0
Wednesday 26 Aug 2020 14:55

کربلا ہوگئی تیار؟

کربلا ہوگئی تیار؟
تحریر: ارشاد حسین ناصر

کربلا اکسٹھ ہجری کا واقعہ ہے، جسے لگ بھگ چودہ صدیاں بیت رہی ہیں، مگر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہر سال محرم الحرام کا آغاز ہوتے ہی ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ غم و اندوہ کی داستان ابھی ہمارے سامنے رقم ہوئی ہے۔ ایسا غم ہے کہ یہ چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی تازہ ہے۔ ہم اس غم کو ایسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسا کوئی تازہ واقعہ ہوتا ہے، نا صرف تازہ واقعہ بلکہ ایسا جیسے ہمارے انتہائی محبوب اور سب سے پیارے کیساتھ کچھ ہو جائے۔ یہ عقیدت ہے یا محبت، معرفت ہے یا دیوانگی، شعور ہے یا بیداری، عشق ہے یا جنون، یہ ہر ایک کی الگ منزل ہے۔ کوئی اسے کیسے محسوس کرتا اور اپنے محسوسات کی روشنی میں اس پر ردعمل دیتا ہے۔ کوئی اس پہ شعر کہتا ہے، کوئی نثر لکھتا ہے، کوئی نوحہ لکھتا ہے تو کوئی مرثیہ۔ کوئی رزمیہ لکھتا ہے تو کوئی قصیدہ، کوئی ماتم کرتا ہے تو کوئی سینہ کوبی، کوئی زنجیر چلاتا ہے تو کوئی سینہ و سر پیٹتا ہے۔ کوئی واقعات کربلا کو مجلس کی صورت بیان کرکے لوگوں میں کربلائی جذبہ بیدار کرتا ہے تو کوئی علم و معرفت اور قیام کے مقاصد و اہداف بیان کرکے لوگوں کے اذہان کو کھولتا ہے۔

کوئی اس سے جذبہ جہاد کا درس لیتا ہے اور وقت کے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف بر سر پیکار ہو جاتا ہے۔ کوئی سیاست و حکمت کے موتی چن کر اقتدار و سلطنت پر براجمان یزیدی صفات کے حاملان کو شکست دینے کیلئے میدان میں اتر آتا ہے اور کوئی اسے دنیا پر ظلم و جبر اور زور و زبردستی کے ذریعے استعمار گردی اور یزیدی انداز اختیار کرنے والی طاقتوں کے خلاف درس حریت لیتے ہوئے اپنی منزل آگے بڑھاتا ہے، کوئی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے اپنے ملک، اپنے خطے، اپنے لوگوں کو آزادی دلوانے کیلئے جذبہ ایثار و قربانی اور جہاد و شجاعت لیتے ہوئے اپنی جانوں پر کھیل جانا سعادت سمجھتا ہے۔ یہ سب ہر ایک کی اپنی منزل ہے، ہر ایک کا شعور و فکر ہے، ہر ایک کی معرفت اور بلندی ہے۔ ہاں چودہ صدیوں سے جب سے یہ تاریخ کا عظیم معرکہ ریگ زار کربلا میں امام حسین اور ان کے اصحاب با وفا و خانوادہ عصمت و طہارت کے پاکباز مرد و زنان نے انجام دیا ہے، ہر دور اور صدی میں درس کی صورت موجود رہا ہے اور سماج کو متاثر کرتا آرہا ہے۔ معاشرہ پر اس کے اثرات دیکھے گئے ہیں، تاریخ ان چودہ صدیوں میں اس کو ہر دور میں زندہ اور تازہ پاتی آئی ہے۔

اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیں یا اس عظیم واقعے کے اثرات کو جانچنا چاہیں تو ہمیں اپنے دور کا جائزہ لینا ہی کافی ہوگا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین اور ان کے پاکباز اصحاب کی عظیم قربانی کا یہ عظیم واقعہ ہمارے معاشروں اور سماج نیز عالمی سطح پر کیسے اثرات مرتب کر رہا ہے، اس کے اثرات کہاں کہاں پھیلے ہوئے ہیں، اس کی بازگشت کہاں کہاں سے آتی ہے۔ اس کو کون کس انداز میں محسوس کر رہا ہے، کس نے اس سے کیا درس لیا ہے۔ کوئی اسے ایک غم و اندوہ کی داستان اور رونے رلانے کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے، کسی کے نزدیک خانوادہ عصمت و طہارت پر ہونے والے مظالم اور امام حسین و اصحاب باوفا کا ظالمانہ قتل اور پھر مخدرات عصمت و طہارت کو ننگے سر بازاروں و درباروں میں پھرانے کی بدترین گستاخی و توہین کا دکھ مٹائے نہیں مٹتا اور بھلائے نہیں بھلایا جا سکتا تو وہ اسی چیز کو یاد کرکے یزید اور اس کی افواج کے کمانڈرز کو لعن طعن کرکے اپنے دل کا غبار ہلکا کرتے ہیں اور آنسووئوں کے سیلاب سے یزیدیوں کو تاریخ کے اوراق میں بہا لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

مگر موجودہ دور میں بالخصوص جب سے ایران میں انقلاب اسلامی برپا ہوا ہے اور اس کے بانی حضرت امام خمینی نے یہ فرمایا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، اسی محرم و صفر کی بدولت ہے اور محرم وہ مہینہ ہے، جس میں خون تلوار پہ فتح مند ہوا۔ یہ اور اس طرح کے ان کے انقلابی افکار نے دنیا کو یکسر ایک نیا پیغام دیا ہے، جس میں اک نئی تازگی ہے، جس میں ایک نئی روشنی ہے، جس میں ایک نیا جذبہ ہے، جس میں ایک نیا راستہ ہے، ان لوگوں کیلئے جو موجودہ دور میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جو یزیدی طاقتوں کے نرغے میں ہیں اور ان پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، جن پر روز آتش و آہن کی برسات ہوتی ہے، جن کے گھر اور بستیاں تاراج کی جاتی ہیں، جن کی عصمتیں لوٹی جاتی ہیں، جن کی خواتین کی بے احترامی ہوتی ہے اور کوئی ساتھ نہیں دیتا، کوئی ان کی صدا کو نہیں سنتا، جیسے کربلا کے ریگزار میں آبادیوں سے دور نواسہء رسول و آل رسول کو شہید کرکے ان کے خانوادے کو اسیر کرکے بازاروں میں یہ کہہ کر پھرایا گیا کہ (نعوذباللہ) یہ باغی گروہ ہیں۔

امام خمینی (رہ) کی امامت و رہبری میں آنے والے انقلاب نے ایسے پسے اور مستضعف و کمزور انسانوں اور طبقات کو اس حوالے سے امید کی ایک روشنی دی کہ ظالموں کے خلاف جدوجہد کامیاب ہوسکتی ہے۔ ہاں اس کیلئے ضروری ہے کہ کربلا کا میدان سجایا جائے، کربلائی جذبے بیدار کئے جائیں، کربلائی رہبری کی جائے، کربلائی مائیں اور کربلائی جوان ہوں، کربلائی سوچ اور کربلائی افکار ہوں، جہاں چراغ بجھا دیئے جاتے ہیں اور رخصت عام دی جاتی ہے تو کوئی ایک بھی جان بچانے کے اس موقعہ کو غنیمت نہیں سمجھتا بلکہ امام کی قیادت میں موت کو گلے لگانا چاہتا ہے اور اس پہ فخر محسوس کرتا ہے، اس کو نجات سمجھتا ہے، اس موت کو زندگی سمجھتا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران سے یہ آج کے دور میں ثابت ہوگیا ہے، یہ جذبے جہاں جہاں بھی پیدا ہونگے، وہاں آزادی کی نوید سنائی دے گی۔ غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں گی اور مضبوط و جابر حکومتیں دھڑام سے زمین بوس ہو جائیں گی۔ آج ہمیں اپنے ارد گرد دیکھنا ہے کہ کہاں کہاں کربلا تیار ہے؟ کہاں کہاں کربلائی مائیں اور سیرت علی اکبر و قاسم و عون و محمد علیھم السلام کے جذبوں کا تلاطم ہے۔

یہ سچ ہے کہ کربلا دراصل کرب و بلا ہے، کربلا حق کے راستے میں مصائب کے پہاڑ کا نام ہے، کربلا باطل سے ٹکراتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا نام ہے، کربلا اسارتوں، شہادتوں، زخموں سے چور بدنوں کی کہانی ہے، کربلا موت کے ذریعے حیات پانے کا نام ہے۔ کربلائی ہونا ہے تو پھر گھر بار، کاروبار، بچوں کی فکر سے آزاد ہو کر جہاد کا نقارہ بجتے ہی حرم ہائے مقدس کے دفاع کیلئے حاضر ہو جانا ہے۔ یہاں چوں، چراں، چونکہ، چنانچہ کی بہانہ بازی نہیں چلتی، نام کیساتھ کربلائی لکھنا آسان ہے مگر بننا مشکل ہے۔ کربلائی کہلانا ہے تو یہ سب زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ اگر یہ نہیں ہوگا تو کربلائی نہیں ہوگا، کربلائیوں کی یہی روایت ہے، یہی نشانی ہے۔ شہادتیں، اسارتیں، ہجرتیں، زخمی و چھلنی بدن اور موت پر جا پڑنا، موت کو آگے بڑھ کے گلے لگانا۔ دیکھیں اور غور کریں کہ ہمارے حصے کی کربلا تیار ہے یا ابھی چون، چراں، چونکہ، چنانچہ میں پھنسی ہوئی ہے۔۔۔۔ پروردگارا عاشور کے ان ایام میں دست دعا ہے کہ ہمیں صحیح کربلائی بنا دے، تاکہ ہم وقت کے امام کی نصرت کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں، میدان میں حاضر ہوسکیں۔
خبر کا کوڈ : 882559
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش