0
Thursday 9 Jul 2020 16:48

پاراچنار کے حالات کے حوالے سے مختلف شیعہ تنظیموں کی مشترکہ پریس کانفرنس

پاراچنار کے حالات کے حوالے سے مختلف شیعہ تنظیموں کی مشترکہ پریس کانفرنس
رپورٹ: روح اللہ طوری

آج بمورخہ 9 جولائی 2020ء کو پاراچنار پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں انجمن حسینیہ، تحریک حسینی اور دیگر تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تحریک حسینی کے سابق صدر مولانا یوسف حسین جعفری، انجمن حسینیہ کے رہنماء، مجلس وحدت مسلمین کے ضلعی سیکرٹری جنرل مولانا سید نقی شاہ، مولانا باقر حیدری اور دیگر نے کہا کہ عشروں سے نافذ انگریز کے تشکیل کردہ ظالمانہ قانون 40 ایف سی آر سے قبائل بالآخر جب تنگ آگئے تو اسکے خاتمے کے لئے احتجاج اور مظاہروں پر اتر آئے۔ نتیجتاً  یہ قانون اپنے انجام کو پہنچ گیا اور فاٹا کو کے پی میں ضم کر دیا گیا۔ ایف سی آر کے تحت کسی بھی شہری کو بغیر کسی جرم و گناہ کے گرفتار کیا جاتا تھا اور پھر اس کے خلاف وہ اپیل کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا تھا۔ تاہم قبائل کو یہ علم نہیں تھا کہ ایف سی آر کے خاتمے کے بعد اس سے بھی بدتر قانون قبائلی اضلاع میں نافذ کیا جانیوالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاید یہی وجہ تھی کہ مولانا فضل الرحمان ایف سی آر کے خاتمے اور نئے نظام کے اس طرح نفاذ کے مخالف تھے۔ چنانچہ اس نئے نظام کا پہلا تحفہ گذشتہ دنوں انہیں ایسی صورت میں موصول ہوکر یقین ہوگیا کہ مولانا فضل الرحمان کے تحفظات حق بجانب تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس موجودہ نظام کے تحت ایک نام نہاد سرکاری اہلکار وقوعہ سے 10 کلومیٹر دور صدہ میں بیٹھ کر اپنی مرضی کے افراد پر ایف آئی آر درج کرکے دعویٰ کرتا ہے کہ ملزمان نے لوگوں کو جنگ پر اکسایا۔ ملزمان نے براہ راست فائرنگ کرکے ایف سی کے ایک اہلکار کو قتل کیا۔ ملزمان نے چندہ وغیرہ اکٹھا کرکے لوگوں میں تقسیم کیا اور ایسے دیگر بے سروپا الزامات عائد کرکے اصل مسئلے سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او صدہ اور ڈی پی او کرم کے اس حالیہ اقدام سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کوئی پیشہ ور اور ذمہ دار پولیس افسر نہیں بلکہ یہ لوگ ملک کی فرقہ پرست تنظیموں کے اہلکار اور نمائندے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت ایف آئی آر میں لگائے جانے والے مندرجہ ذیل بے بنیاد اور کمزور نکات ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ایف آئی آر میں ناجائز قابض اور جنگ کا آغاز کرنے والے گروہ اور ان کے سرپرستوں کا اندراج نہ کرکے یہ لوگ اپنی غیر جانبداری کھو کر خود کو فریق ثابت کرچکے ہیں۔ جنگ سے پہلے طوری قبائل کی متعدد درخواستوں کے باوجود حالات کو کنٹرول نہ کرکے اپنی نااہلی ثابت کرچکے ہیں۔

رہنماوں کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ ایف آئی آر درج کرتے وقت ایس ایچ او وقوعہ کا وقت، تاریخ اور لوکیشن درج کرنا بھول بیٹھے ہیں۔ انہوں نے فقط اتنا کہا ہے کہ وہ پولیس اور دیگر فورسز کی بھاری نفری کے ساتھ وقوعہ پر پہنچ گئے۔ انہیں چاہیئے تھا کہ وقوعہ کا فکس ٹائم، تاریخ اور علاقے کا ذکر کر دیتے۔ حالانکہ ایس ایچ او اور ڈی پی او بذات خود وقوعہ پر سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ ایس ایچ او یہ وضاحت کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں کہ مذاکرات کیسے طے پائے، نیز فائربندی کا تحریری ثبوت پیش کرنے سے بھی وہ قاصر ہیں۔ حالانکہ مجوزہ افراد میں سے انہوں نے ایسے افراد کو بھی ملزم ٹھہرایا ہے کہ جن کی دن رات کوششوں ہی سے فائر بندی کا معاہدہ طے پایا ہے۔ صدہ میں بیٹھ کر فائربندی میں اہم رول ادا کرنے والوں کو نہ صرف نظر انداز بلکہ انہیں ملزم ٹھہرانا 40 ایف سی آر سے بدرجہا بدتر ہے۔ اس کے علاوہ SHO جھوٹ بول کر لکھتے ہیں کہ لڑائی مرغی چینہ اور اہلیان بالش خیل کے مابین ہوئی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لڑائی سنٹرل کرم کے پاڑہ چمکنی قبائل اور اہلیان بالش خیل کے مابین ہوئی۔ حالانکہ وقوعہ لوئر کرم کا علاقہ ہے، جبکہ پاڑہ چمکنی بیسیوں کلومیٹر کی مسافت طے کرکے سنٹرل کرم سے بالش خیل پر حملہ آور ہوگئے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ SHO الزام لگا کر کہتے ہیں کہ ملزمان نے ہزاروں لوگوں کو اکسا کر قانون اپنے ہاتھ میں لیا، ملزمان نے لوگوں سے چندہ جمع کرکے جنگ میں تعاون کیا۔ یہاں بھی ایس ایچ او ملزمان کی وضاحت کرنے میں ناکام ہے اور یہ کہ انہوں نے جن افراد پر الزام لگایا ہے، سیز فائر انہی کی مدد سے ممکن ہوسکی ہے۔ SHO ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے جنگ کے اگلے دن یعنی 29 جون کو ایف آئی آر درج کی ہے۔ حالانکہ ایک طرف تو تاریخ میں فلوٹنگ کرکے درستگی کی جاچکی ہے، دوسری جانب وہ یہ کہہ کر اپنے جھوٹ کی قلی کھول دیتے ہیں کہ ملزمان نے کئی دن تک چندہ اکٹھا کرکے لوگوں کو اکسایا اور یہ کہ جنگ کئی دن تک جاری رہی۔ اگر جنگ 28 کو شروع ہوئی اور 29 کو آپ نے یہ ایف آئی آر تیار کی تو آپ کو کئی دنوں کا علم کیسے ہوا؟ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ پولیس اور آرمی کی بھاری نفری موجود تھی اور یہ کہ مذاکرات کے ذریعے سیز فائر ہوئی۔ اس کے بعد ایف سی اہلکار قتل ہوا، حالانکہ سیز فائر 2 جولائی کو ہوگئی تھی، وقوعہ سے تین دن بعد۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایف آئی آر 29 جون کو نہیں بلکہ سیز فائر کے بعد 2 جولائی کو درج کی گئی ہے۔ ان کا الزام اس وجہ سے بھی بے بنیاد ہے کہ اتنی بھاری نفری کے باوجود ان کا کردار کیا تھا۔ اگر انہوں نے قاتل یا قاتلین کو بچشم خود دیکھا تو انہوں نے قاتل کے خلاف موقع پر کارروائی کیوں نہیں کی۔؟

اس کے علاوہ انہوں نے پولیس کے مذکورہ اور دیگر اعلیٰ اور ذمہ دار اداروں سے گزارش کی کہ وہ یہ تحقیقات کریں کہ مذکورہ SHO اور ڈی پی او نے واقعے سے قبل حالات کو قابو کیوں نہیں کیا۔ کیا حالات کو قابو میں رکھنا ان کی ذمہ داری نہیں تھی۔؟ ڈی پی او اور ایس ایچ او نے بالش خیل کی یکے بعد دیگرے متواتر درخواستوں پر توجہ کیوں نہ دی۔ جس میں انہوں نے اپنی زمینوں پر دوسری تحصیل (سنٹرل کرم) کے باشندوں کے ناجائز قبضے کے حوالے سے بار بار اپیلیں کی تھیں۔ کرنل عاطف اور ڈی پی او نے دونوں جانب سے قیمتی جانیں بچانے میں تعاون کیوں نہیں کیا۔؟ اور وقوعہ پر جانے کی بجائے صدہ میں بیٹھ کر اور فریقین کے ٹکراو کا تماشا دیکھ کر وہیں دور سے ایف آئی آر درج کرانے ہی پر اپنی توجہ کیوں مرکوز رکھی۔ کرنل عاطف اور ڈی پی او نے طوری قبائل کے مقتولین کی ایف آئی آر کیوں درج نہیں کرائی۔ کیا طوری قبائل جن کے خلاف جارحیت ہوئی تھی، کیا وہ انڈیا یا افغانستان کے شہری تھے۔؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ مقتول ایف سی اہلکار کا پوسٹ مارٹم کہاں ہے؟، ملزمان کے خلاف شہادت اور دیگر ثبوت کہاں ہیں؟ جبکہ دوسری جانب درجنوں چشم دید گواہ موجود ہیں کہ مقتول اہلکار نیز دو گاڑیوں اور طوری قبیلے کے تین دیگر افراد کو بھی اسی جگہ پر سنیپر کے ذریعے اوپر پہاڑ سے پاڑہ چمکنی قبائل نے ٹارگٹ کیا۔ ملزمان نے اپنے لوگوں اور گاڑیوں کو کیسے ٹارگٹ کیا۔ انہوں نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہ وہ کمزوریاں ہیں، جو ایف آئی آر میں واضح ہیں۔ اگر موجودہ قبائلی نظام اسی طرح بے انصافی پر مبنی ہے تو ان کے لئے اس سے ایف سی آر کا نظام بدرجہا بہتر ہے۔ اس میں تو بڑی آسانی کے ساتھ ایک ایس ایچ او، ڈی پی او یا کوئی بھی سرکاری اہلکار دور بیٹھ کر کسی بھی مہذب شہری کو اپنی ذاتی دشمنی کا نشانہ بنا کر انتقام لے سکتا ہے۔ چنانچہ وزیراعلیٰ، صدر اور وزیراعظم پاکستان خصوصاً آرمی چیف سے ہماری گزارش ہے کہ موجودہ ایف آئی آر کو درج کرنے والوں کا محاسبہ کرکے انہیں کڑی سزائیں دی جائیں اور ایف آئی آر کو فوراً خارج کرکے اصل مسئلے کا فوراً حل نکالا جائے، تاکہ علاقہ کسی بھی ممکنہ ٹکراؤ سے بچ سکے۔
خبر کا کوڈ : 873348
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش