0
Tuesday 28 Jul 2020 21:32

محسنِ کشمیر، شاہ ہمدان حضرت میر سید علی ہمدانی(رہ)

محسنِ کشمیر، شاہ ہمدان حضرت میر سید علی ہمدانی(رہ)
تحریر: جاوید عباس رضوی

عیب است بزرگ برکشیدن خود را     و ز جملۂ خلق برگزیدن خود را
از  مردمک   دیدہ   بباید آموخت      دیدن ہمہ کس را و ندیدن خود را  (شاہ ہمدان)

ایرانِ صغیر کشمیر کو ایران کبیر کے جس مردِ جلیل نے اپنے لاثانی اور غیر فانی عطیے سے ہمیشہ کے لئے زیر بارِ احسان کر رکھا ہے، وہ مُرشد روشن ضمیر حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی (رہ) کی ذات بابرکات ہے۔ جنہوں نے سات سو سال پہلے بادیہ پیمائی کے مرحلوں اور آبلہ پائی کی تمام صعوبتوں کے ساتھ وادی کشمیر میں ورودِ مسعود فرما کر یہاں کے عوام کو اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے بہرہ ور کر دیا۔ چودہویں صدی عیسوی کے عظیم مبلغ اسلام، معمار تقدیر امم اور سالار عجم میر سید علی ہمدانی (رہ) کی شخصیت اور ان کے زریں داعیانہ کارنامے کئی صدیاں گزرنے کے باوجود کشمیری قوم اور امت مسلمہ کے ذہنوں میں ترو تازہ ہیں۔ انہوں نے کشمیری قوم کو راہ توحید و سنت دکھا کر ایمان و اخلاق کی بے پناہ دولت سے فیض یاب کیا، وہ کشمیریوں کے عظیم محسن تھے، جن کی تعلیمات، احسانات اور تابندہ زندگی آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

حضرت امیر کبیر (رہ) کا اصلی نام میر سید علی ہمدانی تھا، ان کے والد کا نام سید شہاب الدین اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی فاطمہ تھا، ان کے والد ہمدان کے حاکم اعلیٰ تھے، میر سید علی ہمدانی 12 رجب المرجب 714ھ بمطابق 1314ء ہمدان ایران میں پیدا ہوئے، میر سید علی ہمدانی کی تعلیم میں ان کے ماموں علاء الدین سمنانی کا خاص عمل دخل تھا، جو سمنان کے حاکم بھی تھے، شاہ ہمدان (رہ) نے بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کر لیا تھا اور 12 برس کی عمر میں فقہ، عقائد، اصول، حدیث اور تفسیر جیسے اہم علوم سے روشناس ہوچکے تھے۔ سلوک و طریقت کی تعلیم شیخ شرف الدین محمود ابن عبداللہ المزدقانی (رہ) اور ابو البرکات شیخ تقی الدین (رہ) سے حاصل کی۔ علوم ظاہری و باطنی سے فارغ ہوکر میر سید علی ہمدانی نے اپنے مرشد شیخ شرف الدین محمود مزدقانی کے حکم کے مطابق دنیا کی سیر کی اور اس وقت کے علماء و صلحاء سے استفادہ حاصل کیا۔

آپ 21 برس تک سفر میں رہے اور اس دوران 12 مرتبہ حج کیا، اسی دوران آپ کو روحانی دنیا کے 33 کاملین نے خط ارشاد لکھ کر دیا۔ ان اسفار کا مقصد علماء و صلحاء سے استفادہ اور دین کی تبلیغ تھا۔ 21 برس میں آپ نے جن ممالک کی سیر و سیاحت کی، ان میں بلخ، بدخشاں، شام، بغداد، روم، ماوراء النہر، بیت المقدس، گاذروں، تبت، ترکستان، بلتستان، کاشغر اور کشمیر قابل ذکر ہیں، نتائج کے اعتبار سے کشمیر کا سفر اہم مانا جاتا ہے، حضرت امیر کبیر (رہ) کشمیر میں اشاعت اسلام کے مورث اعلیٰ تسلیم کئے جاتے ہیں، تاریخ کشمیر کے مطابق شاہ ہمدان سے قبل ہندو راجاؤں کے عہد میں اکا دکا مسلمان کشمیر میں آباد ہوچکے تھے، 1319ء میں شاہ میر کشمیر آئے اور 24 برس کے بعد 1343ء میں کشمیر کے سلطان بن گئے، لیکن کشمیر میں پہلے کامیاب مبلغ اسلام حضرت شرف الدین بلبل شاہ (رہ) ہیں، جو شاہ نعمت اللہ فارسی سہروردی (رہ) کے مرید تھے۔

ان کے ہاتھ پر تبت کے باشندے رینچن شاہ، جو ذوالقدر خان 1323ء کے حملہ کے بعد کشمیر کے بادشاہ بن گئے تھے، مشرف بہ اسلام ہوئے اور ملک صدرالدین لقب اختیار کیا، ان کی وفات کے بعد کوٹہ رانی تھوڑے سے عرصہ کیلئے اقتدار اعلیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، لیکن شاہ میر نے اس کی حکومت کا خاتمہ کرکے مسلم سلطنت و حکومت کی بنیاد ڈال دی۔ کشمیر میں مسلم سلطنت کے قیام کا سہرا رینچن شاہ کے سر بندھا اور مستحکم و مضبوط اسلامی ریاست کی سعادت شاہ میر کے حصہ میں آئی، انہوں نے شاہ میری سلطنت کی بنیاد ڈالی، جو اڑھائی سو برس تک قائم رہی، لیکن کشمیر کی روحانی تسخیر، ایمانی و اخلاقی فتح حضرت امیر کبیر شاہ ہمدان (رہ) کے حصہ میں آئی، جو اسی صدی کے اخیر میں ہمدان ایران سے کشمیر تشریف لائے، ایران جو صلحاء و علماء اور صوفیاء کا اہم مرکز تھا، اسکا اس ملک پر حق بھی تھا کہ جس ایمانی و روحانی دولت سے وہ صدیوں سے فیض یاب تھے، اسے اپنے ہمسایہ ممالک تک بھی پہنچائیں۔

اس سے قبل ایران ہی کے سلسلہ چشتیہ کے اکابرین خواجہ ابو محمد چشتی (رہ)، خواجہ معین الدین چشتی (رہ)، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی (رہ)، خواجہ فرید الدین گنج شکر، سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اور خواجہ علی صابر پیران کلیری نے ہندوستان کی سرزمین کو ایمان و ایقان اور علم و معرفت کے نور سے جگمگایا تھا، چودہویں صدی کے عظیم داعی حضرت میر سید علی ہمدانی نے کشمیر میں مذہب و سیاست، تہذیب و تمدن، صنعت و حرفت اور علم و فضل کے میدان میں تاریخ ساز اور انقلابی تبدیلیاں رونما کیں، حضرت امیر کبیر کی کشمیر آمد سے قبل اگرچہ ایک مستحکم مسلم ریاست کی بنیاد پڑچکی تھی، لیکن اسلامی تعلیمات ابھی تک عام نہیں ہوئی تھیں، حتیٰ کہ اس وقت کے بادشاہ کے عقد میں دو حقیقی بہنیں تھیں، حضرت امیر کبیر کے حکم پر اس نے ایک بیوی کو طلاق دے دی، کشمیر میں جو مسلمان آباد تھے، ان کی دینی حالت بھی شریعت کے مطابق نہ تھی، صدیوں سے کفر و شرک اور بت پرستی سے ظلمات کی دبیز تہہ میں لپٹی سرزمین کشمیر توحید کے لئے تڑپ رہی تھی اور کسی ایسے درویش و خضر راہ کی منتظر تھی۔

میر سید علی ہمدانی ایک بڑے سیاح ہونے کی وجہ سے، اس وقت کی اسلامی دنیا کے حالات سے بخوبی واقف تھے، میر سید علی ہمدانی نے کشمیر میں اشاعت اسلام کے امکانات کا جائزہ لینے کیلئے سید حسین سمنانی اور تاج الدین کو اس خطہ میں پہلے ہی روانہ کیا تھا، آپ نے جہاں عام کشمیریوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کیا، وہیں حکمرانوں کی اصلاح بھی کی اور انہیں اسلامی ریاست کے تقاضوں سے آگاہ کیا، علامہ اقبال (رہ) نے اپنی شاہکار فارسی تصنیف "جاوید نامہ" میں کشمیر کی جن دو شخصیات کا بڑی عقیدت سے تذکرہ کیا ہے، وہ دو شخصیات حضرت میر سیّد علی ہمدانیؒ اور ملّا طاہر غنی کاشمیری ہیں۔ بقول حضرت علامہ اقبال: سید السادات سالار عجم ۔ دست او معمار تقدیر امم۔ شاہ ہمدان نے ایک کامیاب سیاسی، سماجی و معاشی رہنما کے طور اپنی درخشندہ زندگی گذاری اور آپ حکومت کو شریعت کی تابع دیکھنا چاہتے تھے، اسی لئے علامہ اقبال نے انہیں ’’مشیر سلاطین‘‘ بھی کہا ہے۔

حضرت امیر کبیر 774ھ میں پہلی بار ایران سے کشمیر اسلام کی اشاعت کا عزم لے کر تشریف لائے، تب انہوں نے محلہ علاء الدین پورہ میں قیام فرمایا، 781ھ میں آپ دوبارہ کشمیر تشریف لائے اور اس مرتبہ اڑھائی برس قیام فرمایا، اس مرتبہ سادات کی بڑی تعداد آپ کے ساتھ تھی، مورخین نے ان کی تعداد 700 بتائی ہے، لوگوں کی اکثریت تک پہنچنے کے لئے انہوں نے اپنے پیرو کاروں سے تلقین کی کہ وہ کشمیری زبان سیکھیں، میر سید علی ہمدانی کو انکی بے انتہا کاوشوں کے نتیجے میں ’’محسن کشمیر‘‘ کا فخریہ لقب بھی دیا جاتا ہے۔ 785ھ میں تیسری مرتبہ کشمیر تشریف لائے اور 4 ماہ قیام کے بعد پکھلی کے راستہ زیارت حرمین الشرفین کی نیت سے واپس ہوئے، 6 ذی الحجہ 786ھ بمطابق 19 جنوری 1385ء کو ’’کنار‘‘ جو کہ پکھلی کے مضافات میں واقع ہے، انتقال فرمایا۔ اہل کشمیر اور پکھلی ان کا جنازہ اٹھانے سے قاصر رہے، حضرت قوام الدین بدخشی جو آپ کے خاص مرید تھے، انہوں نے جنازہ اٹھایا اور ختلان کی راہ اختیار کی، آخر 5 جمادی الآخر بمطابق 1385ء کو ترکستان کے شہر ختلان کے کولاب میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔

آپ کے ساتھ جو 700 سادات تشریف لائے تھے، انہوں نے وادی کشمیر اور اس کے اطراف و اکناف میں اپنی دعوتی سرگرمیوں کو جاری رکھا، 1394ء میں آپ کے فرزند سید میر محمد ہمدانی کشمیر تشریف لائے، آپ کے ساتھ 300 رفقاء بھی تھے، انہوں نے کشمیر میں 22 برس تک قیام فرمایا اور اپنے والد محترم کے تبلیغی مشن کو دوام بخشا، کشمیر میں آپ کی اولاد کو ایک خاص مقام حاصل ہے، آپ کی زیارت گاہوں سے اہل کشمیر کو عقیدتی وابستگی ہمیشہ رہی ہے اور باقی ہے۔ حضرت شاہ ہمدان (رہ) مفسر، محدث، فقیہ، مبلغ، صوفی، شاعر، عارف ربانی، داعی اسلام، سیاست سے آگاہ اور معمار اخلاق تھے، حضرت شاہ ہمدان نے بے شمار موضوعات پر کتابیں قلم بند کی ہیں، جن میں ’’ذخیرۃ الملوک، رسالہ درویشیہ، مکتوبات دہقاء، امیریہ، فوائد عرفانیہ، شرح اسماء اللہ، رسالہ در معرفت و صورت انسان، حقائق توبہ، علم القافیہ، مسائل السالکین، اسرار قلبیہ، اخلاق محترم وغیرہ نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔

ان رسالوں میں حضرت شاہ ہمدان نے مساوات، معاشرے کی تشکیل نو، ایک ساتھ نماز و طعام کے آداب وغیرہ بتا کر ایمانی اخوت اور اسلامی معاشرے کی شیرازہ بندی کی اور برہمنیت کی تخلیق کردہ تمیز ذات پات کو اس طرح روند دیا کہ لل دیوی، لل عارفہ بن گئی اور پنچال دیوتا، پیر پنچال بن گیا، آپ کی اہم ترین تصنیف ’’ذخیرۃ الملوک‘‘ ہے۔۔ حضرت شاہ ہمدان نے اہل کشمیر کو وعظ و تلقین کے اصول، فطرت انسانی کے انواع اور ان پر اخلاقی گرفت، تربیت کے اصول، خدام و خواتین سے سلوک، بازار و راستے کے آداب، دعوت و محافل کی کیفیت، منکرات سے اجتناب کے طور طریقے، حکمرانوں کی ذمہ داری، رعایا کے حقوق، مسلم و غیر مسلم رعایا سے حسنِ سلوک کے اخلاقیات سے بہرہ ور کیا۔ بقول قلمکار زیڈ جی محمد امیر کبیر میر سید علی ہمدانی (رہ) نے کشمیر میں دو درجن سے زیادہ دستکاریاں رائج کرنے کیلئے وسیع اور ترقی پسند پروگرام روبہ عمل لائے، انہوں نے اس سرزمین کو معاشی استحکام بخشا، اُن کے اپنے کشمیر کے پہلے دورے کے بعد بقول عبدالمجید عظمی ’’ختلان‘‘ کی خانقاہ میں اپنے مواعظ کے دوران دست کاروں کو کشمیر آنے کیلئے متحرک کرتے رہے، تاکہ وہ یہاں کے لوگوں کو مختلف دستکاریوں کی تربیت دے سکیں۔

تربیت دینے والوں کو کشمیر روانہ کرنا ان کا ایک نمایاں کار نامہ بن گیا تھا، جس کسی بھی دستکاری کیلئے مقامی طور پر خام مال دستیاب ہوتا تھا تو اس کیلئے ہر اس شخص کو تربیت دی جاتی تھی، جس نے اسلام قبول کیا تھا۔یہ مذہبی تربیت گاہیں پیشہ وارانہ تربیتی مرکزوں کے طور پر کام کیا کرتی تھیں، جہاں اسلامی تعلیم کے علاوہ طلباء کو مختلف ہنروں کی تربیت دی جاتی تھی، وہ قانونی طور پر جائز اجرتوں پر زندگی گذارنے میں یقین رکھتے تھے۔ میر سید علی ہمدانی یہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے پیروکار معاشرے پر طفیلی بن کر رہیں بلکہ انہوں نے کشمیریوں سے کہا کہ وہ ایک باعزت زندگی گذارنے کیلئے محنت کریں، وہ خود ٹوپیاں بنا کر اپنی روزی روٹی کماتے تھے، انہوں نے روایتی طرز کی خانقاہی زندگی کو خیرباد کہا، ان کی خانقاہ میں اوقات کار صبح 4 بجے سے 6 بجے تک اور شام 6 بجے سے 8 بجے ہوا کرتے تھے، دن کے دوران لوگ کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے تھے، 600 سال گذرنے کے بعد بھی یہ عمل مسلسل طور پر پھل پھول رہا ہے، کیونکہ اس عظیم سید نے کشمیر میں اقتصادی اصلاحات رائج کی تھیں، اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ آج بھی کشمیر میں زراعت دستکاری کو ریاستی معیشت میں دوسرے اہم شعبہ کی حیثیت حاصل ہے۔
خوشا عشق و خوشا عشق، خوشا میر و خوشا میر
خوشا خلوت ختلان و خوشا جلوت کشمیر
 کبیر ہمدان بود و امیر ہمہ دان بود
 امیر ہمدان رفت، حلاوت ز زبان رفت
دل خستۂ خود را سپردیم بہ تقدیر
(علیرضا قزوہ)
خبر کا کوڈ : 877152
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش