0
Friday 6 Nov 2020 07:30

​​​​​​​امریکی صدر اور امریکی اسٹیبلشمنٹ

​​​​​​​امریکی صدر اور امریکی اسٹیبلشمنٹ
اداریہ
کچھ دن قبل امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان میں ڈیپ اسٹیٹ Deep State انتخابات پر اثرانداز ہوئی ہے۔ امریکہ کے حالیہ انتخابات اور ڈونالڈ ٹرامپ کا شور شرابہ اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ امریکی انتخابات میں بھی ڈیپ اسٹیٹ کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ شاید دنیا کی کوئی ریاست ڈیپ اسٹیٹ کو نظرانداز نہیں کرسکتی، جو اس کا دعویٰ کرتا ہے، وہ خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے، البتہ دنیا کی ہر ریاست میں ڈیپ اسٹیٹ کا کردار اپنے اپنے ملک کے معروضی حالات کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا جاتا ہے۔

امریکہ کی ڈیپ اسٹیٹ گذشتہ انتخابات میں ڈونالڈ ٹرامپ کی جیت کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے پر متفق نہ تھی، اس لیے موصوف تیس لاکھ ووٹ کم لیکر بھی وائٹ ہاوس میں براجمان ہوگئے۔ اس سال کے انتخابات میں صورت حال برعکس بھی ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تمام ریاستوں میں ڈیپ اسٹیٹ ہی بنیادی فیصلے کرتی ہے۔ اسی لیے صدر، وزیراعظم یا دیگر عہدیداروں کے لیے انتظامیہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی صدر، وزیراعظم اور وزراء وغیرہ فیصلون پر عمل درآمد کی ذمہ داری عائد کرتے ہیں۔ البتہ یہاں پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مقننہ کی اصظلاح یعنی قانون ساز ادارے کی بات بھی کی جاتی ہے۔

آج اگر غیر جانبدارانہ نظر سے دنیا بھر کی پارلیمانوں کے فیصلہ جات کا جائزہ لیا جائے تو کیا اس بات کو مانا جا سکتا ہے کہ ملک میں لاگو یا نافذ تمام قوانین یا انتظامیہ کو دیئے گئے وہ پروگرام اور منصوبے جنہیں انتظامیہ نے نافذ کرنا ہوتا ہے، وہ مقننہ یعنی قانون ساز ادارے کی طرف سے دیئے جاتے ہیں۔ مغربی جمہوریت کے حقائق تو امریکی انتخابات کا جائزہ لینے سے واضح اور نمایاں تر ہوتے جا رہے ہیں، باقی مغربی دنیا میں بھی بظاہر جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، وگرنہ ہر ملک کے اندر کنٹرول جمہوریت نافذ ہے، لیکن مخصوص خفیہ حربوں سے۔ بہرحال مغرب ہو، امریکہ ہو یا تیسری دنیا، اکثر جگہوں پر انسانی حقوق، جمہوریت، آزادی اظہار اور سنسرشپ کے حوالے سے دہرے معیارات موجود ہیں۔
خبر کا کوڈ : 896192
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش