام دیا جاچکا ہے) کے 40 تا 48 مارکس حاصل کرنے والے امیدواروں کا تعین کیا جاتا تھا۔ جبکہ پاکستان بھر میں اسکی مثال کہیں پر دستیاب نہیں تھی۔ اسے عدالتوں میں چیلنج کیا گیا۔ کئی سال بعد یہ قانون از خود ختم ہوا۔ 

ایڈیشنل ڈی ای او کا غیر قانونی عہدہ
اسکے کچھ ہی عرصہ بعد تقریبا 2007ء میں لوئر کرم صدہ میں ایڈیشنل اے ای او ( جسے اب ڈی ڈی او کہا جاتا ہے) کا خود ساختہ عہدہ ایجاد کیا گیا۔ جس کی مثال پاک سرزمین میں کہیں بھی نہیں ملتی۔ جسکے تحت ایک ہی ایجنسی ) جو کہ اب ضلع بن چکا ہے) میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے متوازی ایک اور غیر قانونی پوسٹ ایجاد کرکے اہلیان کرم کے حقوق پر آئے روز ڈھاکہ ڈالنے کی مسلسل مذموم کوشش ہورہی ہے۔ اور جو اتنا طاقتور ہے کہ قانونی اور 19 گریڈ ڈی ای او وہ کام نہیں کرسکتا جو یہ 16 گریڈ افسر کرسکتا ہے۔ انہوں نے اب تک سینکڑوں غیر قانونی، اور نااہل افراد کی تقرریاں کیں۔ جسکی سیاہ کاریوں کے خلاف کسی بھی احتجاج کو مقامی ذمہ دار افسران قابل توجہ ہی نہیں سمجھتے۔ اس حوالے سے ٹیچرز اور ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن نے ایک بار پھر کوششیں تیز کردی ہیں۔ اس مرتبہ چونکہ قومی ادارے ( انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی وغیرہ) بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں، شاید اس حوالے سے کوئی اہم فیصلہ سامنے آسکے۔

ہاسٹلز کی منظوری میں ناانصافی کا نیا ریکارڈ:
کسی بھی ضلع میں کسی بھی پراجیکٹ اور ترقیاتی منصوبے کی منظوری خالصتا میرٹ، آبادی وغیرہ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ تاہم کرم میں بھرتی سے لیکر ترقیاتی منصوبوں تک ہر کام فرقے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یقین نہیں آرہا تو ملاحظہ فرما کر خود ہی نتیجہ اخذ کریں۔ اگرچہ ایسے درجنوں ایشوز ہیں، تاہم مضمون کی طوالت کے پیش نظر ان سب سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اس ایک اہم مسئلے کا ذکر کئے دیتے ہیں۔ 

اپر کرم میں تقریبا 22 ہائی سکولز ہیں۔ جن میں سے تین غیر طوری قبائل یعنی منگل، مقبل وغیرہ سے متعلق ہیں۔ رواں سال کے لئے ہائی سکولز کے لئے تین سٹوڈنٹس ہاسٹل کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ ہمارے محترم اور منصف مزاج حکام اور اداروں نے 19 سکولوں کو نظر انداز کرکے تینوں کے تینوں ہاسٹل پاکستان مخالف افغان نژاد قبائل کے نام کرکے تعصب اور ناانصافی کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ انہیں اتنا بھی احساس نہیں ہوا کہ 19 سکولوں میں سے انہیں 1500 بلکہ 2000 طلبہ کے حامل بڑے بڑے سکولز نظر نہیں آسکے، جبکہ 100 سے لیکر 150 تک کی تعداد کے حامل تین بٹا تین سکول فورا نظر آگئے۔ اب خود سوچیں کہ اسے فرقہ واریت کے سوا کونسا نام دیا جاسکتا ہے۔
انتظامیہ کی ناانصافیوں کی فہرست کافی طویل ہے، جسکے لئے علیحدہ کتاب کی ضرورت ہے۔ تاہم یہاں صرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ 

شورکو کا مسئلہ، پیواڑ تنگی کا مسئلہ، کڑمان پہاڑ کا مسئلہ، دڑادڑ پہاڑ کا مسئلہ، خرلاچی بارڈر کا مسئلہ، نری میلہ علی شاری کا مسئلہ، صدہ امام بارگاہ اور مکانات کا مسئلہ، آڑاولی کا مسئلہ، علی زئی لوئر کرم کا مسئلہ، بوشہرہ حمزہ خیل شاملات کا مسئلہ، بغدے پہاڑ کا مسئلہ، پیواڑ تری منگل کا مسئلہ، ملیشیا اور فوج میں بھرتی کا مسئلہ وغیرہ کچھ ایسے مسائل ہیں، جن کا پتہ خود طوری قبائل کے اکثر جوانوں کو بھی نہیں۔ ان سب کا پتہ ہمیں انجمن حسینیہ، تحریک حسینی اور مجلس علمائے اہلبیت کے دفتر سے ہوا ہے۔ چنانچہ ان صفحات کے ذریعے مقامی سول اور فوجی انتظامیہ سے انصاف کا تقاضا کیا جارہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 851740
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش