1
Thursday 18 Jun 2020 22:30

بات آصف جلالی تک محدود نہیں

بات آصف جلالی تک محدود نہیں
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

فوج و پولیس سمیت کوئی محفوظ نہیں رہا، ستر ہزار عام پاکستانی مار دیئے گئے، قاتل یعنی کالعدم تنظیموں کے بانی، سرپرست اور سہولتکار  بڑے آرام سے اپنا کام کر رہے ہیں، احسان اللہ احسان سمیت متعدد چوٹی کے دہشت گرد انتہائی حساس اداروں کی قید سے فرار ہوچکے ہیں، بیچ بیچ میں جیلوں سے خطرناک قیدی بھاگتے رہتے ہیں۔ لوگ تعجب کر رہے ہیں کہ دہشت گردی کی پلاننگ کہاں ہوتی ہے، زیادہ باتیں نہیں کرتے، صرف آگسٹا آبدوز اور کراچی افیئر کا ہی مطالعہ کر لیجئے، آپ کے ساتوں طبق روشن ہو جائیں گے۔ اگر آگسٹا آبدوز کیس کے مطالعے کے بعد بھی آپ کسی نتیجے پر نہ پہنچیں تو پھر مبارکبادیں دینے والوں میں شامل ہو جائیں۔

ملک میں اس وقت مبارکبادیں دی جا رہی ہیں، چونکہ ہمارے دیس میں یعنی ہماری ریاست ِمدینہ میں دوبارہ سے ضیاءالحق کا نظامِ مصطفیٰﷺ واپس لانے کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ نئی نسل کی برین واشنگ پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں ایک بل منظور کیا گیا ہے، جس کے تحت ٹیکسٹ بک بورڈ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اسلامی کتب کی اشاعت سے قبل متحدہ علماء بورڈ سے منظوری لے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس متحدہ علما بورڈ میں نوے فیصد وہی لوگ ہیں، جو دہشت گردوں کے روحانی باپ ہیں، جو دہشت گردوں کو مجاہد کہتے ہیں اور اُن کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ پنجاب  حکومت نے  فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب کی جامعات میں قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھے بغیر ڈگری نہیں ملے گی۔ صوبہ پنجاب میں  قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھانے کو لازمی قرار دینے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ ہم سب یہ سوچے بغیر خوش ہیں کہ قرآن مجید کا کونسا ترجمہ پنجاب حکومت کے پیشِ نظر ہے۔ تمام مسلمان فرقے اِسی قرآن مجید سے ہی اپنے آپ کو برحق اور دوسروں کو غلط ثابت کرتے ہیں، حتیٰ کہ دہشت گرد اور کالعدم گروہ بھی قرآن مجید سے ہی استدلال کرتے ہیں۔

شاید ہمیں یہ یاد نہیں آرہا کہ اس سے پہلے ہماری یونیورسٹیوں سے القاعدہ اور طالبان سے منسلک طالب علم پکڑے جا چکے ہیں، پریشانی کی بات یہ ہے کہ اب یہ جو قرآن مجید کے حوالے سے نوٹیفکیشن کی بات ہے، کہیں طالب علموں کی برین واشنگ کو قانونی شکل تو نہیں دی جا رہی۔ خصوصاً چونکہ قرآن مجید کا نصاب اسلامیات کے مضمون کے علاوہ پڑھایا جائے گا۔ یہ پلاننگ کرنے اور قراردادیں لانے والے سب وہ لوگ ہیں، جو دہشت گردوں کو مجاہدینِ اسلام، اپنے بیٹے اور قوم کا اثاثہ کہتے ہیں۔

اب ایک اور قرارداد کا ذکر بھی ہو جائے، گذشتہ دنوں حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے مزار کی تعمیر کے حوالے سے پنجاب اور سندھ اسمبلی میں دو قرار دادیں منظور ہوئیں، جن پر  بڑی واہ واہ ہوئی۔ ابھی واہ واہ کی گونج تھمی نہیں تھی کہ ایک ناصبی مولوی نے حضرت فاطمۃ الزہراؑ کی شان میں گستاخی کر ڈالی۔ اس کی گستاخی کے بعد   اکابرین اہلِ سنت اور اہل تشیع اپنا احتجاج ریکارڈ کروا چکے ہیں اور سب کا یہ کہنا ہے کہ آصف اشرف جلالی نے گستاخی کی ہے، لیکن حکومت نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا، اسی طرح جو لوگ حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے مزار کی تعمیر کے حوالے سے سینہ ٹھونک کر کھڑے تھے، اُنہیں بھی شاید سانپ سونگھ گیا ہے۔

اس سے بھی عوام کو سمجھنا چاہیئے کہ ہماری اسمبلیوں میں کیا کچھ ہو رہا ہے، ایک طرف ناموسِ صحابؓہ و اہل بیتؑ کے بل، قرآن مجید کا ترجمہ پڑھانے کے فیصلے اور حضرت فاطمۃ الزہراؑ کے مزار کی تعمیر کی قراردادیں اور دوسری طرف حضرت فاطمۃ الزہراؑ کی شان میں گستاخی پر مکمل خاموشی۔۔۔ یعنی بات آصف جلالی تک محدود نہیں، ایسے معاملات میں آصف جلالی، کلبھوشن یادو، احسان اللہ احسان اور القاعدہ جیسے نام تو برائے نام ہوتے ہیں، دراصل پسِ پردہ آگسٹا آبدوز اسکینڈل کی طرح تہہ در تہہ چہرے ہی چہرے اور ہاتھ ہی ہاتھ ہوتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 869469
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش