1
Wednesday 24 Jun 2020 17:36

محتاج و مساکین کی امداد

جذبہ ہمدردی کے ساتھ ہوشیاری بھی لازمی
محتاج و مساکین کی امداد
تحریر: فدا حسین بالہامی
fidahussain007@gmail.com

اٹھارویں صدی میں انگریزی شعر و ادب پر اپنی منفرد اسلوب تحریر اور ندرت خیال کی دھاک بٹھانے والے اسکاٹ لینڈ کے معروف شاعر رابوٹ برنز(Robert burns) نے ایک مختصر مگر جامع نظم ”آزاد آدمی“ (The Free Man) کے عنوان سے لکھی ہے۔ اس نظم میں یہ شاعر کہتے ہیں کہ ”میرے پاس اس قدر پیسہ ہے کہ جو میرے لئے کافی ہے، لہٰذا مجھے قرضہ حاصل کرنے کے لئے کسی (سرمایہ دار) کی منت سماجت کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی میرے پاس اتنا مال و اسباب ہے کہ میں کسی کو قرضہ دے سکوں۔ میں نہ کسی کا حاکم و مالک ہوں اور نہ کسی کا غلام و مملوک۔ میرے پاس طاقت و قوت تو ہے لیکن میں کسی کو زیر کرنے کی ٹوہ میں نہیں ہوں۔ میں نہایت ہی خوش و خرم ہوں، کیونکہ میں کسی کے لئے غم زدہ نہیں ہوں گا۔ میں کسی کا خیال نہیں رکھتا اور نہ ہی میرا کوئی خیال رکھنے والا ہے۔“

ان چند اشعار کا بین السطور جو مفہوم ابھر کر سامنے آتا ہے، اس کے مطابق شاعر نے "آزاد آدمی“ کا انوکھا تصور پیش کیا ہے۔ جس کی رو سے وہی انسان آزاد کہلایا جائے گا کہ جو کسی دوسرے انسان کے خوشی اور غم سے متاثر ہو، نہ ہی اس کے درد و تکلیف اور فرحت و انبساط سے کسی کو کوئی سروکار ہو۔ سیدھے سادھے الفاظ میں رابرٹ برنز کے اس خیالی ”آزاد انسان“ کو کسی کے ساتھ کوئی لینا دینا نہ ہو۔ یہ اپنی کملی میں مست و مگن ہو۔ کسی کے کام آئے، نہ ہی اس کے کوئی کام آئے۔ نہ اس کا کوئی فرمان روا ہو اور نہ ہی کوئی اس کا فرمان بردار۔ نہ یہ کسی کے ناز و نخرے اٹھائے اور نہ کوئی اس کی کاسہ برداری کرے۔

بلاشبہ شاعری میں ایسے عجیب و غریب آزاد انسان کی تخلیق عین ممکن ہے، لیکن عملی دنیا میں اس طرح کے انسان کا تصور حماقت پر مبنی ہے، کیونکہ بنی نوع آدم کی خلقت کے تقاضے دیگر جانداروں سے بہت حد تک مختلف ہیں۔ اس کا تن تنہاء اس دنیا میں زندگی گزارنا محال ہے، اسے قدم قدم پر اپنے ہی ہم جنس انسان کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ یہ کبھی بھی دوسروں کی معاونت و امداد سے یکسر بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے میں ہی اولاد آدم کی بقائے باہمی کا راز پوشیدہ ہے۔ جس دن ابن آدم خود غرضی کے اس درجے پر پہنچے کہ وہ اپنے سوا کسی اور کے کام آنے کو ایک لایعنی عمل قرار دے اور ہر فرد بشر سے اپنا دست تعاون کھینچ لے تو سمجھ لیجئے کہ وہ انسانیت کی نابودی کا دن ہوگا۔ بالفرض ڈاکٹر ایک بیمار کسان کا علاج کرنے سے انکار کرے اور بدلے میں کسان، معالج کا دانہ پانی بند کر دے۔ ایک درزی بڑھئی کا لباس سلنے سے انکار کرے اور بڑھئی درزی کو مکان کی تعمیر میں اپنی خدمات بہم رکھنے سے مکر جائے تو کیا کارو بار زندگی ٹھپ ہو کر نہیں رہے گا۔؟

دراصل خالق آدم ذات کا یہی منشاء ہے کہ اولاد آدم مل جل کر رہیں۔ ان کے آپسی تعلقات فطرت کی مضبوط بنیاد پر ہی قائم ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ خالق کائنات نے کسی بھی ایک فرد بشر کو آج تک پیدا نہیں کیا، جو کامل طور پر خود انحصاری کا مجسم نمونہ ہو۔ خلقت کے اعتبار سے ہر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اگر خالق کائنات کی مرضی بھی یہی ہوتی کہ ہر انسان بغیر کسی سہارے کے اپنی الگ دنیا بسائے اور ایک کو دوسرے کی ضرورت ہرگز نہ پڑے تو ضرور خداوند متعال یکساں طور پر تمام بنی نوع آدم کی صلاحیتوں کی گٹھٹری میں وہ سب کچھ رکھتا، جس کی اسے ضرورت پڑتی، لیکن خلقت انسان پر معمولی سے غور و فکر کرنے پر یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ہر انسان ایک مخصوص شکل و صورت کے ساتھ ساتھ مخصوص ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی خصائص کے پہلو بہ پہلو مختلف نقائص و معائب لیکر دنیا میں قدم رکھتا ہے اور ہر فرد بشر ایک خاص پس منظر میں پروان چڑھتا ہے۔ یہ پیدائشی اختلاف اس بات کی طرف عندیہ دیتا ہے کہ تمام انسان ایک ہی کام اور ہدف کے لئے دنیا میں معمور نہیں ہوئے ہیں۔ اسی لئے ان کی بود و باش میں بھی یکسانیت کا ہونا ناممکن ہے، بلکہ معیار زندگی میں اونچ نیچ کا ہونا قدرتی امر ہے۔ یہ اونچ نیچ ہی کاروبار زندگی کو چلانے کے لئے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے۔

بہرکیف عالم بشریت آپسی تعاون و امداد پر منحصر ہے، یہ آپسی معاونت جس قدر مستحکم، قوی اور گہری ہو، انسانی معاشرہ اسی قدر متوازن، پائیدار اور انسان پرور ہوگا۔ اس لئے سب سے پہلے ایک آدمی کو یہ اٹل حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی پس و پیش نہ ہو کہ وہ تنہاء زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے دیگر آدمیوں کے تعاون کا محتاج ہے اور اسی طرح دیگر افراد بھی اس کی معاونت کے طلبگار ہیں۔ یہ معاونت دو طرح کی ہوسکتی ہے۔ ایک یہ کہ کوئی فرد بشر کسی کا ہاتھ بٹائے تو دوسرے شخص کے لئے یہ لازمی ہو کہ وہ بھی کسی نہ کسی رنگ میں اپنے اس معاون و مددگار کا بدلہ چکائے، جسے عمومی طور پر معاوضہ کہا جاتا ہے۔ مگر انسانی معاشروں میں بہت سی بے اعتدالیوں کی وجہ سے کچھ لوگ محض حاجت مند اور ضرورت مند ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جنہیں کوئی معاونت کرے تو وہ اس قدر کمزور و نحیف اور لاچار و لاغر ہوتے ہیں کہ معاوضہ چکانے کی قدرت نہیں رکھتے۔

ظاہر سی بات ہے کہ جن سے معاوضے کی کوئی توقع ہی نہ ہو، ان کی امداد اس خود غرض دنیا میں کون کرے۔ پس ان کی امداد کے لئے انسان کے اندر جذبہء ہمدردی و ایثار کا پایا جانا لازمی ہے، بصورت دیگر معاشرے کا یہ نحیف و نزار (کسی بھی اعتبار سے) زندگی کی جنگ لڑے بغیر ہی ہار جائے گا۔ قدرت نے بھی جن بہترین اور بے نعمل البدل نعمتوں سے انسان کو نوازا ہے، ان میں ایک جذبہء ہمدردی بھی ہے۔ یوں کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ جذبہء ہمدری ہی انسانیت کی اصل پہچان ہے۔ اس لحاظ سے جس فرد بشر کا جذبہء ہمدردی لالچ اور خود غرضی ملبے میں دب کر ختم ہو جائے، وہ ہرگز ہرگز انسان کہلانے کا حقدار نہیں ہوسکتا ہے۔ اس عظیم نعمت یعنی جذبہء ہمدری کو محفوظ رکھنے کے لئے قریب قریب تمام مذاہب و ادیان میں انتہائی تاکید دیکھنے کو ملتی ہے۔ دین مبین اسلام میں بھی حقوق العباد کے ضمن میں ایک مسلمان کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ اس کی بندگی کا دار و مدار نہ صرف حقوق اللہ کی ادائیگی پر منحصر ہے بلکہ حقوق العباد بھی اس کا جزو لاینفک ہے۔

دیکھا جائے تو خداوند کریم ایک انسان کو اپنی بندگی میں پختہ تر دیکھنا چاہتا ہے، تاکہ یہ بندہ اپنے اور اپنے ہم جنس انسانوں کے تئیں شفیق و مہربان واقع ہو۔ بقول کسے
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیان

جذبہء ہمدردی کا اظہار مختلف طریقوں سے ہوسکتا ہے اور ان طریقوں میں غریب و مفلس افراد کی مالی معاونت ایک معروف اور مستحسن طریقہ ہے۔ قرآن کریم میں انفاق، صدقہ، زکوات اور خمس وغیرہ جیسے مدوں میں مال خرچ کرنے پر بہت زیادہ تاکید ملتی ہے۔ رسول اکرم، ائمہ اہلبیت اور صحابہ کرام کی عملی زندگی میں بھی اس چیز کی کثرت سے تائید و توثیق دکھائی دیتی ہے۔ سیرت پیغمبر کے متعلق یہ روایت بکثرت نقل کی گئی ہے "کان اجود الناس بالخیر۔“ (بخاری و مسلم) (آپ(پیغمبر اکرم) تمام انسانوں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔) بقول حضرت ابو طالبؓ
وابیض یستسقی الغمام بوجھہ
ثمال الیتامی  عصمة للارامل

ترجمہ: وہ کہ جن کے نورانی چہرے کی وساطت سے رحمت باران مانگی جاتی ہے۔ جو بیواووں کا سہارا اور یتیموں کی آس و امید ہیں۔

سورہء دہر جس کا ایک اور نام سورہء انسان بھی ہے، کامل طور پر ائمہء اہلبیت علی الخصوص حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی فیاضی، سخاوت اور ایثار کے بیان میں نازل ہوا ہے۔ اس سورہ کا جو لب لباب بیان کرنا ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی ابتدائے آفرینش ایک حقیر قطرے سے ہوئی ہے اور اس کی انتہاء فنا ہے، لیکن اس درمیان اگر وہ انسانی ہمدری کے جذبے کو خلوص نیت کے ساتھ روبہ عمل لائے تو وہ ایک عظیم انسان بن جائے گا۔ یقیناً انفاق فی المال کی رغبت و ستائش میں نہ صرف دین اسلام نے سبقت لی ہے بلکہ اس نے محتاج و مساکین تک امداد رسانی کے لئے ایک مکمل نظام کو وجود میں لایا ہے۔ جسے خمس و زکواۃ اور بیت المال وغیرہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے کسی بھی صاحب ایمان کے پاس غریب و مسکین افراد کی مالی مدد سے پہلو تہی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

بہرحال مالی امداد بذات خود قابل تحسین عمل ہے، لیکن اس کا اصل مدعا و مقصد مدنظر رکھے بغیر ہر نیک عمل کی طرح اس کا بھی سوئے استفادہ ہوسکتا ہے اور نتائج بالکل برعکس برآمد ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر مستحق افراد کو امداد کے ذریعے یہ باور ہو کہ چونکہ ان کے لئے چند افراد اپنی کمائی میں سے ایک حصہ خوشی خوشی صرف کر رہے ہیں، لھٰذا انہیں اس حوالے سے فکرمند ہونے اور جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں ہے تو یہ تاحیات مستحق ہو کر رہیں گے۔ اس طرح کی اعانت منفی نتیجہ پر منتج ہوگی اور ایک مفلس کی مفلسی کو پختہ تر کر دے گی، کیونکہ ایسی صورت میں یہ لوگ اس اردو محاورے کے مصداق ہو جائیں گے کہ ”جب خدا دے کھانے کو بلا جائے کمانے کو“۔ اس تناظر میں راہ خدا میں خرچ کرنا اتنا بھی آسان معاملہ نہیں ہے کہ جتنا ہم سمجھ رہے ہیں۔ گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ جس کو انجام دینے کے لئے ہوشیاری سے کام لینا ہوگا۔ خاص طور اس دور میں جبکہ گدائی ایک نفع بخش تجارت بن گئی ہے۔

اجسمانی طور ناخیز افراد کو باضابطہ طور کسی فیکڑی کے مزدوروں کی طرح کام پر لگایا جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ کچھ ماڈرن اور پیشہ ور بھیک مانگنے والے گداگری کو ڈیجٹلائز کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ایسے میں اس بات کی چھان بین کرنا لازمی ہے کہ کہیں ہمارے خیرات و صدقات وغیرہ کی رقم گداگری کی تجارت کو فروغ تو نہیں دے رہی ہے۔؟ موجودہ دور میں جبکہ مسحق افراد کی امداد رسانی کے لئے شوشل میڈیا، ڈیجٹل اور پرنٹ میڈیا وغیرہ کا سہارا لیا جا رہا ہے، ایسے میں غرباء اور مساکین کی مدد کرنے والوں کو قدم پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ بہت سے پیشہ ور گداگر بھی اس چیز سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان ذرائع سے بھیک مانگنا نہایت ہی آسان ہے۔ نہ گھر گھر جا کر دستک دینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی شہر بہ شہر دربہ در ہونا لازمی ہے۔ بس ایک پوسٹ تیار کر دی، جس کے پس منظر میں بے بسی اور لاچاری جھلک رہی ہو اور پھر اپنے بینک اکاونٹ جمع شدہ رقم کے گراف میں اضافے پر نظر جمائے بیٹھا رہے۔

اس کی تازہ ترین مثال سرینگر کشمیر کے پائین شہر میں دیکھنے کو ملی، جہاں ایک شخص کی معہ اہل و عیال ویڈیو بنائی گئی، جس میں اس شخص نے یہ ظاہر کیا کہ وہ لاک ڈاون کی وجہ سے اپنی روز مرہ کی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اور اب کئی دنوں سے اپنے کم سن بچوں اور اہلیہ کے ساتھ محض پانی پر گزارہ کر رہا ہے۔ ویڈیو اس قدر ہیجان انگیز تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے محض چوبیس گھنٹوں میں ستائیس لاکھ روپیہ لوگوں نے مذکورہ شخص کے بینک کھاتے میں جمع کرائے۔ اخبار ہندوستاں ٹائمز میں چھپی ایک رپوٹ کے مطابق مذکورہ شخص نے یہ ظاہر کیا کہ وہ کئی ایک روز سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بھوکا ہے، جبکہ ایک مقامی رضاکار تنظیم نے اسے وقتاً فوقتاً غذائی اجناس پر مشتمل امداد بہم پہنچائی تھی۔

مذکورہ واقعہ ان افراد کے لئے چشم کشا ہے کہ جو جذبات کی رو میں بہہ کر بغیر پوچھے پاچھے کسی کی بھی مدد کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات نہایت ہی امید افزا بھی ہے کہ اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی بہت سے ایسے مخیر حضرات بھی موجود ہیں کہ جو نام و نمود سے بالا تر ہو کر انسانیت کا درد اپنے دلوں میں رکھتے ہیں، جبکہ عمومی طور پر اس دور مادیت میں ہر مادہ پرست انسان بزبان حال یہی کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ ”گر جان طلبی مضائقہ نیست، زر طلبی سخن در ایں است“ (یعنی اگر تو جان مانگے تو میری جان حاضر ہے، لیکن اگر روپیہ پیسہ مانگے تو مشکل ہے۔) ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جذبے کی قدر ہو اور ہر اعتبار سے اسے ناجائز فائدہ اٹھانے کی راہیں مسدود ہوں۔ اس کے لئے لازم ہے کہ ایک ایسا میکانزم تیار کیا جائے، جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ ایسے فریبی اور گدا گری کے خوگر افراد کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا جائے۔ جو راتوں رات بغیر محنت و مشقت کے دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 870616
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش