0
Saturday 19 Dec 2020 16:57

سازشوں کا بازار

سازشوں کا بازار
اداریہ
ایران نے اپنے پرامن ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہر طرح کی لچک دکھائی اور عالمی طاقتوں نیز ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کو گذشتہ دو دہائیوں میں کئی بار باور کرایا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، لیکن ایران کے سیاسی و نظریاتی دونوں دشمن ایران کے ایٹمی پروگرام کو متنازعہ بنانے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایران سے پہلے بھی کئی ممالک ایٹمی توانائی کے حصول میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ ان میں سے اسرائیل سمیت بعض ممالک تو این پی ٹی کے ممبر بھی نہیں ہیں۔ لیکن ایران کے ایٹمی پروگرام کو امریکہ اور اس کے حواری ہمیشہ عالمی مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور اسے عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو واضح اور شفاف انداز سے عالمی اداروں اور عالمی طاقتوں میں پیش کرنے کے لیے پانچ جمع ایک ممالک میں مذاکرات کا ایک طویل دورانیہ گزار کر ایک عالمی معاہدہ پر دستخط بھی کیے ہیں، لیکن امریکہ کی طرف سے اس معاہدے سے نکل جانے اور یورپی ٹرائیکا کی طرف سے اس معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے یہ معاہدہ بھی معطلی کا شکار ہے۔ اب جبکہ امریکہ میں نئے صدر جوبائیڈن کی طرف سے اس معاہدے میں دوبارہ آنے کی باتیں چل رہی ہیں تو ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کے سربراہ رافائیل گروسی نے ایک متنازعہ بیان دیکر اس معاہدے کے بارے میں تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔

انہوں نے اس معاہدے کے بارے میں ازسرنو مذاکرات کی مبینہ بات کی ہے، جس پر عالمی اداروں میں ایران کے مستقل نمائندے کاظم غریب آبادی نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے زور دیکر کہا ہے کہ اس عالمی معاہدے کے بارے میں مزید کوئی بات نہیں ہوگی اور اس میں معمولی تبدیلی کے بارے میں بھی کوئی مذاکرات نہیں ہونگے۔ آئی اے ای اے کے سربراہ گروسی نے اگرچہ یہ کہا ہے کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر بیان کیا گیا ہے، لیکن رائیٹر کی طرف سے اس خبر کو بیان کرنا اتفاق نہیں ہوسکتا۔ صیہونی میڈیا اسکو اپنے حق میں استعمال کرنا جاہتا ہے، لیکن ایران نے اپنا اصولی موقف دہرایا ہے کہ عالمی معاہدہ میں کوئی تبدیلی قابل قبول نہیں اور اس پر دوبارہ مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خبر کا کوڈ : 904852
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش