0
Monday 14 Dec 2020 22:26

مینار پاکستان کے سائے تلے

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
مینار پاکستان کے سائے تلے
تحریر: ارشاد حسین ناصر

مینار پاکستان اس جگہ بنایا گیا ہے، جہاں 23 مارچ 1940ء کو پاکستان کے قیام کی معروف قرارداد پیش کی گئی اور اسے منظور کیا گیا تھا کہ اس خطے کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن کی ضرورت ہے، جس کی جدوجہد کے نتیجہ میں ہمیں انگریز سامراج سے آزادی ملی اور 14 اگست1947ء کو ایک عظیم مملکت دنیا کے نقشہ پر ابھری، جس کا نام پاکستان رکھا گیا تھا، جو اس خطے کے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کے ایک دیرینہ خواب کی عملی تعبیر تھی۔ یہ خواب علامہ اقبال نے بھی دیکھا اور اس جدوجہد میں شریک رہے، ان کے بلند شعور اور اعلیٰ دماغ سے نکلے ہوئے اشعار نے اس خطے کے لوگوں میں حریت و آزادی کی روح پھونک دی تھی۔ مینار پاکستان اسی جگہ، اسی قرارداد پاکستان کی یاد میں بنایا گیا تھا، جہاں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی۔ دراصل یہ جلسہ قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس تھا، اسے منٹو پارک کہتے تھے، اب مینار پاکستان کے گرائونڈ کو گریٹر اقبال پارک کا نام دیا گیا ہے، جبکہ اس کے بالکل سامنے معروف بادشاہی مسجد ہے، جس کی سیڑھیوں کے بائیں جانب علامہ اقبال محو راحت ہیں۔ مینار پاکستان کے سفید سنگ مر مر کے پتھروں پر جہاں کچھ تاریخ رقم کی گئی ہے، وہیں علامہ محمد اقبال (رہ) کے کئی معروف اشعار سے بھی مزین کیا گیا ہے۔

ایک زمانہ تھا، جب لاہور میں بیرون باغ موچی دروازہ گرائونڈ سیاسی جلسوں کیلئے بہت معروف جگہ تھی، موچی دروازہ گرائونڈ میں جلسہ کرنا بڑا معنی رکھتا تھا، مگر آبادی میں اضافہ اور کاروبار کے مراکز اس جانب بڑھنے کی وجہ سے یہ جگہ تنگ پڑ گئی اور لاہور میں بڑا جلسہ کرنے کیلئے مینار پاکستان کا گرائونڈ سیاسی و دینی جماعتوں و تحریکوں کو اپنی جانب کھینچنے لگا۔ اگرچہ یہاں جلسہ کرنا دل گردے کا کام ہوتا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے کہ اتنے بڑے گرائونڈ کو عوام سے بھرنے کیلئے بہت زیادہ محنت اور اخراجات اور اسے منظم کرنے کیلئے بڑی فورس درکار ہوتی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ مینار پاکستان کا سایہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا کہ ہر کوئی اپنی چادر دیکھ کے پائوں پھیلاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ 10 اپریل 1986ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو جب اپنی جلا وطنی ختم کرکے پاکستان تشریف لائی تھیں تو اس وقت اس مینار پاکستان کے سائے تلے جو مناظر اور مخلوق خدا دیکھی گئی، وہ اس کے بعد کسی کو نصیب نہیں ہوئی کہ لاہور کے پرانے ایئر پورٹ سے لیکر مینار پاکستان تک شاہراہیں بھی عوام سے بھری ہوئی تھیں، یہ کوئی عام دن نہیں تھے بلکہ بے نظیر بھٹو کے والد جناب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والے بدترین آمر ضیاء الحق کا جابرانہ دور اپنے عروج پہ تھا۔

مجھے یاد ہے ہم نے بھی اس مینار پاکستان کے سائے تلے چار بار حاضری لگائی ہے۔ پہلی بار 6 جولائی 1987ء منگل کا دن تھا، سخت گرمی تھی، قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی جو پاکستان میں امام خمینی کے نمائندہ اور ملت تشیع کے قائد منتخب تھے، ان کی للکار سننے کیلئے ملک بھر سے شیعیان حیدر کرار جوق در جوق تشریف لائے تھے۔ کہتے ہیں اس وقت بھی بہت سے بزرگان اور تنظیمی لوگوں نے شہید قائد کو مشورہ دیا تھا کہ موچی دروازہ گرائونڈ میں جلسہ کر لیں، ہمارے پاس اتنا برا عوامی پروگرام کرنے کا تجربہ بھی نہیں ہے اور ہم سیاست اور اجتماعی جدوجہد میں بھی نو وارد ہیں، مگر شہید قائد کی دور اندیش آنکھوں اور معرفت کی بلندیوں سے نکلے ہوئے الفاظ قطعی تھے، ان کی قاطعیت سے سب مان گئے اور تشیع پاکستان نے ایک تاریخ رقم کی، جسے سیاسی و سماجی حلقوں میں تازہ ہوا کا جھونکا سمجھا گیا۔

اس عظیم "قرآن و سنت کانفرنس" کے بعد سیاسی میدان میں ہماری ملت کی پیش قدمی جاری رہی اور ہم نظر انداز کئے جانے سے باہر آگئے۔ شہید قائد کی شہادت کے بعد اسی مقام پہ ہم نے "شہید الحسینی کانفرنس" کے نام سے اجتماع کیا، دراصل یہ کانفرنس شہید قائد کے قاتلوں کی گرفتاری کی تحریک کا حصہ تھی، اس کا اثر یہ ہوا کہ پشاور کا مرد آہن کہلانے والا فضل حق گرفتار ہوا، جبکہ 1994ء میں یہاں "عظمت اسلام کانفرنس" کے نام سے ایک اجتماع منعقد ہوا۔ اس دوران ملت کی قیادت علامہ ساجد علی نقوی کے پاس تھی، اس کے بعد ایک لمبے عرصہ کیلئے ہم منظر سے غائب ہوگئے، جس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جو ہمارے پیش نظر نہیں۔ قومیات کے کام اور اجتماعی جدوجہد کیلئے تنظیمیں بنانا اور انہیں مسلسل فعال رکھنا بہت سی قربانیوں، وسائل اور استقامت و جراءت مند قیادت کے بنا ممکن نہیں ہوتا، قومی جدوجہد میں اپنے پرائے سازشیں کرتے ہیں، لوگ استعمال ہوتے ہیں، لہذا ہر قدم بہت پھونک پھونک کے رکھا جاتا ہے، ہم بھی کئی سازشوں کا شکار ہوئے اور ہماری اجتماعی جدوجہد و کردار بہت ہی کم رنگ ہوگیا۔

ایک لمبے عرصہ کے بعد ہم اس قابل ہوئے کہ سیاسی و سماجی حلقوں نیز اپنی ملت میں اپنا کھویا ہوا وقار اور اعتماد بحال ہوتا نظر آیا، جس کے نتیجہ میں مجلس وحدت مسلمین کے نام سے ایک نئی جماعت معرض وجود میں آئی، جس نے علماء کے مقام و منزلت کو بحال کروانے میں اپنا کردار ادا کیا اور سیاست و سماج کے دیگر حلقوں میں بھی کھوئی ہوئی پہچان کروائی۔ دراصل یہ سب شہداء کے خون کا صلہ کہنا چاہیئے۔ کوئٹہ سے گلگت اور کراچی سے ڈیرہ اسماعیل خان تک ملک کے گوشے گوشے میں بے گناہ شیعیان حیدر کرار کے مقدس لہو کی تاثیر سے ہمیں بہت زیادہ محبت اور ہمدردی ملی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے شہداء کے خون کی پکار کیلئے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں احتجاجات اور دھرنوں سے ہماری قوم کے حوصلوں کو جلا ملی اور ہماری قوم نے ایک بار پھر اجتماعی سطح پر اپنے وجود کے اظہار کیلئے قومی پلیٹ فارم کی ضرورت کی اہمیت کا ادراک کر لیا۔

اسی دوران جب کچھ تنظیمی حالات بہتر ہوئے اور یونٹس و اضلاع میں اسٹرکچر قائم ہوئے تو مجلس کی قیادت اور ذمہ داران کو بھی حوصلہ ملا، جنہوں نے یکم جولائی 2012ء کو مینار پاکستان کے سائے تلے شہید قائد کی برسی کے عنوان سے "قرآن و سنت کانفرنس" کے انعقاد کا فیصلہ کیا، اتنے لمبے عرصہ کے بعد مینار پاکستان کا یہ اجتماع سخت گرمی اور حبس زدہ موسم میں ہوا، مگر سلام ہے کربلا کی پیرو اس ملت پر جس نے گرمی کی شدت اور موسم کی حدت کی پرواہ نہیں کی اور اس قومی اجتماع میں شرکت کو اپنا قومی فریضہ خیال کرتے ہوئے بھرپور جوش و جذبہ سے شرکت کی۔ مینار پاکستان پر جلسہ یا کانفرنس کرنے کا فیصلہ ہی ایک بڑے ہدف اور مقصد کی علامت سمجھا جاتا ہے، جبکہ اس جگہ ایک کامیاب جلسہ کر لینا تو کسی بھی جماعت یا ملت کیلئے بڑی کامیابی ہی کہا جائے گا۔

اس بات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ کہ گذشتہ روز ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے کا کتنا شور جلسے سے قبل کس طرح برپا تھا، کہیں سے آر یا پار کی صدا آ رہی تھی تو کہیں سے فائنل میچ کا نقارہ بجا رہے تھے، کوئی کس کو الٹی میٹم دے رہا تھا تو کوئی کسی کو اکھاڑنے پچھاڑنے کی بات کر رہا تھا، جلسہ ہوا، وہی تقریریں ہوئیں، اسی مینار پاکستان کے سائے تلے للکارا گیا، اسی مینار پاکستان کے سائے تلے چیلنج دیئے گئے، اسی مینار پاکستان کو مولانا فضل الرحمن نے مقدس جگہ کہا، جن کے والد اور دیگر بزرگان پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کا الزام ہے۔ یقیناً موجودہ کرونا وبا کے دنوں میں سخت سرد دن و رات میں عوامی شرکت کے لحاظ سے یہ ایک کامیاب جلسہ ہی تھا، اتنے لوگوں کا باہر نکلنا اور ایک تحریک کیلئے ہم آواز ہونا بہت با معنی ہے، اس لئے کہ یہ صرف 13 دسمبر کو مینار پاکستان پر جلسے کی بات نہیں تھی، بلکہ جب سے یہ جلسے کا علان ہوا تھا، اس وقت سے مسلسل یہ لوگ میڈیا کوریج لے رہے تھے اور عوام و خواص کے پاس یہی ایک موضوع تھا، جسے سب ہی زیر بحث لا رہے تھے۔

اصل بات یہی تھی کہ جلسے سے قبل اور جلسے کے دو دن بعد بھی یہ جلسہ ہماری عوام کے ذہنوں پہ سوار ہے۔ بس یہی کامیابی ہے اپوزیشن کی اور ہمیشہ کی طرح ایک نئی تاریخ اور نئی امید دے کر اپنے لوگوں کو مطمئن کر دیا جاتا ہے۔ پچھلے دور میں جناب شیخ رشید صاحب جو اب وزیر داخلہ کا منصب سنبھال چکے ہیں، ہر میڈیا ٹاک میں حکومت جانے کی تاریخیں دیتے رہتے تھے، اب یہ کردار بدل گیا ہے، اب ان کے مخالفین یہ کام کر رہے ہیں۔ اس وقت ان کی ضرورت تھی، اب ان کی ضرورت ہے۔ پاکستانی سیاست کے یہ رنگ مینار پاکستان ہر دور میں دیکھتا آرہا ہے، ہر ایک اسی کے سائے تلے آکر للکارتا ہے، ہر ایک اسی کے سائے تلے چیلنج دیتا ہے، اپنی پاور کا شو کرتا ہے اور مینار پاکستان گرائونڈ میں منظور ہونے والی عظیم قرارداد پاکستان کی یاد سے خود کو متصل کرتا ہے، مگر علامہ اقبال (رہ) کے لکھے ہوئے ان اشعار پہ غور نہیں کرتا، جس سے حقیقی تبدیلی کی نوید ملتی ہے،۔۔۔اقبال فرماتے ہیں۔۔
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا

اگر مینار پاکستان کی زبان ہوتی تو وہ اس کے سائے تلے آکر للکارنے والوں کو اقبال کے بندہ مومن کی اذاں سننے کا تقاضا اور فرمائش ضرور کرتا۔
خبر کا کوڈ : 903744
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش