2
Friday 25 Sep 2020 16:41

ایران پر سعودی فرمانروا کے الزامات، حقیقت کیا ہے؟

ایران پر سعودی فرمانروا کے الزامات، حقیقت کیا ہے؟
تحریر: مہدی عزیزی
 
حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 75 واں اجلاس منعقد ہوا ہے۔ سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز نے اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ گذشتہ سال سعودی آئل تنصیبات آرامکو پر انجام پانے والے میزائل حملے اس نے انجام دیے تھے۔ انہوں نے کہا: "ایران اپنے بیلسٹک میزائل اور ڈرون طیاروں کے ذریعے سعودی عرب کیلئے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے اور حسب سابق سعودی عرب کو بیلسٹک میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے نشانہ بنا رہا ہے۔" جن افراد نے سعودی عرب کے مریض فرمانروا کو یہ تقریر لکھ کر دی تھی وہ شاید انہیں یہ بتانا بھول گئے تھے کہ عالمی رائے عامہ خطے سے متعلق حالات کے بارے میں بہت زیادہ آگاہ ہو چکی ہے۔
 
سعودی فرمانروا کی جانب سے ایران پر یہ الزامات عائد کئے جانے کے پس پردہ کئی حقائق پوشیدہ ہیں۔ ایک حقیقت تو یہ ہے کہ سعودی فرمانروا الزائمر کے مرض میں مبتلا ہیں اور یہ بیماری نہ صرف جسمانی مرض ہے بلکہ آل سعود رژیم اور سعودی عرب پر حکمفرما نظام بھی بیمار ہو چکا ہے۔ آل سعود رژیم جو عوامی حمایت سے عاری ہے اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر تباہی کی جانب گامزن ہے۔ سعودی حکمران بخوبی آگاہ ہیں کہ خطے کے حالات جس سمت آگے بڑھ رہے ہیں اور مستقبل قریب میں جو منظرنامہ سامنے آنے والا ہے اس کے تناظر میں ان کی سیاسی موت یقینی ہے۔ اب پیٹرو ڈالرز بھی ان کیلئے مددگار ثابت نہیں ہو سکیں گے اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی انہیں اقتدار میں باقی نہیں رکھ سکے گا۔
 
سعودی عرب کے اندرونی حالات اقتصادی، سیاسی اور مذہبی میدانوں میں شدید انتشار اور خلفشار کا شکار ہو چکے ہیں۔ مذہبی انتشار کی بنیادی وجہ سعودی عرب میں رائج روایتی وہابی طرز فکر کی جانب سے سعودی حکمرانوں کی دوغلی پالیسیوں کی مخالفت ہے۔ ایک طرف سعودی عرب کا روایتی معاشرہ مغربی تہذیب اور اقدار کی جانب راغب ہو چکا ہے جبکہ دوسری طرف وہابی مذہبی اسٹبلشمنٹ اس کی شدید مخالف ہے۔ یوں سعودی معاشرہ اس وقت ایک دو راہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف مغربی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے دباو پایا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف وہابی علماء اور مذہبی رہنماوں کا دباو ہے۔ آل سعود رژیم ایک طرف وہابی رہنماوں کو راضی رکھنے کیلئے معاشرے میں مخصوص پابندیاں جاری رکھنے پر مجبور ہے جبکہ دوسری طرف اپنے مغربی آقاوں کی خاطر کچھ سماجی آزادیوں کا بھی اجرا کرنا چاہتی ہے۔
 
علاقائی سطح پر بھی آل سعود رژیم شدید ناکامیوں سے روبرو ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں حاصل ہونے والی ناکامیوں کے باعث سعودی عرب کے بعض اتحادی اسے چھوڑ چکے ہیں جبکہ دیگر شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ سعودی عرب کے اتحادی مغربی ممالک بھی انسانی حقوق سے متعلق ایشوز کے بارے میں منافقانہ موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کیونکہ وہ بڑے پیمانے پر آل سعود رژیم کو اسلحہ فراہم کرنے میں مصروف ہیں اور یہی اسلحہ یمن میں بے گناہ شہریوں کے قتل عام میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی سیاسی، مالی اور فوجی حمایت میں سعودی حکمرانوں کا کردار کھل کر سامنے آ چکا ہے اور پوری دنیا اس حقیقت سے واقف ہو چکی ہے اس دہشت گردی میں آل سعود رژیم کس قدر ملوث تھی۔
 
آل سعود رژیم نے امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیز کی جانب سے طے شدہ منصوبے کے تحت خطے میں تکفیری دہشت گرد عناصر کو مضبوط بنا کر پھیلایا۔ اس منصوبے کا مقصد خطے میں اسلامی مزاحمتی قوتوں کو نابود کر کے اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنانا تھا۔ لہذا سعودی حکمرانوں نے دل کھول کر داعش کی مالی، سیاسی، اخلاقی اور فوجی مدد کی۔ البتہ آل سعود رژیم سے اس بات کی توقع بھی کی جا رہی تھی کیونکہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے عقائد اور فکری سیٹ اپ وہابیت پر استوار تھا۔ اگر سعودی حکمران عراق، شام، لبنان اور یمن میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو مسلط کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو وہابیت کی بنیاد پر پورے خطے میں ایک نیا نظام ابھر کر سامنے آ جاتا۔
 
آل سعود رژیم یمن میں شدید ذلت و خواری کا شکار ہوئی ہے۔ سعودی حکمران توقع کر رہے تھے کہ "فیصلہ کن طوفان" نامی فوجی آپریشن کے ذریعے ایک ہفتے کے اندر اندر یمن پر قبضہ کر لیں گے۔ لیکن اب کئی سال گزر جانے کے بعد بھی نہ صرف مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائے بلکہ شدید شکست اور ناکامی سے بھی روبرو ہوئے ہیں۔ لہذا سعودی فرمانروا کی جانب سے ایران کے خلاف الزامات کی اصل وجہ اندرونی خلفشار اور عراق، شام، لبنان اور یمن کے محاذوں پر ذلت آمیز شکست ہے۔ دوسری طرف علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر، خاص طور پر مسئلہ فلسطین کے بارے میں معقول اور حق پر مبنی پالیسیوں کے باعث اسلامی جمہوریہ ایران کے روز بروز بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے بھی سعودی حکمرانوں کو شدید خوفزدہ کر رکھا ہے۔
خبر کا کوڈ : 888357
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش