0
Saturday 1 Aug 2020 04:02

پے در پے فرقہ وارانہ سازشیں، ہدف کون؟

پے در پے فرقہ وارانہ سازشیں، ہدف کون؟
رپورٹ: سید عدیل زیدی

وطن عزیز پاکستان میں گذشتہ لگ بھگ آٹھ دہائیوں سے مختلف مکاتب فکر کے پیروکار ایک ساتھ رہتے چلے آرہے ہیں، اس دوران اکثر ملک میں بعض اوقات شرپسند عناصر نے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی تو ملک کے باشعور علمائے کرام اور مخلصین نے ہمیشہ عوام کی طاقت سے ایسی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ 80 کی دہائی سے باقاعدہ طور پر پاکستان میں لشکر تیار کئے گئے اور انہیں پروان چڑھایا گیا۔ یہ دور سابق آمر جنرل ضیاء الحق کا تھا، جس کے بعد پاکستان میں ایک خاص فرقہ وارانہ سوچ نے جنم لیا اور یہی سوچ آج بھی کسی نہ کسی صورت پاکستان میں مختلف مکاتب فکر کے مابین غلط فہمیاں ایجاد کرنے سمیت فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہے۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد جب ملکی سکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا اور قومی ایکشن پلان جاری ہوا تو توقع کی جا رہی تھی کہ ملک میں موجود فرقہ پرستوں کیخلاف بھی اسی انداز میں کارروائی ہوگی، تاہم ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ کچھ افراد کو شیڈول فور میں تو ڈالا گیا اور بعض پر پابندیاں بھی لگیں، تاہم فرقہ واریت کا موجب بننے والے عناصر کو نشان عبرت نہ بنایا جاسکا۔

گذشتہ چند سالوں کے دوران بریلوی اہلسنت مکتب فکر کا لبادہ اوڑھ کر ایک طبقہ نے سر اٹھانا شروع کیا اور اپنے سخت موقف کی بنیاد پر شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ تحریک لبیک کے عنوان سے تشکیل پانے والا یہ گروہ کچھ عرصہ بعد دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ اس تحریک کی جانب سے اہلسنت سمیت مختلف مکاتب فکر کی شخصیات سمیت متنازعہ ایشوز کو تسلسل کیساتھ موضوع تقاریر بنایا گیا اور بعض اوقات مقدس ہستیوں کے حوالے سے بھی متنازعہ باتیں کی گئیں۔ جس کی ایک مثال گذشتہ دنوں ڈاکٹر اشرف جلالی کی جانب سے خاتون جنت بی بی فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کی شان اقدس میں کی جانے والی گستاخی ہے۔ اس قبیح عمل پر اہل تشیع اور اہلسنت کی جانب سے یکساں شدید ردعمل سامنے آیا، تاہم اس مسئلہ نے ملک میں فرقہ وارانہ فضاء کو متاثر کرنے کی کوشش ضرور کی، جو کامیاب نہ ہوسکی۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل شام سے خبر آئی کہ بشار الاسد حکومت اور شیعہ تنظیموں کی جانب سے خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی قبر مبارک کو مسمار کیا گیا ہے اور ان کے جسد خاکی کی بے حرمتی کی گئی۔ اس خبر کو تکفیری گروہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے کافی تقویت دی اور حیران کن طور پر پاکستان میں اس خبر کو لیکر شدید ردعمل آیا۔

ملک کی مہذب اور سیاسی شعور رکھنے والی بعض مذہبی جماعتوں کی قیادت کی جانب سے بھی اس خبر پر بغیر تصدیق کے غم و غصہ کا اظہار کیا گیا، تاہم یہ ردعمل اس وقت یکسر ٹھنڈا ہوگیا کہ جب وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے شامی حکومت سے اس حوالے سے رابطہ کیا۔ اس رابطہ کے بعد نور الحق قادری نے شامی وزیر کیساتھ ہونے والی گفتگو کی تفصیلات سے قوم کو بذریعہ ٹوئٹ آگاہ کیا کہ شامی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز اور انکی اہلیہ کی قبر کو شدت پسند و دہشتگرد گروہ جبتھہ النصرہ نے مسمار کیا تھا، مذکورہ تصاویر اور ویڈیوز شامی حکومت کے دوبارہ قبضہ سے پہلے کی ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے مقبرے کی خبر پر ملک میں موجود ان طبقات نے بھی واویلا کیا، کہ جن کے عقیدے کے مطابق قبروں کو مسمار کرنا عین شریعت ہے۔ قبر کی مسماری کو اہل تشیع کیساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی اور سانحہ راجہ بازار 2013ء جیسا بھرپور پروپیگنڈا کیا گیا، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ خبر حقیقت پر بھی مبنی ہے یا نہیں اور اگر شامی حکومت اس میں ملوث ہے تو شام میں تو سنی حکومت موجود ہے۔

اس کے علاوہ چند روز قبل فرقہ واریت کی پٹاری کو کھولتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں تحفظ بنیاد اسلام کے نام پر کالعدم فرقہ پرست تنظیم کے ایم پی اے نے ایک ایسا بل متعارف کرایا، جو صریحاً شریعت اور آئین پاکستان کے خلاف تھا، حیران کن طور پر اس بل کو صوبائی اسمبلی میں منظور بھی کر لیا گیا۔ تاہم ملک میں بسنے والے محب اہلبیت (ع) شیعہ، سنی عوام و اکابرین کی جانب سے اس بل پر حسب توقع سخت ردعمل آیا اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ آخری اطلاعات آنے تک عوامی ردعمل کیوجہ سے اس بل پر عملدرآمد موخر کر دیا گیا۔ تاہم پے در پے پیش آنے والے درج بالا واقعات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت فرقہ وارانہ آگ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان سازشوں کا براہ راست ہدف ملت جعفریہ پاکستان کو بنایا جا رہا ہے، مسلسل ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طبقہ کی جانب سے ناقابل برداشت ردعمل آئے اور ایک خاص طبقہ کو مکمل طور پر دیوار سے لگانے کا جواز فراہم ہو۔

علمائے و اکابرین ملت جعفریہ نے ان تمام تر حالات میں انتہائی حوصلہ اور بردباری کیساتھ معاملات کو بہتر بنانے اور ملک کے بگڑتے حالات کو ٹریک پر لانے کی کوشش کی ہے، انہوں نے دشمن کی اب تک ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے اور وطن عزیز میں امن و امان قائم رکھنے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ تاہم یہ صورتحال تشویشناک ہے کہ ایک تسلسل کیساتھ یکے بعد دیگرے فرقہ وارانہ مسائل کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ یہ حالات جہاں حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والوں کیلئے توجہ طلب ہیں، وہیں دیگر مکاتب فکر کے علمائے کرام اور مذہبی قائدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان میں فرقہ وارانہ مسائل کا موجب بننے والے عناصر کو تلاش کریں اور دشمن کی کسی بھی سازش کا حصہ بننے میں محتاط رہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل، ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل جیسے پلیٹ فارمز کو بھی اس حوالے سے فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مکار دشمن ایک مرتبہ پھر ایسا کوئی مضبوط وار کرے، جو ہماری اتحاد و محبت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی جڑوں کو یکسر کاٹ کر رکھ دے۔
خبر کا کوڈ : 877696
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش